Wednesday 1 July 2015

داستان ایمان فروشوں کی جلد دوم قسط نمبر 8 اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے؟ : ایڈمن شہزادی دستک پیج


صلیبیوں کا سن ١١٧٤ء دنیائے اسلام کے لیے اچھا ثابت نہ ہوا۔ یہ مسلمانوں کا سن ٥٦٩ہجری تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو علی بن سفیان نے سال کے آغاز میں یہ خبر سنائی کہ عکرہ میں اپنا ایک جاسوس شہید ہوگیا ہے اور دوسرا پکڑا گیا ہے۔ یہ اطلاع ایک اور جاسوس لایا تھا جو ان دونوں کے ساتھ تھا۔ یہ جاسوس کچھ قیمتی معلومات بھی لایا تھا لیکن ایک جاسوس کی شہادت اور دوسرے کی گرفتاری نے سلطان ایوبی کو پریشان کردیا۔ علی بن سفیان بھانپ گیا کہ سلطان ایوبی کچھ زیادہ ہی پریشان ہوگیا ہے۔ فوجی سراغ رسانی اور جاسوسی کا یہ ماہر سربراہ جانتا تھا کہ سلطان ایوبی نے سینکڑوں فوجیوں کی شہادت پر بھی کبھی پریشانی اور افسوس کا اظہار نہیں کیا لیکن ایک چھاپہ مار یا کسی ملک میں بھیجے ہوئے ایک جاسوس کی شہادت کی خبر سن کر اس کا چہرہ بجھ جایا کرتا تھا۔
اب ایک جاسوس کی شہادت اور ایک کی گرفتاری کی اطلاع پر علی بن سفیان نے سلطان ایوبی کے چہرے پر رنج کا تاثر دیکھا تو اس نے کہا… ''امیر محترم! آپ کا چہرہ اداس ہوتاہے تو لگتا ہے سارا عالم اسلام ملول ہوگیا ہے۔ اسلام کی آبرو جانوں کی قربانی مانگتی ہے۔ ایک دن ہم دونوں کو بھی شہید ہونا ہے۔ ہمارے دو جاسوس ضائع ہوگئے ہیں تو میں دو اور بھیج دوں گا۔ یہ سلسلہ رک تو نہیں جائے گا''۔
         ''یہ سلسلہ رک جانے کا مجھے خدشہ نہیں علی!'' سلطان ایوبی نے رنجیدہ سی مسکراہٹ سے کہا… ''کسی چھاپہ مار کی شہادت میرے ذہن میں یہ سوچ بیدار کردیتی ہے کہ ایک یہ سرفروش ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل، وطن سے دور، اپنے بیوی بچوں، بہن بھائیوں اور ماں باپ سے دور دشمن کے ملک میں تن تنہا اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور جان کی قربانی دیتے ہیں اور ایک یہ ایمان فروش ہیں جو گھروں میں بادشاہوں کی طرح رہتے، عیش وعشرت کرتے اور اسلام کی جڑیں کاٹنے میں اپنے دشمن کا ہاتھ بٹاتے ہیں''۔
         ''کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ سالاروں، نائب سالاروں اور تمام کمان داروں کو باقاعدہ وعظ دئیے جایا کریں؟'' علی بن سفیان نے کہا… ''آپ انہیں مہینے میں ایک بار اسلام کی عظمت اور صلیبیوں کے عزائم کے متعلق وعظ دیا کریں۔ میرا خیال ہے کہ جن کا رجحان دشمن پروری کی طرف ہے، انہیں بتایا جائے کہ ان کا دشمن کون ہے اور کیسا ہے تو وہ اپنے خیالات میں تبدیلی پیدا کرلیں گے''۔
         ''نہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''جب انسان ایمان بیچنے پر آتا ہے تو اس کے آگے قرآن رکھ دو تو وہ اس مقدس کتاب کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دے گا۔ ایک طرف صرف الفاظ ہوں اور دوسری طرف دولت، عورت اور شراب تو انسان الفاظ سے متاثر نہیں ہوتا۔ الفاظ نشہ دے سکتے ہیں، بادشاہی نہیں دے سکتے۔ ہماری قوم کے غدار بچے نہیں، وہ گنوار اور جاہل نہیں۔ وہ سب حاکم ہیں۔ فوج اور حکومت کے اونچے عہدے کے لوگ ہیں۔ وہ سپاہی نہیں۔ دشمن کے ساتھ سازباز حاکم ہی کیا کرتے ہیں۔ سپاہی لڑتے اور مرتے ہیں۔ انہیں جھانسے دے کر بغاوت پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ میں کسی کو وعظ اور خطبہ نہیں دوں گا۔ خطبے دینے والے حکمران دراصل کمزور اور بددیانت ہوتے ہیں۔ وہ قوم کا دل الفاظ سے اور جوشیلے خطبوں سے پرچایا کرتے ہیں۔ خطبے اور تقریریں کمزوری کی علامت ہوتی ہیں۔ میں فوج اور قوم سے یہ نہیں کہوں گا کہ ہم فاتح اور خوشحال ہیں۔ میں حالات کو بدلوں گا پھر حالات بتائیں گے کہ ہم امیر ہیں یا غریب، فاتح ہیں یا شکست خوردہ۔ قوم اور فوج مجھے سے اناج مانے گی تو میں انہیں الفاظ کی خوراک نہیں دوں گا۔ غداروں کو میں سزا دوں گا۔ انہیں جینے کے حق سے محروم کردوں گا۔ علی بن سفیان! مجھے الفاظ میں نہ الجھائو۔ اگر مجھے بولنے کی عادت پڑ گئی تو میں جھوٹ بولنا بھی شروع کردوں گا''۔
مصر میں بغاوت کا جو خطرہ پیدا ہوگیا تھا، وہ ختم کردیا گیا تھا۔ اعلیٰ عہدوں کے چند ایک حاکم پکڑے گئے اور سزا پاچکے تھے۔ دونے خود ہی سلطان ایوبی کے پاس آکر اقبال جرم کیا اور معافی لے لی تھی۔ سلطان ایوبی کا یہ کہنا بالکل صحیح تھا کہ غداری اور بے اطمینانی پیدا کرنے کے ذمہ دار مفادپرست حاکم ہوتے ہیں۔ فوج اور قوم کو گمراہ کرکے سبز باغ دکھائے جاتے اور بغاوت پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ مصر میں ١١٧٤ء کے آغاز تک فوج میں بغاوت کا نام ونشان تک نہ رہا تھا۔ البتہ صلیبی جاسوسی اور تخریب کاری میں بدستور مصروف تھے۔ صلیبیوں کے جاسوس اور تخریب کار مصر میں موجود اور سرگرم تھے۔ یہ سلسلہ روکا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ سلطان ایوبی نے بھی اپنے جاسوس ان علاقوں میں بھیج رکھے تھے جو صلیبیوں کے قبضے میں تھے۔ سلطان ایوبی اس زمین دوز جنگ کا ماہر تھا۔
پاک فلسطین کی سرزمین کا ایک مقام تھا جو اس لحاظ سے اہم تھا کہ وہاں صلیبیوں کا سب سے بڑا پادری ہے جسے صلیب اعظم کا محافظ کہا جاتا تھا، رہتا تھا۔ وہیں سے صلیبی کمانڈر ہدایات اور حوصلہ افزائی حاصل کرتے تھے اور عکرہ اس دور میں صلیبیوں کی ہائی کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر بن گیا تھا۔ جب نورالدین زنگی نے کرک کا قلعہ فتح کرلیا تو صلیبی عکرہ کو ہیڈکوارٹر بنا کر بیت المقدس کو سلطان ایوبی اور نورالدین زنگی سے بچانے کی سکیمیں بنا رہے تھے۔ وہاں کے حالات معلوم کرنے اور دشمن کی سکیم کی اطلاع کرک میں زنگی کو یا قاہرہ میں سلطان ایوبی کو پہنچانے کے لیے تین جاسوس بھیج دئیے گئے تھے۔ ان کا کمانڈر عمران نام کا ایک نڈر اور ذہین جاسوس تھا۔ یہ علی بن سفیان کا انتخاب تھا۔
یہ تینوں نہایت خوبی سے عکرہ میں داخل ہوگئے تھے۔ جیسا کہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ سلطان ایوبی نے شوبک کا قلعہ اور شہر فتح کیا تو وہاں سے بے شمار عیسائی اور یہودی کرک کی طرف بھاگ گئے تھے۔ مسلمانوں نے کرک پر چڑھائی کرکے یہ شہر بھی لے لیا تو وہاں سے بھی غیرمسلم بھاگے اور مختلف مقامات پر چلے گئے۔ ان دونوں مفتوحہ جگہوں کے اردگرد کے علاقوں کے بھی عیسائی اور یہودی بھاگ گئے تھے۔ سلطان ایوبی کا انٹیلی جنس کا محکمہ بھی اپنی فوج کے ساتھ تھا۔ علی بن سفیان کی ہدایت کے مطابق کئی جاسوس عیسائیوں کے بہروپ میں عیسائیوں کے علاقوں میں بھیج دئیے گئے۔ ان میں سے تین کو یہ مشن دیا گیا کہ وہ عکرہ سے جنگی معلومات حاصل کرکے قاہرہ بھیجیں۔ انہیں وہاں صلیبی فوج کی نقل وحرکت پر نظر رکھنی تھی۔ غیرمسلم آبادی میں مسلمان فوج کی دہشت بھی پھیلانی تھی اور یہ اطلاع بھی دینی تھی کہ وہاں کس قسم کی تباہ کاری (سبوتاژ) کی جاسکتی ہے۔
یہ تینوں لٹے پٹے عیسائیوں کے بہروپ میں عکرہ داخل ہوگئے۔ ان دنوں وہاں یہ حالت تھی کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ وہ سب ہراساں تھے اور پناہیں ڈھونڈ رہے تھے۔ پناہ کے بعد روزگار کا مسئلہ تھا۔ عمران اور ان کے دونوں جاسوسوں کو وہاں عیسائیوں کی حیثیت سے پناہ مل گئی۔ تینوں ذہین اور تربیت یافتہ تھے۔ عمران سیدھا بڑھے پادری کے پاس چلا گیا۔ اپنے آپ کو کسی ایسے علاقے کا پناہ گزین ظاہر کیا جس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔ اس نے اس طرح باتیںکیں جیسے اس پر مذہب کا جنون طاری ہے اور وہ خدا کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کی بیوی اور بچے مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ اسے ان بچوں کا اور بیوی کا کوئی غم نہیں، اس نے بیتابی سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ کلیسا کی خدمت کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس نے سنا ہے کہ خدا اور روحانی سکون کلیسا میں ہے۔ اس نے اپنانام جان گنتھر بتایا۔
         ''…اور میں نے تو اسلام قبول کر ہی لیا تھا''۔ عمران نے پادری سے کہا… ''ان کے ایک مولوی نے کہا تھا کہ خدا مسجد میں ہے، میری بیوی اور میرے بچے مجھ سے نالاں اور شاکی تھے کہ میں کوئی کام کاج نہیں کرتا تھا۔ خدا اور روحانی سکون کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا۔ میں خدا کے وجود پر یقین رکھتا ہوں۔ وہ خدا ہی تھا جس نے میری بیوی کو مسلمانوں کے ہاتھوں مروا کر اپنی پناہ میں لے لیا کیونکہ جو اس کا خاوند تھا، اسے روٹی نہیں دیتا تھا۔ وہ خدا ہی تھا جس نے میرے بچوں کو بھی سنبھال لیا کیونکہ وہ ماں کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے اور میں جو ان کا باپ تھا، ان کی طرف سے بے پروا تھا۔ میں مسلمان ہوچلا تھا مگر مسلمانوں نے میرے معصوم بچوں کو مار ڈالا۔ انہوں نے ہم پر بہت مظالم ڈھائے۔ میں جان گیا کہ خدا مسلمان کے سینے میں نہیں ہے، کہیں اور ہے''۔
اس نے اچانک پادری کے کندھے تھام کر اسے جھنجھوڑا اور دانت پیس کر پوچھا… ''مقدس باپ! مجھے بتائو میں پاگل تو نہیں ہوگیا؟ میں اپنی جان اپنے ہاتھوں لے لوں گا۔ میں اگلے جہان تمہارا گریبان پکڑ کر خدا کے سامنے لے جائوں گا اور کہوں گا کہ یہ شخص مذہبی پیشوا نہیں، ایک ڈھونگ تھا۔ اس نے مذہب کے نام پر لوگوں کو دھوکے دئیے ہیں''۔
اس کی ذہنی کیفیت ایسی ہوگئی کہ صلیب اعظم کا محافظ چونک پڑا۔ اس نے عمران کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا… ''تم میرے غمزدہ بیٹے ہو۔ خدا تمہارے اپنے سینے میں ہے جو تمہیں خدا کے بیٹے کے معبد میں نظر آئے گا۔ تم عیسائی ہو جان گنتھر! تم اسی مذہب اور اسی روپ میں خدا کو پالو گے۔ تم جائو، ہر صبح میرے پاس آجایا ک رو۔ میں تمہیں خدا دکھا دوں گا''۔
         ''میں کہیں نہیں جائوں گا مقدس باپ!''۔ عمران نے کہا… ''میرا کوئی گھر نہیں، دنیا میں میرا کوئی نہیں رہا۔ مجھے اپنے پاس رکھیں۔ میں آپ کی اور خدا کے بیٹے کی معبد کی اتنی خدمت کروں گا، جتنی آپ نے بھی نہیں کی''۔
عمران نے علی بن سفیان سے تربیت لی تھی۔ اسے اور اس کے ساتھیوں کو چونکہ صلیبیوں کے راز معلوم کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا، اس لیے انہیں عیسائیت کے متعلق گرجوں کے اندر کے آداب اور طور طریقوں کے متعلق نہ صرف معلومات دی گئیں بلکہ ریہرسل کو ایسی خوبی سے عملی شکل دی کہ بڑا پادری اور اس کے چیلے چانٹے اس سے بہت متاثر ہوئے اور اسے گرجے میں رکھ لیا۔ عمران نے پادری کی خدمت ایسا والہانہ انداز سے شروع کردی کہ وہ پادری کا خصوصی ملازم بن گیا چونکہ وہ ذہین بھی تھا، اس لیے اس نے پادری کے دل پر قبضہ کرلیا۔ پادری نے تسلیم کرلیا کہ یہ شخص غیرمعمولی طور پر ذہین ہے لیکن اس پر مذہب کا جنون اتنی شدت سے طاری ہوگیا ہے کہ اس کی ذہانت بے کار ہورہی ہے۔ پادری نے اس کی تعلیم وتربیت شروع کردی۔
٭      ٭      ٭
عمران کا ایک ساتھی ایک عیسائی تاجر کے پاس گیا اور بتایا کہ وہ کرک سے بھاگا ہوا عیسائی ہے جہاں اس کا سارا خاندان مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ اس نے اپنی داستان غم ایسے جذباتی انداز سے سنائی کہ تاجر نے اسے اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ وہ رحیم ہنگورہ نام کا سوڈانی مسلمان تھا۔ عمران کی طرح ذہین، دلیر اور خوبرو۔ اس نے اس تاجر کا انتخاب سوچ سمجھ کرکیا تھا۔ اس نے چند دن صرف کرکے دیکھا تھا کہ وہاں صلیبی فوج کے افسر آتے ہیں اور فوج کے لیے
سامان خریدتے ہیں۔ ٹریننگ اور اپنی عقل کے زور پر وہ تاجر کا قابل اعتماد ملازم بن گیا۔ چند دنوں بعد تاجر نے اسے گھر کے کام بھی دینے شروع کردئیے۔ رحیم نے ایلی مور نام کے عیسائی سے تاجر کے گھر والوں پر بھی اپنا اثر قائم کرلیا۔ اس کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ اس نے تاجر کی بیوی، اس کی جوان بیٹی اور بیٹے کو ایسے انداز سے اپنی تباہی کی کہانی سنائی تھی کہ ان سب کے آنسو نکل آئے تھے۔ اس نے انہیں بتایا کہ اس کا مکان انہی کے مکان جیسا تھا، ایسی ہی سجاوٹ تھی، ایسا ہی سامان تھا۔ اعلیٰ نسل کا ایک گھوڑا تھا۔ تاجرکی بیٹی جیسی خوبصورت جوان بہن تھی۔ اس کے گھر میں حاجت مندوں کو نوکر رکھا جاتا اور بھوکوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ اب خدا نے یہ دن دکھایا ہے کہ میں نوکری کررہا ہوں۔
تاجرکی بیٹی ایلس اس سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئی۔ وہ رحیم سے اس کی بہن کے متعلق ہی پوچھتی رہی۔ رحیم نے کہا… ''وہ بالکل تمہاری طرح تھی۔ تمہیں دیکھ کر مجھے بہن اور زیادہ یاد آنے لگی ہے اگر وہ مرجاتی تو اتنا غم نہ ہوتا۔ غم یہ ہے کہ مسلمان اسے اٹھا لے گئے ہیں۔ تم سمجھ سکتی ہو کہ اس کا کیا حال ہورہا ہوگا۔ مجھے اب یہی غم کھائے جارہا ہے کہ اسے مسلمانوں سے کس طرح رہائی دلائوں۔ کبھی دل میں زیادہ ابال اٹھا تو شاید میں پاگلوں کی طرح وہیں جا پہنچوں، جہاں بہن کو چھوڑ آیا ہوں۔ بہن تو نہیں ملے گی، مجھے موت مل جائے گی۔ میں زندہ نہیں رہنا چاہتا''۔
ماں بیٹی نے ضرور سوچا ہوگا کہ اتنا خوبرو جوان جوانی کی عمر میں ہی غم میں گھلنے لگا ہے اور اس کی جذباتی حالت بتا رہی ہے کہ اس کا غم ہلکا نہ کیا گیا تو یہ پاگل ہوجائے گا یا خودکشی کرلے گا۔ ایلس جو تاجر کی جوان اور غیرشادی شدہ بیٹی تھی، رحیم کے درد کو اپنے دل میں محسوس کرنے لگی۔ یہاں تک کہ رحیم جب باہر نکلا تو ایلس نے کسی بہانے باہر جاکر رحیم کو راستے میں روک لیا اور کہا وہ ان کے گھر آتا رہا کرے۔ اس نے رحیم سے کچھ جذباتی باتیں کرکے اس کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کی۔ ماں بیٹی نے تاجر سے بھی کہا کہ اس آدمی کا خیال رکھے۔ دراصل رحیم کی شکل وصورت اور ڈیل ڈول ایسی تھی کہ وہ کسی اونچے اور کھاتے پیتے خاندان کا بیٹا لگتا تھا۔ اس تاثر میں اگر کوئی کسر تھی تو وہ اس کی زبان اور اداکاری سے پوری ہوجاتی تھی جس کی اسے ٹریننگ دی گئی تھی۔
تین چار روز بعد وہ تاجر کے پاس بیٹھا تھا کہ اسے اپنا ایک ساتھی جاسوس رضا الجاوہ نظر آگیا۔ رحیم اس کے پیچھے پیچھے گیا اور اس کے ساتھ ساتھ چلتے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کررہا ہے۔ معلوم ہوا کہ اسے کوئی ٹھکانہ نہیں ملا۔ رضا تجربہ کار گھوڑ سوار تھا اور گھوڑے پالنے اور سنبھالنے کی مہارت رکھتا تھا۔ رحیم اسے تاجر کے پاس لے آیا اور اس کا تعارف فرانسس کے نام سے کراکے کہا کہ یہ بھی کرک کا لٹا پٹا عیسائی ہے۔ اسے کہیں نوکر کرادیا جائے۔ رحیم نے کہا یہ گھوڑوں کے سائیسوں کا انچارج تھا۔ یہی کام کرسکتا ہے۔ تاجر نے کہا کہ اس کے پاس بڑے بڑے فوجی افسر آتے رہتے ہیں۔ ان کی وساطت سے وہ فرانسس کو ملازمت دلا دے گا… دو تین روز بعد رضا کو اس اصطبل میں ملازمت مل گئی جہاں فوج کے بڑے افسروں کے گھوڑے رہتے تھے۔
تاجر کے پاس فوج کے افسر آتے رہتے اور وہ ان کے پاس جاتا رہتا تھا۔ رحیم نے دیکھا کہ تاجر ان افسروں کو شراب اور حشیش کے علاوہ چوری چھپے عورتیں بھی دیا کرتا تھا، اس طرح اس نے ان سب کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا۔ رحیم تاجر کو صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کے خلاف بڑھکاتا رہتا اور اس خواہش کا اظہار کرتا رہتا تھا کہ صلیبی فوج پورے عرب اور مصر پر قابض ہوجائے اور کوئی مسلمان زندہ نہ رہے۔ اس خواہش میں وہ بعض اوقات اتنا بیتاب اور بے قابو نظر آتا تھا جیسے عکرہ کے مسلمانوں کا خون پی لے گا۔ تاجر اسے تسلی دیتا رہتا تھا کہ صلیبی فوج اس کی خواہش پوری کردے گی۔ وہ صلیبی فوج کے ان افسروں کو بھی برا بھلا کہنے لگتا تھا جو عکرہ میں بیٹھے عیش کررہے تھے۔ ان جذباتی باتوں کے ساتھ ساتھ رحیم عقلمندی کی باتیں بھی کرتا تھا اور مسلمانوں کو شکست دینے کے لیے ایسے جنگی نقشے اور منصوبے بناتا تھا کہ تاجر اسے غیرمعمولی طور پر دانشمند سمجھتا تھا۔ ایسے ہی جذبات اور دانشمند باتوں کا نتیجہ تھا کہ تاجر نے اسے وہ فوجی راز دینے شروع کردئیے جو اسے فوجی افسروں سے حاصل ہوتے تھے۔
اس کے ساتھ ہی ایلس رحیم کی گرویدہ ہوگئی۔ رحیم نے ابتدا میں اسے بھی اپنے فرض کی ایک کڑی سمجھا لیکن ایلس کے والہانہ پن نے رحیم کے دل میں اس کی محبت پیدا کردی۔ رحیم نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ اپنا فرض پورا کرکے وہ ایلس کو اپنے ساتھ قاہرہ لے جائے گا اور اسے مسلمان کرکے اس کے ساتھ شادی کرلے گا مگر ابھی دونوں کو معلوم نہیں تھا کہ صلیبی فوج کا ایک بڑا افسر اس لڑکی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
رضا الجاوہ بھی تربیت یافتہ جاسوس تھا۔ اصطبل میں اسے فوج کے کسی بڑے افسر کا گھوڑا مل گیا تھا۔ اس افسر نے محسوس کیا کہ رضا عام قسم کا سائیس نہیں بلکہ عقل ودانش بھی رکھتا ہے۔ وہ باتیں ہی ایسی کرتا تھا، جب کبھی یہ افسر اصطبل میں آتا تو رضا اس سے پوچھتا۔ ''صلاح الدین ایوبی کو آپ کب شکست دے رہے ہیں؟'' اور پھروہ بتاتا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں کیا خوبیاں اور صلیبی فوج میں کیا خامیاں ہیں۔ ایک روز اس نے کوئی ایسی بات کہہ دی جو اگر کوئی جنگی امور کا ماہر نہ کہے تو کم از کم ایک سائیس کے دماغ میں نہیں آسکتی۔ اس افسر نے اسے کہا۔ ''تم کون ہو؟ تمہارا پیشہ سائیسی نہیں ہوسکتا''۔
        ''آپ کو کس نے بتایا ہے کہ میرا پیشہ سائیسی ہے؟ ''رضا نے کہا ''میں کرک میں گھوڑوں کا مالک تھا۔ میں خود تو فوج میں نہیں تھا، میرے دو گھوڑے جنگ میں گئے تھے۔ یہ تو زمانے کے انقلاب ہیں کہ گھوڑوں کا مالک آج اصطبل میں سائیس ہے۔ مجھے اس کا کوئی غم نہیں، اگر آپ صلاح الدین ایوبی کو شکست دے دیں تو میں باقی عمر آپ کے جوتے صاف کرتے گزار دوں گا''۔
        ''صلاح الدین ایوبی کی قسمت میں شکست لکھ دی گئی ہے فرانسس!'' اس نے رضا سے کہا۔
        ''لیکن کیسے؟'' رضا نے کہا… ''اگر ہمارے بادشاہوں نے کرک اور شوبک پر حملہ کیا اور مسلمانوں کو اسی طرح محاصرے میں لے کر شکست دینے کی کوشش کی جس طرح انہوں نے ہمیں محاصرے میں لیا تھا تو آپ کامیاب نہیں ہوں گے۔ صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی جنگ کے استاد ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ انہوں نے ہماری فوج کو قلعوں سے دور روکنے کا اہتمام کررکھا ہے۔ عقل مندی اس میں ہوگی کہ حملہ کسی ایسی سمت سے کیا جائے جو ایوبی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو۔ ایوبی اور زنگی قلعوں میں بیٹھے رہیں اور آپ مصر پر چھا جائیں''۔
        ''ایسے ہی ہوگا''۔ افسر نے معنی خیز مسکراہٹ سے کہا… ''سمندر میں کوئی قلعہ نہیں ہوتا، مصر کے ساحل پر کوئی قلعہ نہیں۔ مصر پر اب صلیب کی حکمرانی ہوگی''۔
یہ ابتدا تھی۔ اس کے بعد رضا نے اس افسر سے کئی ایک راز کی باتیں معلوم کرلیں۔ دشمن اپنا جنگی راز تفصیل سے بیان نہیں کیا کرتا۔ ہوشیار جاسوس اشاروں میں باتیں اگلوا لیتا اور ان اشاروں کو اپنے فن کے مطابق جوڑ کر وہ کہانی بنا لیتا ہے جسے راز کہتے ہیں۔
٭      ٭      ٭
رحیم اور رضا ہر اتوار کو صبح گرجے میں جاتے اور عمران سے ملاقات کرلیتے اور اسے اپنی رپورٹیں بھی دیا کرتے تھے۔ رحیم نے عمران کو بتا دیا تھا کہ تاجر کی بیٹی ایلس اسے بڑی شدت سے چاہنے لگی ہے۔ عمران نے اسے کہا کہ وہ اس کی محبت کو ٹھکرائے نہیں، ورنہ اسے اس جگہ سے نکال دیا جائے اور یہ احتیاط بھی کرے کہ اس کی محبت میں ہی نہ گم ہوجائے مگر رحیم ایلس کے حسن وجوانی میں گم ہوتا چلا جارہا تھا۔ لڑکی نے اسے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ان کی شادی صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ وہ عکرہ سے بھاگ چلیں کیونکہ کوئی فوجی افسر لڑکی کے باپ کے ساتھ دوستانہ گانٹھ رہا تھا۔ رحیم نے عمران کو یہ صورتحال نہ بتائی۔
عمران نے پادری کا قرب اور اعتماد اس حد تک حاصل کرلیا تھا کہ اس کا ہمراز درباری بن گیا تھا۔ وہ پادری سے ایسے سوال پوچھتا تھا جن میں ذہانت کی پختگی اور علم کی تشنگی ہوتی تھی۔ پادری اپنی فراغت کے اوقات میں اسے مذہب کے سبق دیا کرتا تھا۔ وہ عمران کو یہ ذہن نشین کرا رہا تھا کہ عیسائیت کا یہ فرض ہے کہ کرۂ ارض سے اسلام کا وجود ختم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جنگ کی جائے اور جو بھی ذریعہ کامیاب ہوسکتا ہے، استعمال کیا جائے۔ ضروری نہیں کہ مسلمانوں کو قتل کیا جائے۔ انہیں ہر ذریعے سے عیسائیت میں لانے کی کوشش کی جائے۔ اگر وہ عیسائیت قبول نہ کریں تو ان کے ذہنوں سے اسلام بھی نکال دیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان میں بدی کا بیج بو دیا جائے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اپنی عورتوں کو استعمال کیا جائے۔ یہ عورتیں مسلمان عورتوں میں بدکاری پیدا کریں اور جون لڑکیاں مسلمان نوجوانوں اور ان کے حکمرانوں اور حاکموں کا کردار تباہ کریں۔ چونکہ یہودی بھی مسلمانوں کے دشمن ہیں اور وہ اپنی عورتوں کو استعمال کرتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو تباہ کاری کے لیے یہودی عورتوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مقصد یہ سامنے رکھا جائے کہ مسلمانوں کا نام ونشان مٹانا ہے۔ پھر ہر طریقہ اختیار کیا جائے، وہ خواہ دوسروں کی نظر میں ناجائز، ظالمانہ اور شرمناک ہی کیوں نہ ہو۔
عمران پادری سے ایسی باتیں سنتا اور اطمینان کا اظہار کرتا رہتا تھا۔ وہاں فوجی افسر اور حکومت کے افسر بھی آتے رہتے تھے۔ ان دنوں چونکہ صلیبیوں کو یکے بعد دیگرے دو میدانوں میں شکست کھا کر بھاگنا پڑا تھا، اس لیے عکرہ میں ہر کسی کی زبان پر یہی سوال تھا کہ جوابی حملہ کب کیا جائے گا۔ پادری کی ذاتی محفل میں تو اور کوئی بات ہوتی ہی نہیں تھی۔ عمران وہاں سے قیمتی راز حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا جارہا تھا۔ اس نے یہ بھی معلوم کرلیا کہ صلیبی حکمرانوں میں اتفاق اور اتحاد نہیں ہے۔ ان کی اپنی بادشاہیاں اور سلطنتیں تھیں، وہ چونکہ ہم مذہب تھے، اس لیے صلیب پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے اسلام کے خاتمے کی جنگ شروع کردی تھی مگر اندر سے وہ پھٹے ہوئے تھے۔ ان میں ایسے بھی تھے جو درپردہ مسلمانوں کے ساتھ صلح اور معاہدہ کرکے اپنی صلیبی بھائیوں کے ساتھ مل کر جنگ کی تیاریاں بھی کرتے رہتے تھے۔ ان میں قابل ذکر سیزر مینوئل تھا جس نے ایک میدان میں نورالدین زنگی کے ساتھ صلح کرکے تاوان ادا کیا اور مسلمانوں کے جنگی قیدی رہا کردئیے تھے۔ اب سیزر مینوئل دوسرے حکمرانوں کو بڑھکا رہا تھا کہ وہ سب مل کر زنگی پر حملہ کریں۔ حملے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ ایک زنگی پر اور دوسرا مصر پر۔ اس وقت زنگی کرک میں تھا۔
بہر حال پادری ان کے نفاق پر پریشان رہتا تھا۔ عمران نے اسے یہ نہ کہا کہ جو قوم اپنی لڑکیوں کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتی، اس کے افراد ایک دوسرے کو دھوکہ دینے سے کیوں گریز کریں گے۔ میدان میں ہار کر زمین دوز جنگ لڑنے والی قوم کی اخلاقی حالت یہی ہوسکتی ہے کہ اپنے بھائیوں سے بھی دغا اور فریب کریں۔ عمران نے اپنے ذہن میں یہ بات سلطان ایوبی کو بتانے کے لیے محفوظ کرلی کہ اگر اسلام کی صفوں میں غدار نہ ہوں تو صلیبیوں کو فیصلہ کن شکست دے کر ان سے یورپ بھی لیا جاسکتا ہے۔ غدار مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری بن گئے تھے۔ عکرہ کا پادری اور صلیبی حکمران مسلمانوں کی اس کمزوری پر بہت خوش تھے۔ عمران کو وہاں پتا چلا کہ صلیبیوں نے مسلمانوں کے کردار میں تخریب کاری کی مہم اور تیز کردی ہے۔ اسے مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حکمرانوں کے نام بھی معلوم ہوگئے جو درپردہ صلیبیوں کے اتحادی بن چکے تھے۔ انہیں صلیبی بے دریغ یورپ کی شراب، دولت اور جوان لڑکیاں سپلائی کررہے تھے۔
عمران اور رضا تو اپنے فرائض میں مگن تھے مگر رحیم فرض کے راستے سے ہٹتا جارہا تھا۔ اس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسے تاجر کے گھر کا ہی کوئی کام دیا جائے۔ ایلس کی محبت نے اسے اندھا کرنا شروع کردیا تھا۔ چند دنوں بعد ایلس نے اسے بتایا کہ اس کی شادی ایک ایسے فوجی افسر کے ساتھ کی جارہی ہے جو عمر میں اس سے بہت بڑا ہے۔ بڑا نہ بھی ہوتا تو ایلس رحیم کے سوا کسی اور کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اپنی ماں سے منوا چکی تھی کہ اس افسر کے ساتھ شادی نہیں کرے گی۔ اس کا باپ نہیں مانتا تھا۔ وہ ان فوجی افسروں سے ہی دولت کما رہا تھا۔ اپنی لڑکی دینے سے انکار نہیں کرسکتا تھا۔ ایلس نے ایک روز اپنے گلے میں ڈالی ہوئی صلیب رحیم کے ہاتھ پر رکھ کر اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور صلیب کی قسم کھائی تھی کہ وہ رحیم کے سوا کسی اور کو قبول نہیں کرے گی۔ رحیم نے بھی صلیب پر ایسی ہی قسم کھائی تھی۔
٭      ٭      ٭
ایک روز پادری کے پاس چار پانچ فوجی افسر آئے اور اس کے خاص کمرے میں جابیٹھے۔ عمران نے ان کے چہروں کے تاثرات سے محسوس کیا کہ کوئی خاص بات ہے۔ عمران پادری کے کمرے میں چلا گیا۔ ایک فوجی افسر بات کرتے چپ ہوگیا۔ پادری نے عمران سے کہا… ''جان گنتھر! تم کچھ دیر باہر ہی رہو۔ ہم کوئی ضروری باتیں کررہے ہیں''۔
عمران دوسرے کمرے میں چلا گیا اور دروازے کے ساتھ کان لگا دئیے۔ وہ لوگ آہستہ آہستہ بول رہے تھے، پھر بھی کام کی باتیں عمران کی سمجھ میں آگئیں۔ جب فوجی افسر چلے گئے تو عمران وہاں سے ادھر ادھر ہوگیا تاکہ پادری کو شک نہ ہو۔ اس نے یہ ارادہ بھی کیا کہ اسی وقت بھاگ جائے اور کہیں رکے بغیر قاہرہ پہنچے اور سلطان ایوبی کو اطلاع کردے کہ حملہ روکنے کی تیاری کرلے مگر پادری نے اسے بلا کر ایسے کام پر لگا لیا کہ وہ فوری طور پر بھاگ نہ سکا۔ اس کے علاوہ اسے رحیم اور رضا سے بھی رپورٹیں لینی تھیں۔ ممکن تھا کہ ان کے کانوں میں بھی یہ خبر پہنچی ہو ، جو اس نے سنی ہے۔ اس نے سوچا کہ ان سے تصدیق ہوجائے تو تینوں اکٹھے عکرہ سے نکل جائیں۔ اس کام کے لیے وہ تین چار روز انتظار کرسکتا تھا لیکن اس کی بیتابی اسے ٹکنے نہیں دے رہی تھی۔
دوسرے دن رضا کے پاس گیا۔ رضا اسے اصطبل میں ملا۔ اس نے پوچھا کہ اسے کوئی نئی خبر ملی ہے؟ رضا نے بتایا کہ کچھ غیرمعمولی سی سرگرمی نظر آرہی ہے اور اس نے اڑتے اڑتے سنی ہے کہ صلیبی جوابی حملہ خشکی کے راستے نہیں کریں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمندر کی طرف سے آئیں گے۔ اب یہ معلوم کرنا ہے کہ ان کے حملے کی تفصیل کیا ہے۔ عمران نے اسے بتایا کہ اس حملے کو صلیبی فیصلہ کن بنانا چاہتے ہیں۔ا س نے جو کچھ سنا تھا، وہ رضا کو سنا دیا اور اسے یہ مشن دیا کہ وہ اس حملے کی تفصیلات معلوم کرے۔ عمران صرف تصدیق کرنا چاہتا تھا، ورنہ وہ تفصیل سے تو آگاہ ہو ہی چکا تھا۔ اس نے رضا سے کہا کہ اب وہ ایک آدھ دن میں یہاں سے روانگی کی تیاری کرے۔ ان کا فرض پورا ہوچکا ہے۔ واپسی کے لیے انہیں گھوڑوں یا اونٹوں کی بھی ضرورت تھی، جو انہیں کہیں سے چوری کرنے تھے۔
عمران رحیم سے ملنا چاہتا تھا تاکہ اسے بھی چوکنا کرکے واپسی کی تیاری کے لیے کہہ دے لیکن رات ہوچکی تھی اور وہ اس کے ٹھکانے پر جانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ تاجر نے اسے رہنے کے لیے جو جگہ دے رکھی تھی وہاں جانا ٹھیک نہیں تھا۔ عمران گرجے چلا گیا۔
وہ اگر رحیم کے پاس جاتا بھی تو وہ اسے نہ ملتا۔ وہ اپنے ٹھکانے میں بھی نہیں تھا اور وہ عکرہ میں بھی نہیں تھا۔ جب عمران اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے پریشان ہورہا تھا۔ اس وقت ایلس نے رحیم کو کسی اور ہی پریشانی میں ڈال رکھاتھا۔ ہوا یوں تھا کہ صلیبیوں نے رقص اور کھانے کی محفل منعقد کی تھی۔ ایلس کے امیدوار نے اسے اپنے ساتھ رقص کے لیے کہا تو ایلس نے اسے ٹھکرا دیا اور وہ اس سے کم عمر کے افسروں کے ساتھ ناچتی رہی۔ اس کے امیدوار نے اس کے باپ سے شکایت کی۔ اس کا باپ بھی اس محفل میں موجود تھا، جہاں شراب کی صراحیاں خالی ہورہی تھیں۔ باپ نے ایلس کو ڈانٹ کر کہا کہ وہ اپنے منگیتر کی توہین نہ کرے اور اس کے ساتھ ناچے۔ ایلس ناراض ہوکر گھر چلی گئی اور باپ کو یہ فیصلہ سنا آئی کہ وہ اس بوڑھے کے ساتھ شادی نہیں کرے گی۔
اس کا باپ اور امیدوار اس کے پیچھے گئے۔ وہ دور جاچکی تھی۔ گھر جاکر دیکھا، وہ وہاں نہیں تھی۔ تلاش کرتے کرتے وہ رحیم کے کمرے سے برآمد ہوئی۔ باپ نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کررہی ہے۔ اس نے تنک کر جواب دیا کہ وہ جہاں چاہے جاسکتی ہے اور جہاں چاہے بیٹھ سکتی ہے۔ اس کے امیدوار کو شک ہوا کہ یہاں معاملہ گڑبڑ ہے۔ ایلس کو باپ گھر لے گیا۔ امیدوار نے رحیم سے پوچھا کہ یہ لڑکی یہاں کیوں آئی تھی… رحیم نے جواب دیا کہ وہ پہلے بھی یہاں آیا کرتی ہے اور آئندہ بھی آئے گی۔ امیدوار بڑا افسر تھا، اس نے رحیم کو دھمکی دی کہ وہ یہاں سے چلا جائے ورنہ اسے زندہ نہیں رہنے دیا جائے۔ رحیم کے جسم میں جوانی کا خون تھا۔ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ معاملہ بگڑ گیا۔ تاجر نے آکر بیچ بچائو کرادیا۔ ایلس کے امیدوار نے کہا کہ وہ اس آدمی کو یہاں دیکھنا نہیں چاہتا۔
دوسرے دن تاجر نے رحیم سے کہا کہ وہ اسے ملازمت میں نہیں رکھ سکتا کیونکہ فوج کے اتنے بڑے افسر کو ناراض کرکے وہ اپنا کاروبار تباہ نہیں کرنا چاہتا۔ اس نے رحیم کو یہ نصیحت کی کہ وہ وہاں سے چلا جائے کیونکہ فوجی افسر اسے کسی جرم کے بغیر قید خانے میں ڈال سکتا ہے۔ رحیم بھول چکا تھا کہ وہ کس مقصد کے لیے یہاں آیا ہے۔ اس نے ایلس کو اپنے ذاتی وقار کامسئلہ بنا لیا۔ اس کے امیدوار کی دھمکی کا وہ عملی جواب دینا چاہتا تھا۔ تاجر اپنی دکان میں تھا۔ رحیم اس کے گھر گیا۔ ایلس سے ملا اور اسے بتایا کہ اس کے باپ نے اسے نوکری سے نکال دیا ہے۔ ایلس اس کے ساتھ بھاگ جانے کو تیار ہوگئی۔ بھاگنے کا وقت شام کے بعد کا مقرر کیا گیا، جب اس کا باپ گھر نہیں ہوتا تھا۔
رات کو اس وقت جب عمران رضا کے پاس بیٹھا اس راز کے متعلق باتیں کررہا تھا، جس کے لیے انہوں نے جان کا خطرہ مول لے رکھا تھا۔ رحیم ایلس کے انتظار میں شہر سے باہر اس جگہ کھڑا تھا جو اسے ایلس نے بتائی تھی۔ ایلس نے اسے کہا تھا کہ وہ باپ کے گھوڑے پر آئے گی اور وہ دونوں ایک ہی گھوڑے پر بھاگیں گے۔ وہ بے صبری سے ایلس کا انتظار کررہا تھا اور ڈر رہا تھا کہ وہ باپ کا گھوڑا کس طرح چرا کر لاسکے گی… لڑکی نے گھوڑا چرا لیا تھا۔ اس پر زین ڈال کر کس لی تھی اور وہ گھوڑے پر سوار ہوکر نکل بھی آئی تھی۔ رحیم نے جب اسے دیکھا تو اسے یقین نہ آیا کہ یہ ایلس ہے۔ اس کی آواز پر وہ گھوڑے پر اس کے پیچھے سوار ہوگیا۔ کچھ دور تک انہوں نے گھوڑے کی رفتار آہستہ رکھی۔ شہر سے دور جاکر رحیم نے گھوڑے کو ایڑی لگادی۔ کچھ دیر بعد وہ عکرہ سے کافی دور جاچکے تھے۔
٭      ٭      ٭
آدمی رات کے وقت وہ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں پانی تھا۔ رحیم نے اس خیال سے گھوڑا روک لیا کہ اسے پانی پلا لیا جائے اور آرام بھی کرلے۔ اسے معلوم تھا کہ آگے بہت دور تک پانی نہیں ملے گا۔ اسے یہ یقین ہوگیا تھا کہ وہ پکڑے نہیں جائیں گے۔ کسی کو کیا خبر کہ وہ کس طرف گئے ہیں۔ اس نے ایلس سے کہا کہ آرام کرلیں۔ سحر کی تاریکی میں روانہ ہوجائیں گے۔
        ''تم بیت المقدس کا راستہ جانتے ہو؟'' ایلس نے پوچھا۔
انہوں نے عکرہ سے بھاگتے وقت یہ طے کیا ہی نہیں تھا کہ انہیں کہاں جانا ہے۔ اب لڑکی نے بیت المقدس کا نام لیا تو رحیم نے کہا… ''بیت المقدس کیوں؟ میں تمہیں وہاں لے جائوں گا جہاں تمہارے تعاقب میں کوئی آنے کی جرأت ہی نہیں کرے گا''۔
        ''کہاں؟'' ایلس نے پوچھا۔
        ''مصر''۔ رحیم نے جواب دیا۔
        ''مصر؟'' ایلس نے حیرت زدہ ہوکے پوچھا… ''وہ تو مسلمانوں کا ملک ہے، وہ ہمیں زندہ نہیں چھوڑیں گے''۔
        ''مسلمانوں کو تم نہیں جانتی ایلس!'' رحیم نے کہا۔ ''مسلمان بڑی رحم دل قوم ہے۔ تم چل کے دیکھنا''۔
        ''نہیں!'' ایلس نے بدک کر کہا… ''مجھے مسلمانوں سے ڈر آتا ہے۔ بچپن سے مجھے مسلمانوں کے متعلق بڑی غلیظ باتیں بتائی گئی ہیں۔ ہمارے ہاں مائیں اپنے بچوں کو مسلمانوں سے ڈرایا کرتی ہیں۔ مجھے مسلمانوں سے نفرت ہے''۔وہ ڈررہی تھی اور رحیم کے ساتھ لگ گئی تھی۔ اس نے کہا… ''مجھے بیت المقدس لے چلو۔ وہاں ہم شادی کرلیں گے۔ بیت المقدس کدھر ہے؟ میں سمت بھول گئی ہوں''۔
        ''میں مصر کی طرف جارہا ہوں''۔ رحیم نے کہا۔
ایلس بگڑ گئی اور پھر رونے لگی۔
        ''تم مسلمانوں سے نفرت کرتی ہو؟''
        ''بہت زیادہ!''
        ''اور مجھے سے تمہیں محبت ہے؟''
        ''بہت زیادہ!''
        ''اور اگر میں تمہیں یہ بتا دوں کہ میں مسلمان ہوں تو تم کیا کرو گی؟''
        ''میں ہنسوں گی''۔ ایلس نے کہا… ''مجھے تمہارے لطیفے اور مذاق بہت اچھے لگتے ہیں''۔
        ''میں مذاق نہیں کررہا ایلس!'' رحیم نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ میں مسلمان ہوں اور ذرا اس قربانی پر غور کرو جو مجھ سے تمہاری محبت نے کرائی ہے۔ میں یہ قربانی بخوشی دے رہا ہوں''۔
        ''کیسی قربانی؟'' ایلس نے کہا… ''تم تو پہلے ہی بے گھر تھے۔ اب ہم اپنا گھر بنائیں گے''۔
        ''نہیں ایلس!'' رحیم نے کہا… ''میں اب بے گھر ہوا ہوں۔ تم اپنے گھر سے بھاگی ہو۔ میرے ساتھ شادی کرکے تم اپنا گھر بسا لوگی لیکن میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا۔ میں اپنے فرض کا بھگوڑا ہوں۔ میں اپنی فوج کا بھگوڑا ہوں… میں جاسوس ہوں۔ عکرہ میں جاسوسی کرنے آیا تھا مگر تمہاری محبت پر میں نے اپنا فرض قربان کردیا ہے''۔
        ''تم مجھے ڈرا رہے ہو''۔ ایلس نے ہنستے ہوئے کہا۔ ''چلو سو جائو۔ میں تمہیں جلدی جگا دوں گی''۔
        ''میں تمہیں ڈرا نہیں رہا ایلس!'' رحیم نے کہا… ''میرا نام رحیم ہنگور ہے، ایلی مور نہیں۔ میں تمہیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تمہیں جہاں رکھوں گا، پورے آرام میں رکھوں گا۔ تمہیں تمہارے باپ کے گھر والی بادشاہی نہیں دے سکوں گا لیکن تکلیف بھی نہیں ہونے دوں گا۔ تمہاری زندگی آرام سے گزرے گی''۔
        ''مجھے اسلام قبول کرنا پڑے گا؟'' ایلس نے پوچھا۔
        ''تو اس میں کیا ہرج ہے؟'' رحیم نے کہا… ''تم ایسی باتیں نہ سوچو، وقت ضائع ہورہا ہے۔ سوجائو۔ ہمارا سفر بڑا لمبا ہے۔ باتوں کے لیے بہت وقت ہے''۔
وہ لیٹ گیا۔ ایلس بھی لیٹ گئی۔ ذرا سی دیر بعد ایلس کو رحیم کے خراٹے سنائی دینے لگے۔ اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ گہری سوچوںمیں کھو گئی تھی۔
٭      ٭      ٭
رحیم کی آنکھ کھلی تو صبح کا اجالا سفید ہوچکا تھا۔ وہ گھبرا کر اٹھا۔ اسے اتنی دیر نہیں سونا چاہیے تھا، آنکھیں مل کر ادھر ادھر دیکھا۔ وہاں گھوڑا بھی نہیں تھا۔ ایلس بھی نہیں تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، ایک ٹیلے پر چڑھ کر دیکھا۔ صحرا کی ویرانی کے سوا اسے کچھ بھی نہیں نظر نہ آیا۔ اس نے ایلس کو آواز دی۔ کوئی جواب نہ ملا۔ وہ سوچوں میں کھوگیا، ایک خیال یہ آیا کہ ان کے تعاقب میں کوئی آگیا ہوگا اور وہ ایلس کو سوتے میں اٹھا کر لے گیا ہے۔ اس صورت میں رحیم کو زندہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اسے وہ لوگ قتل کر جاتے یا اسے اغوا کے جرم میں پکڑ لے جاتے۔ حیرت اس پر تھی کہ وہ ایلس کو ایسی خاموشی سے اٹھا کر لے گئے کہ رحیم کی آنکھ ہی نہ کھلی۔ دوسری صورت یہ تھی کہ ایلس خود بھاگ گئی ہے کہ اس نے رحیم کو صرف اس لیے ٹھکرا دیا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔
ایلس جہاں کہیں بھی گئی اور اسے جو کوئی بھی لے گیا، رحیم کو اب یہ سوال پریشان کرنے لگا کہ وہ کہاں جائے، عکرہ واپس جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ قاہرہ جانے سے بھی ڈرتا تھا۔ اس نے اپنا فرض پورا نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنے کمانڈر عمران کو نہیں بتایا تھا کہ وہ جارہا ہے۔ سوچ سوچ کر اس نے ایک بہانہ گھڑ لیا۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اب قاہرہ کے بجائے کرک چلا جائے اور وہاں بتائے کہ اسے پہچان لیا گیا تھا کہ وہ مسلمان ہے اور جاسوس ہے۔ وہ بڑی مشکل سے بھاگ کر وہاں سے نکلا ہے۔ اسے مہلت نہیں ملی کہ عمران یا رضا کو اطلاع دے سکتا کہ اس کی گرفتاری کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے… یہ اچھا بہانہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اسے کوئی یہ تو نہیں کہے گا کہ کوئی ثبوت اور شہادت لائو۔
وہ پانی پی کر کرک کی سمت چل پڑا۔ اسے ایلس کی گمشدگی پریشان کررہی تھی اور اسے افسوس ہورہا تھا کہ اسے کبھی بھی پتا نہ چل سکے گا کہ ایلس کہاں غائب ہوگئی ہے۔
وہ بمشکل تین میل چلا ہوگا کہ اسے دوڑتے گھوڑوں کی ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے پیچھے دیکھا، گرد کا بادل اڑا آرہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، چھپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ سوار کون ہیں۔ اسے یہی معلوم تھا کہ وہ خود کون ہے۔ یہی خطرناک پہلو تھا۔ وہ گھوڑوں کے راستے سے ہٹ کر چلتا گیا۔ گھوڑے قریب آگئے، تب اس نے دیکھا کہ وہ صلیبی تھے اور انہوں نے گھوڑے اس کی طرف موڑ لیے تھے۔ وہ نہتا تھا۔ بھاگنے کی بھی کوئی صورت نہیں تھی۔ سواروں نے اسے گھیر لیا۔ اس نے ان میں سے ایک کو پہچان لیا۔ وہ ایلس کا امیدوار تھا۔ اس نے رحیم سے کہا… ''مجھے پہلے ہی شک تھا کہ تم عیسائی نہیں ہو''۔
اسے پکڑ لیا گیا اور اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ کر اسے ایک سوار نے لاش کی طرح گھوڑے پر ڈال لیا۔ گھوڑے عکرہ کی سمت روانہ ہوگئے۔ یہ وہ وقت تھا جب عمران رحیم سے ملنے گیا تو وہ اسے نہ ملا۔ تاجر کے ایک نوکر نے اسے بتایا کہ اسے نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ عمران شش وپنج میں پڑ گیا۔ رحیم جا کہاں سکتا تھا۔ اس کے پاس کیوں نہیں آیا؟… عمران گرجے میں واپس چلا گیا۔ رضا سے وہ شام کے بعد مل سکتا تھا۔ انہیں رحیم کو ڈھونڈنا تھا۔ یہ خطرہ بھی محسوس کیا گیا کہ وہ گرفتار نہ ہوگیا ہو۔ اس صورت میں یہ خطرہ تھا کہ اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کی نشاندہی نہ کردی ہو۔ عمران کو یہ سوچ پریشان کررہی تھی کہ رحیم اگر پکڑا گیا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اور رضا بھی پکڑے جائیں۔ پکڑے جانے اور مارے جانے کا انہیں فکر نہ تھا۔ فکر یہ تھا کہ انہوں نے وہ راز حاصل کرلیا تھا جس کے لیے وہ یہاں آئے تھے اور اب انہیں یہاں سے نکلنا تھا۔
سورج غروب ہونے میں ابھی بہت دیر باقی تھی۔ رضا اصطبل سے باہر کہیں کھڑا تھا۔ چار گھوڑے اصطبل کے دروازے پر رکے، ایک سوار نے اپنے آگے کسی کو لاش کی طرح ڈال رکھا تھا، اسے اتارا گیا۔ یہ دیکھ کر رضا کا خون خشک ہوگیا کہ وہ رحیم تھا۔ اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ سواروں میں ایک بڑا افسر تھا۔ رضا اسے اچھی طرح جانتا پہچانتا تھا۔ دوسروں سے بھی وہ واقف تھا۔ رحیم کو وہ لے جانے لگے تو بڑے افسر نے رضا کو دیکھ لیا۔ اسے ''فرانسس''کے نام سے بلایا۔ رضا دوڑا گیا لیکن اس کے پائوں نہیں اٹھ رہے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ اسے بھی گرفتار کیا جائے گا۔
        ''چاروں گھوڑے اندر لے جائو''۔ اس افسر نے رضا سے کہا… ''ہمارے سائیسوں کے حوالے کردینا''… اس نے رحیم کے متعلق حکم دیا… ''اسے اس کمرے میں لے چلو''۔
رضا کو چونکہ فرانسس کے نام سے بلایا گیا تھا، اس لیے وہ جان گیا کہ رحیم نے اس کی نشاندہی نہیں کی۔ یہ صلیی افسر اسے ابھی تک سائیس فرانسس سمجھ رہے تھے۔ اس نے ایک افسر سے پوچھا۔ ''یہ کون ہے؟ اس نے چوری کی ہوگی''۔
        ''یہ صلاح الدین ایوبی کا جاسوس ہے''۔ ایک فوجی نے جواب دیا اور طنزیہ لہجے میں کہا… ''اب یہ تہہ خانے میں جاسوسی کرے گا، جائو گھوڑے لے جائو''۔
اس دوران رضا اور رحیم نے ایک دوسرے کو گہری نظروں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تھا۔ انہوں نے آنکھوں کے کچھ اشارے مقرر کررکھے تھے۔ اگر ایسی صورتحال میں دو جاسوسوں کا سامنا ہوجائے تو وہ ایک اشارہ تو یہ کرتے تھے کہ بھاگ جائو، دوسرا یہ کہ کوئی خطرہ نہیں۔ رحیم نے رضا کو ایسا ہی ایک اشارہ کیا جس سے اسے تسلی ہوگئی کہ اس نے کسی کی نشاندہی نہیں کی۔ تاہم ان کے لیے یہ خوشی کی بات نہیں تھی۔ اس کا ساتھی پکڑا گیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ تہہ خانے میں اس کا کیا حشر کیا جائے گا۔ رحیم کو اب مرنا تھا مگر بڑی ہی اذیت ناک موت مرنا تھا۔ رضا کو معلوم تھا کہ رحیم کو کون سے کمرے میں لے جایا جارہا ہے اور اس کے بعد اسے کہاں لے جائیں گے۔
٭      ٭      ٭
عمران گرجے کے ساتھ اپنے کمرے میں پریشانی کی حالت میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ رحیم کہاں غائب ہوگیا ہے۔ اس کے کمرے کا دروازہ کھلا، وہ رضا تھا۔ اندر آکر اس نے دروازہ بند کر دیا اور گھبرائی ہوئی سرگوشی میں کہا۔ ''رحیم پکڑا گیا ہے''… اس نے جو دیکھا تھا وہ عمران کو سنا دیا۔ رضا نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ رحیم نے اشارے سے اسے بتا دیا ہے کہ اس نے ہماری نشاندہی نہیں کی۔
        ''اگر نہیں کی تو تہہ خانے میں جاکر کردے گا''۔ عمران نے کہا… ''اس دوزخ میں زبان بند رکھنا آسان نہیں ہوتا''۔ ان دونوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا محال ہوگیا کہ وہ فوراً نکل جائیں یا ایک آدھ دن انتظار کرلیں۔ ایسے نازک
وقت میں ان سے ایک غلطی سرزد ہوگئی۔ وہ یہ تھی کہ وہ جذبات سے مغلوب ہوگئے۔ چھاپہ ماروں (کمانڈو) اور جاسوسوں کے لیے یہ ہدایت تھی کہ وہ تحمل، بردباری اور صبر سے کام لیں۔ عجلت اور جذبات سے بچیں۔ اگر ان کا کوئی ساتھی ایسے طریقے سے کہیں پھنس جائے کہ اس کی مدد کرنے میں دوسروںکے پھنسنے کا بھی خطرہ ہو تو اس کی مدد نہ کی جائے۔ رضا جذبات میں آگیا۔ اس نے کہا… ''میں رحیم جیسے خوبصورت اور دلیر دوست کو قید سے نکالنے کی کوشش کروں گا''۔
        ''ناممکن ہے''۔ عمران نے کہا اور اسے ایسے خطرناک ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔
        ''میں چونکہ وہیں رہتا ہوں جہاں رحیم کو لے گئے ہیں۔ اس لیے دیکھوں گا کہ اسے وہاں سے نکالنا ممکن ہوسکتا ہے یا نہیں''۔ رضا نے کہا… ''میں نے وہاں اتنی دوستی پیدا کررکھی ہے کہ مجھے معلوم ہوجائے گا کہ رحیم کہاں ہے۔ اگر میں اس تک پہنچ گیا تو رحیم آزاد ہوجائے گا یا میں اس کے ساتھ ہی جائوں گا اور اگر میں بھی پکڑا گیا تو تم نکل جانا۔ راز تمہارے پاس ہیں۔ میں رحیم کے بغیر واپس نہیں جائوں گا''۔
ناممکن تھا کہ رضا رحیم کو وہاں سے آزاد کرلیتا لیکن اس کے جذبات اتنے شدید تھے کہ عمران بھی اس کاہمنوا ہوگیا اور وہ حقائق کو بھول گیا۔ رضا اسے یہ کہہ کر چلا گیا کہ رات کو کسی وقت آکر اسے بتائے گا کہ رحیم کی رہائی کی کوئی صورت ہے یا نہیں۔ اگر کوئی صورت نہ ہوئی تو وہ رات کو نکل جائیں گے۔ عمران کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ گھوڑوں کا انتظام کرلے۔ گھوڑوں کا انتظام آسان نہیں تھا۔ پادری کے باڈی گارڈوں کے گھوڑے وہاں موجود رہتے تھے۔ انہی میں سے دو یا تین گھوڑے چوری کرنے تھے۔
اس وقت تک رحیم کو قید خانے میں نہیں ڈالا گیا تھا۔ اسے انٹیلی جنس کے دو وحشی قسم کے افسروں کے حوالے کردیا گیا تھا۔ جاسوس جب پکڑا جاتا ہے تو سزا کا مرحلہ سب سے آخر میں ہوتا ہے۔ پہلے اس سے معلومات لی جاتی ہیں۔ جاسوس اکیلا نہیں ہوتا، پورا گروہ ہوتا ہے۔ گرفتار کیے ہوئے جاسوس سے یہی ایک سوال پوچھا جاتا ہے کہ اس کے ساتھی کہاں ہیں اور دوسرا سوال یہ پوچھا گیا کہ اس نے یہاں سے کوئی خفیہ بات معلوم کی ہے تو وہ بتا دے۔ رحیم نے جواب دیا کہ اس کے پاس کوئی راز نہیں۔ تاجر کی بیٹی ایلس کے ساتھ تعلقات کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ ایلس کی شادی ایک بوڑھے افسر کے ساتھ کی جارہی تھی، اس لیے وہ گھرسے بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔
        ''کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم کس طرح پکڑے گئے ہو؟''
        ''نہیں''… رحیم نے جواب دیا… ''میں اتنا جانتا ہوں کہ میں پکڑا گیا ہوں''۔
        ''تم اور بھی بہت کچھ جانتے ہو''… ایک افسر نے اسے کہا… ''وہ سب کچھ بتا دو جو تم جانتے ہو، تمہیں کوئی تکلیف نہیں دی جائے گی''۔
        ''میں یہ جانتاہوں کہ میں اپنا فرض بھول گیا تھا''… رحیم نے کہا… ''میں اس سزا کو خوشی سے قبول کروں گا۔ مجھے جس قدر تکلیف اور جتنی اذیت دے سکتے ہو دو۔ میں اسے اپنے گناہ کی سزا سمجھ کر قبول کروں گا''۔
        ''کیا تمہارے دل میں ابھی تک ایلس کی محبت ہے؟''
        ''ابھی تک ہے''… رحیم نے کہا… ''اور ہمیشہ رہے گی۔ میں اسے اپنے ساتھ قاہرہ لے جارہا تھا۔ اسے مسلمان کرکے اس کے ساتھ شادی کرنی تھی''۔
        ''اگر ہم یہ کہیں کہ اس نے تمہارے ساتھ دھوکہ کیا ہے تو تم مان لو گے؟''
        ''نہیں''… رحیم نے کہا… ''جس نے میرے لیے اپنا گھر اور اپنے عزیز چھوڑ دئیے تھے، وہ دھوکہ نہیں دے سکتی، اس کے ساتھ کسی نے دھوکہ کیا ہے''۔
        ''اگر ہم ایلس تمہارے حوالے کردیں تو کیا تم ہمیں بتا دو گے کے عکرہ میں تمہارے کتنے ساتھی ہیں اور وہ کہاں ہیں؟''… اس سے پوچھا گیا… ''اور یہ بھی بتا دو گے کہ تم نے یہاں سے کون سا راز حاصل کیا ہے؟''
رحیم کا سرجھک گیا۔ ایک افسر نے اس کا سر اوپر اٹھایا تو رحیم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ افسروں کے باربار پوچھنے پر بھی وہ خاموش رہا، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے اندر ایسی کشمکش پیدا ہوگئی ہے جس میں وہ فیصلہ نہیں کرسکتا اس کا رویہ اور ردعمل کیا ہونا چاہیے۔ اس کی یہ کیفیت ظاہر کرتی تھی کہا س کے دل میں ایلس کی محبت بہت گہری اتری ہوئی ہے۔
        ''تمہیں آخر کار ہمارے تمام سوالوں کا جواب دینا ہوگا''… ایک افسر نے کہا… ''اس وقت تک تم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے ہوگے، تم جیو گے نہ مرو گے۔ اگر پہلے ہی جواب دے دو تو ایلس تمہارے پاس ہوگی اور تم آزاد ہوگے۔ اس وقت تم قید خانے میں نہیں، یہ ایک افسر کا کمرہ ہے۔ اگر تم سوچنے کی مہلت چاہتے ہو تو آج رات تمہیں اسی کمرے میں رکھا جائے گا''۔
رحیم خاموش رہا اور خالی نظروں سے افسروں کو دیکھتا رہا۔ افسروں کو ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ وہ اس کمرے سے بھاگ جائے گا۔ برآمدے میں پہرہ تھا۔ گشتی پہرہ بھی تھا۔ رحیم بھاگ کر جا بھی کہاں سکتا تھا۔ ایک افسر نے باہر آکر اپنے ساتھی افسر سے کہا… ''تم وقت ضائع کررہے ہو، اسے تہہ خانے میں لے چلو۔ لوہے کی لال گرم سلاخ اس کے جسم کے ساتھ لگائو، ساری باتیں اگل دے گا۔ نہیں بولے گا تو بھوکا اور پیاسا پڑا رہنے دو''۔
        ''میرا تجربہ مختلف ہے میرے دوست!''… دوسرے افسر نے کہا… ''یہ نہ بھولو، یہ مسلمان ہے۔ تم نے اب تک کتنے مسلمان جاسوسوں سے راز اگلوائے ہیں؟ کیا تم نہیں جانتے کہ یہ کمبخت ایک بار ڈٹ جائیں تو مرجاتے ہیں، زبان نہیں کھولتے۔ یہ شخص کہہ چکاہے کہ ہماری ہر اذیت اپنے گناہ کی سزا سمجھ کر قبول کرلے گا۔ یہ کٹر مسلمان معلوم ہوتا ہے۔ یہ تہہ خانے میں جاکر بھی کہہ دے گا کہ وہ کچھ بھی نہیں بتائے گا۔ ہمارا مقصد اسے جان سے مارنا نہیں، یہ معلوم کرنا ہے کہ اس کے ساتھی کہاں ہیں اور یہ معلوم کرنا ہے کہ انہیں اس حملے کا پتا تو نہیں چل گیا جو مصر پر کرنے والے ہیں؟''
        ''ان کے باپ کو بھی پتا نہیں چل سکتا''… دوسرے افسر نے کہا… ''ہائی کمانڈ کے افسروں کے سواکسی کو حملے کے متعلق علم ہی نہیں۔ یہ جاسوس تاجر کی بیٹی کے عشق میں الجھا ہوا تھا۔ اسے تو دنیا کی ہوش نہیں تھی، اسے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اسے ایلس نے گرفتار کرایا ہے۔ یہ ابھی تک اس کی محبت میں گرفتار ہے''۔
        ''میں ایلس کو ہی استعمال کرنا چاہتا ہوں''… ایک نے کہا… ''اسے آج رات اسی کمرے میں رہنے دیتے ہیں، مجھے امید ہے کہ جو راز ہم کئی دنوں میں بھی نہیں اگلوا سکیں گے وہ ایلس جیسی دلکش لڑکی چند منٹوں میں اگلوائے گی''۔
        ''کیا اس لڑکی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟''
        ''کیا تمہیں ابھی تک شک ہے؟''… دوسرے نے کہا… ''تم نے شاید پوری بات نہیں سنی۔ ایلس نے واپس آکر جو بیان دیا ہے، وہ تم نے پورا نہیں سنا۔ اب چونکہ تفتیش ہم دونوں کے سپرد کی گئی ہے۔ اس لیے تمہارے ذہن میں ہر ایک بات واضح ہونی چاہیے۔ ایلس اس شخص کو بری طرح چاہتی تھی۔ وہ اسے ایلی مور نام کا عیسائی سمجھتی رہی۔ ایلس کا باپ اس کی شادی کمانڈر ولیسٹ میکاٹ کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔ وہ دراصل اپنی بیٹی رشوت کے طور پر دے رہا تھا۔ ایلس اس جاسوس کے ساتھ بھاگ گئی۔ راستے میں اس نے ایلس کو بتا دیا کہ وہ ایلی مور نہیں، رحیم ہے اور وہ مسلمان ہے۔ ایلس نے اسے مذاق سمجھا مگر رحیم نے اسے یقین دلایا کہ وہ مذاق نہیں کررہا۔ رحیم نہیں جانتاتھا کہ ایلس کے دل میں مسلمانوں کی کتنی دہشت اور حقارت بچپن سے بیٹھنی ہوئی ہے اور رحیم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایلس مذہب کی پکی ہے۔ ہر وقت صلیب گلے میں ڈالے رکھتی ہے۔ اس نے جان لیا کہ اس مسلمان نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اور وہ قاہرہ جاکر نہ صرف خود اسے خراب کرے گا بلکہ دوسروں سے بھی خراب کرائے گا اور آخر میں کسی کے ہاتھ فروخت کردے گا۔ ہم نے اپنے بچوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کا جو گھنائونا تصور پیدا کررکھا ہے، وہ ایلس کے سامنے آگیا''۔
        ''ایلس کے دل میں مذہب کی محبت پیدا ہوگئی اور یہ محبت مسلمان کی محبت پر ایسی غالب آئی کہ اسے حقارت میں بدل دیا۔ وہ سب کچھ بھول گئی۔ وہ یہ بھی بھول گئی کہ عکرہ واپس آکر اسے بوڑھے کمانڈر کے ساتھ بیاہ دیا جائے گا۔ اسے صلیب کا یہ فرض یاد آگیا کہ مسلمان کو ہرحال میں دشمن سمجھنا اور اسلام کے خاتمے کے لیے کام کرنا ہے۔ لڑکی چونکہ ہوشیار اور دلیر ہے، اس لیے اس نے بھاگنے کا نہایت اچھا طریقہ سوچا۔ رحیم پر ظاہر نہ ہونے دیا اور لیٹ گئی۔ رحیم اطمینان سے سوگیا تو ایلس گھوڑے پر سوار ہوئی اور ایسی خاموشی سے نکل آئی کہ رحیم کو خبر تک نہ ہوئی۔ راستے سے واقف تھی۔ عکرہ پہنچ گئی اور اپنے باپ کے سامنے اقبال جرم کرکے اسے رحیم کے متعلق بتایا۔ باپ نے اسی وقت کمانڈر ولیسٹ میکاٹ کو جگایا اور اسے یہ واقعہ سنایا۔ کمانڈر نے تین سپاہی ساتھ لیے اور رحیم کے تعاقب میں گیا۔ رحیم پیدل کہاں جاسکتا تھا، پکڑا گیا اور اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے''۔
        ''رحیم کو معلوم نہیں کہ اسے ایلس نے دھوکہ دیا ہے''۔
        ''نہیں''… دوسرے نے کہا… ''میں اب ایلس کو استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ رحیم کو ہم نہایت اچھا کھانا کھلائیں گے''۔
٭      ٭      ٭

No comments:

Post a Comment