Wednesday 1 July 2015

داستان ایمان فروشوں کی جلد دوم قسط نمبر 5 وہ جو مردوں کو زندہ کرتا تھا : ایڈمن شہزادی دستک پیج

مصر کے یہادتی اس کی راہ دیکھ رہے تھے۔ ہر کسی کی زبان پر یہی الفاظ تھے… ''وہ آسمان سے آیا ہے، خدا کا دین لایا ہے۔ دل کی بات بتاتا ہے اور آنے والے وقت کے اندھیروں کو روشن کرکے دکھاتا ہے۔ مرے ہوئوں کو اٹھا دیتا ہے''۔
وہ کون تھا؟… جنہوں نے اسے دیکھا تھا، وہ اس کی کرامات سے اس قدر مسحور ہوگئے تھے کہ یہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے کہ وہ کون ہے۔ وہ تسلیم کرلیتے تھے کہ وہ آسمان سے آیا ہے، خدا کا دین لایا ہے اور جو لوگ اس کی راہ دیکھ رہے تھے وہ اس سوال سے بے نیاز تھے کہ وہ کون ہے۔ قافلے گزرتے تھے تو اسی کی کرامات سناتے تھے۔ کوئی اکیلا دھکیلا مسافر کسی گائوں میں جاتا تھا تو اسی کے معجزوں کا ذکر کرتا تھا۔ بعض لوگ اسے نبی اور پیغمبر بھی کہتے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو اسے بارش کا دیوتا مانتے تھے اور اس کی خوشنودی کے لیے انسانی جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار تھے۔ ان میں سے کوئی بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا تھا کہ اس کا مذہب کیا ہے اور وہ کیسا عقیدہ ساتھ لایا ہے۔ لوگ ابھی پسماندگی کے دور میں تھے۔ علم سے بے بہرہ تھے اور قدرت کے ستم کا شکار رہتے تھے۔ انہیں جہاں امید بندھتی تھی کہ ان کے مصائب کا حل موجود ہے، وہاں جا سجدے کرتے تھے۔ ان کی اکثریت مسلمان تھی۔ اسلام کی روشنی وہاں تک پوری آب وتاب سے پہنچی تھی۔ مسلمانوں نے مسجدیں بھی بنا رکھی تھی۔ رب کعبہ کے حضور پانچوں وقت سجدے بھی کرتے تھے مگر اسلام کے سچے عقیدے کو پختہ کرنے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ ان کے امام بے علم تھے جو اپنی امامت کو برقرار رکھنے کے لیے لوگوں کو عجیب وغریب باتیں بتاتے رہتے تھے۔ قرآن کو انہوں نے (نعوذباللہ) کالے علم کی ایک کتاب بنا ڈالا تھا اور ایسا تاثر پیدا کررکھا تھا کہ قرآن کو صرف امام سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ یہ مسلمان قرآن کو ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتے تھے۔
ان اماموں نے لوگوں کے دلوں میں ''غیب'' کا ایک لفظ بٹھا دیا تھا اور انہیں باور کرادیا تھا کہ جو کچھ بھی ہے وہ غیب میں ہے اور غیب میں جھانکنے کی قدرت صرف امام کو حاصل ہے۔ اماموں نے انسان کو ایک کم زور چیز بنا دیا تھا۔ اس مقام سے وسوسے اور توہمات پیدا ہوئے۔ صحرائی آندھیوں کی چیخوں میں انہیں اس مخلوق کی آوازیں سنائی دینے لگیں جو امام کہتے تھے کہ انسانوں کو نظر نہیں آسکتی۔ بیماریاں جنات اور شرشرار بن گئیں۔ امام معالج اور عامل بن گئے جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے قبضے میں جنات ہیں۔ انسان ''غیب کی سزا'' سے اتنے خوف زدہ رہنے لگے کہ ان کے دلوں میں اسلام کا عقیدہ کمزور پڑ گیا اور وہ ہر اس آواز پر لبیک کہنے لگے جو انہیں غیب کی مخلوق اور غیب سے سزا سے بچانے کا یقین دلاتی تھی… یہی وجہ تھی کہ لوگ بیتابی سے اس کی راہ دیکھ رہے تھے جو آسمان سے آیا ہے اور مرے ہوئوں کو اٹھا دیتا ہے۔
وہ مصر کے اس دیہاتی علاقے میں وارد ہوا تھا جو جنوب مغرب کی سرحد کے ساتھ تھا۔ اس زمانے میں سرحد کا کوئی واضح وجود نہیں تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے کاغذوں پر ایک لکیر کھینچ رکھی تھی لیکن وہ بھی کہا کرتا تھا کہ دین اسلام کی اور سلطنت اسلامیہ کی کوئی سرحد نہیں۔ دراصل سرحد عقیدوں کے درمیان تھی جہاں تک اسلام کی گرفت تھی، وہ اسلامی سلطنت تھی اور جہاں سے غیراسلامی نظریات شروع ہوتے تھے، وہ علاقہ غیر کہلاتا تھا۔ مصر کے جس آخری گائوں میں مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی، وہ امارت مصر کا آخری اور سرحدی گائوں سمجھا جاتا تھا۔ اسی باعث صلیبی ملت اسلامی کے نظریات پر حملے کِرتے اور اسلامی عقیدوں کو کمزور کرکے وہاں اپنے عقائد ِکا غلبہ پیدا کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا تھا کہ اس وقت سرحدوں کی حیثیت جغرافیائی کم اور نظریاتی زیادہ تھی۔ اس دور کے واقعات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ غیرمسلموں نے غلبۂ اسلام کے ساتھ ہی مسلمانوں پر نظریاتی حملے شروع کردیئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمان جنگ کو جہاد کہتے ہیں اور قرآن نے مسلمانوں پر جہاد فرض کردیا ہے۔ یہاں تک کہ حالات کے تقاضے کے پیش نظر جہاد کو نماز پر فوقیت حاصل ہے اور یہ بھی کہ کسی غیرمسلم سلطنت میں مسلمان باشندوں پر ظلم وستم ہورہا ہو تو دوسری سلطنتوں کے مسلمانوں پر یہ اقدام فرض ہو جاتا ہے کہ مظلوم رعایا کو غیرمسلموں کے ظلم وستم سے بچائیں، خواہ اس مقصد کے لیے جنگی کارروائی کرنی پڑے۔
انہی قرآنی احکام نے مسلمانوں میں عسکری جذبہ پیدا کیا تھا جس کا اثر یہ تھا کہ مسلمان جس ملک پر فوج کشی کرتے یا جس میدان میں بھی لڑتے تھے ان کے ذہن میں جنگ کا مقصد واضح ہوتا تھا۔ گو ان پر مال غنیمت حلال قرار دیا گیا تھا لیکن ان کے ہاں لوٹ مار جنگ کے مقاصد میں شامل نہیں ہوتی تھی، نہ ہی وہ مال غنیمت کے لالچ سے لڑتے تھے۔ اس کے برعکس صلیبیوں کی جنگ ملک گیری کی ہوس کی آئینہ دار ہوتی اور وہ لوٹ مار پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹنے کا کام بھی صلیبی فوج کے حوالے کردیا گیا تھا۔ صلیبیوں کو اس کا یہ نقصان اٹھانا پڑتا تھا کہ ہر میدان میں ان کی جنگی طاقت مسلمانوں کی نسبت پانچ سے دس گنا ہوتی تھی مگر وہ مٹھی بھر مسلمانوں سے شکست کھا جاتے تھے۔ شکست نہ کھائیں تو فتح بھی حاصل نہ کرسکتے تھے۔ وہ جان گئے تھے کہ قرآن کے احکام نے مسلمانوں میں جنگی جنون پیدا کررکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے نام پر لڑتے اور جانیں قربان کرتے ہ یں۔ صلیبیوں کے جرنیلوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو مسلمانوں پر مذہبی جنون کی گرفت کمزور کرنے کی ترکیبیں سوچتے اور ان پر عمل کرتے تھے، وہ جان گئے تھے کہ ایک مسلمان جو دس غیر مسلموں کا مقابلہ کرتا ہے، وہ کوئی فرشتہ اور جن بھوت نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے اندر اللہ کی طاقت اور اپنے عقیدے کی قوت محسوس کرتا ہے جو اسے کسی لالچ سے اور اپنی جان سے بھی بے نیاز کردیتی ہے۔ چنانچہ صلاح الدین ایوبی سے بہت پہلے ہی یہودی اور صلیبی عالموں اور مفکروں نے مسلمانوں کی عسکری روح کو مردہ کرنے کے لیے ان کی کردار کشی شروع کردی تھی اور ان کے مذہبی عقائد میں پرکشش ملاوٹ کرکے ان کے ایمان کو کمزور کرنا شروع کردیا تھا۔
صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کی بدنصیبی یہ تھی کہ وہ جب صلیبیوں کے خلاف اٹھے تو اس وقت تک صلیبیوں کی نظریاتی یلغار بہت حد تک کامیاب ہوچکی تھی۔ اسلام کے دشمنوں نے اس یلغار کو دو طرفہ استعمال کیا تھا۔ اوپر کے طبقے کو جس میں حکمران، امراء اور وزراء وغیرہ تھے۔ دولت، عورت اور شراب کا دلدادہ بنا دیا تھا اور نیچے یعنی پسماندہ لوگوں میں توہم پرستی اور مذہب کے خلاف وسوسے پیدا کردیئے تھے جس طرح زنگی اور ایوبی نے فن حرب وضرب میں نئے تجربے کیے اور نئی چالیں وضع کیں، اسی طرح صلیبیوں نے درپردہ کردار کشی کے  میدان میں نئے طریقے دریافت کیے۔ تین چار یورپی مورخین نے یہاں تک لکھا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بعض صلیبی حکمرانوں نے میدان جنگ کو اہمیت دینی ہی چھوڑ دی تھی۔ وہ اس نظریئے کے قائل ہوگئے تھے کہ جنگ اس طریقے سے لڑو کہ مسلمانوں کی جنگی طاقت زائل ہوتی رہے۔ زور دار حملہ ان کے مذہبی عقائد پر کرو اور ان کے دلوں میں ایسے وہم پیدا کردو جو مسلمان قوم اور فوج کے درمیان بداعتمادی اور حقارت پیدا کردیں۔ اس مکتبہ فکر کے صلیبی مفکروں میں فلپ آگسٹس سرفہرست تھا۔ یہ صلیبی حکمران اسلام دشمنی کو اپنے مذہب کا بنیادی اصول سمجھتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ ہماری جنگ صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی سے نہیں، یہ صلیب اور اسلام کی جنگ ہے جو ہماری زندگی میں نہیں تو کسی نہ کسی وقت میں ضرور کامیاب ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کی اٹھتی ہوئی نسل کے ذہن میں قومیت کے بجائے جنسیت بھر دو اور انہیں ذہنی عیاشی میں ڈبو دو۔
آگسٹس اپنے مشن کی کامیابی کے لیے میدان جنگ میں مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال کر صلح کرلینے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔ ہم جس دور یعنی ١١٦٩ء کے لگ بھگ کی کہانی سنا رہے ہیں، اس وقت وہ نورالدین زنگی کے ہاتھوں شکست کھا کر مفتوحہ علاقے واپس کرچکا تھا۔ اس نے زنگی کو تاوان بھی دیا تھا اور جنگ نہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کرکے جزیہ دے رہا تھا مگر جنگی قیدیوں کے تبادلے میں اس نے چند ایک معذور مسلمان سپاہی واپس کیے۔ تندرست قیدیوں کو اس نے قتل کردیا تھا اور اب وہ کرک کے قلعے میں اسلام کی بیخ کنی کے منصوبے بنا رہا تھا۔ اس کے ذہن میں اسلام دشمنی خبط کی صورت اختیار کرگئی تھی۔ اس کی بعض چالیں ایسی خفیہ ہوتی تھیں کہ اس کے اپنے صلیبی حکمران اور جرنیل بھی اسے شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے تھے۔ اس پر اپنے ساتھیوں نے یہ الزام عائد کیا کہ وہ اندر سے مسلمانوں کا دوست ہے اور ان کے ساتھ سودا بازی کررہا ہے۔ ایک یورپی مورخ آندرے آزون کے مطابق اس الزام کے جواب میں ایک بار آگسٹس نے کہا تھا… ''ایک مسلمان حکمران کو پھانسنے کے لیے میں اپنی کنواری بیٹیوں کو بھی اس کے حوالے کرنے سے گریز نہیں کروں گا۔ تم مسلمانوں کے ساتھ صلح نامے اور دوستی کے معاہدے کرنے سے گھبراتے ہو، کیونکہ اس میں تم اپنی توہین کا پہلو دیکھتے ہو، تم یہ نہیں سوچتے کہ مسلمان کو میدان جنگ کی نسبت صلح کے میدان میں مارنا آسان ہے۔ ضرورت پڑے تو اس کے آگے ہتھیار ڈال کر صلح نامہ کرو، معاہدہ کرو اور گھر آکر معاہدے اور صلح نامے کے الٹ ردعمل کرو۔ کیا میں ایسا نہیں کررہا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ میرے خون کے رشتے کی دو لڑکیاں، دمشق کے ایک شیخ کے حرم میں ہیں؟ کیا اس شیخ سے تم لڑے بغیر بہت سارا علاقہ لے نہیں چکے؟ کیا اس نے دوستی کا حق ادا نہیں کیا؟ وہ مجھے اپنا دوست سمجھتا ہے اور میں اس کا جانی دشمن ہوں۔ میں ہر ایک غیرمسلم سے کہوں گا کہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کرو اور انہیں دھوکہ دے کر مارو''۔
٭      ٭       ٭
یہ تھی وہ صلیبی ذہنیت جو ایک کامیاب سازش کے تحت سلطنت اسلامیہ کی جڑوں کو دیمک کی طرح کھا رہی تھی۔ اسی سازش کا یہ نتیجہ تھا کہ مصر میں بغاوت کی چنگاری شعلہ بننے لگی تھی جسے سرد کرنے کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی کو کرک کا محاصرہ اس حالت میں اٹھانا پڑا، جب وہ صلیبیوں کی ایک سوار فوج کو قلعے سے باہر شکست دے چکا تھا۔ اسے محاصرہ نورالدین زنگی کے حوالے کرکے اپنی فوج سمیت قاہرہ جانا پڑا۔ وہ دل برداشتہ تو نہیں تھا لیکن دل پر ایسا بوجھ تھا جو اس کے چہرے پر صاف نظرآرہا تھا۔ اس کی فوج کے سپاہی اس خیال سے مطمئن تھے کہ انہیں آرام کے لیے قاہرہ لے جایا جارہا ہے لیکن دستوں کے وہ کمان دار جو سلطان ایوبی کے عزم اور لڑنے کے لیے طریق کار کو سمجھتے تھے، حیران تھے کہ اس نے نورالدین کو فوج سمیت کیوں بلایا اور محاصرہ کیوں اٹھایا ہے۔ وہ تو فتح یا شکست تک لڑنے کا قائل تھا۔ اس کے ہیڈکوارٹر کے دو تین سالاروں کے سوا کسی کو علم نہیں تھا کہ مصر کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں اور سوڈان میں تقی الدین کا حملہ ناکام ہوگیا ہے اور اسے خیریت سے پیچھے ہٹانا ہے۔ سلطان ایوبی کے ساتھ علی بن سفیان بھی تھا۔ وہی مصر کے اندرونی حالات کی رپورٹ لے کر آیا تھا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے کرک سے کوچ کے حکم کے ساتھ یہ حکم بھی دیا تھا کہ راستے میں بہت کم پڑائو کیے جائیں گے اور کوچ بہت تیز ہوگا۔ اس حکم سے سب کو شک ہوا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ سفر کی پہلی شام آئی۔ فوج رات بھر کے لیے رک گئی۔ سلطان ایوبی کا خیمہ نصب ہوگیا تو اس نے اپنے اعلیٰ کمانڈروں اور اپنی مرکزی کمان کے عہدیداروں کو بلایا۔ اس نے کہا… ''آپ میں زیادہ تعداد ان کی ہے جنہیں معلوم نہیں کہ میں نے محاصرہ کیوں اٹھایا ہے اور میں کو قاہرہ کیوں لے جارہا ہوں۔ بے شک محاصرہ ٹوٹا نہیں، آپ میں کوئی بھی پسپا نہیں ہوا لیکن میں اسے اگر شکست نہیں تو پسپائی ضرور کہوں گا۔ میرے رفیقو! ہم پسپا ہورہے ہیں اور آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ آپ کو پسپا کرنے والے آپ کے اپنے بھائی ہیں، اپنے رفیق ہیں، وہ صلیبیوں کے رفیق بن چکے ہیں اور انہوں نے بغاوت کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اگر علی بن سفیان اس کے نائب اور غیاث بلبیس چوکس نہ ہوتے تو آج آپ مصر نہ جاسکتے۔ وہاں صلیبیوں اور سوڈانیوں کی حکمرانی ہوتی۔ ارسلان جیسا حاکم صلیبیوں کا آلۂ کار نکلا، وہ الادریس کے دو جوان بیٹے مروا کر خودکشی کرچکا ہے۔ اگر ارسلان غدار تھا تو آپ اور کس پر بھروسہ کریں گے؟''
حاضرین پر سناٹا طاری ہوگیا۔ بے چینی اور اضطراب ان کی آنکھوں میں چمک رہا تھا۔ سلطان ایوبی نے خاموش ہوکر سب کو دیکھا۔ اس دور کا ایک وقائع نگار قاضی بہائوالدین شداد کسی غیرمطبوعہ تحریر کے حوالے سے لکھتا ہے کہ دو قندیلوں کی کانپتی ہوئی روشنی میں سب کے چہرے اس طرح نظر آرہے تھے جیسے وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوں۔ وہ آنکھ بھی نہیں جھپکتے تھے۔ سلطان ایوبی کے الفاظ سے زیادہ اس کا لب ولہجہ اور انداز ان پر اثر انداز ہورہا تھا۔ سلطان ایوبی کی آواز میں روز والا جوش نہیں بلکہ لرزہ سا تھا جو سب کو ڈرا رہا تھا۔ اس نے کہا… ''میں یہ کہہ کر کہ آپ میں بھی غدار ہیں، معافی نہیں مانگوں گا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں کہوں گا کہ قرآن پر حلف اٹھائو کہ آپ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کے وفادار ہیں۔ ایمان بیچنے والے قرآن ہاتھ میں لے کر بھی وفاداری کا یقین دلایا کرتے ہیں۔ میں آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہر وہ انسان جو مسلمان نہیں وہ آپ کا دشمن ہے۔ دشمن جب آپ کے ساتھ محبت اور دوستی کا اظہار کرتا ہے تو اس میں اس کی دشمنی چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ آپ کو آپ کے بھائیوں کے خلاف اور آپ کے مذہب کے خلاف استعمال کرتا ہے اور جہاں اسے مسلمانوں پر حکومت کرنے کا موقع ملتا ہے، وہ مسلمان مستورات کی عصمت دری اور اسلام کی بیخ کنی کرتا ہے۔ یہی اس کا مقصد ہے، ہم جو جنگ لڑ رہے ہیں یہ ہماری ذاتی جنگ نہیں۔ یہ ذاتی حکمرانی قائم کرنے کے لیے کسی ملک پر قبضے کی کوشش نہیں۔ یہ دو عقیدوں کی جنگ ہے۔ یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے۔ یہ جنگ اس وقت تک لڑی جاتی رہے گی جب تک کفر یا اسلام ختم نہیں ہوجاتا''۔
         ''گستاخی معاف سالاراعظم!'' ایک سالار نے کہا… ''اگر ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم غدار نہیں ہیں تو ہمیں مصر کے حالات سے آگاہ کریں۔ ہم عمل سے ثابت کریں گے کہ ہم کیا ہیں۔ ارسلان فوج کا نہیں انتظامیہ کا حاکم تھا۔ آپ کو غدار انتظامی شعبوں میں ملیں گے، فوج میں نہیں۔ کرک قلعے کا محاصرہ آپ نے اٹھایا ہے، ہم نے نہیں۔ محترم زنگی کو آپ نے بلایا ہے، ہم نے نہیں۔ ہمارا امتحان میدان جنگ میں ہوسکتا ہے، پرامن کوچ میں نہیں… مصر میں کیا ہورہا ہے''۔
صلاح الدین ایوبی نے علی بن سفیان کی طرف دیکھا اور کہا… ''علی! انہیں بتائو وہاں کیا ہورہا ہے''۔
علی بن سفیان نے کہا… ''غداروں نے دشمن کے ساتھ مل کر سوڈان کے محاذ کے لیے رسد روک لی ہے۔ منڈیوں سے غلہ غائب کردیا ہے۔ دیہاتی علاقوں میں اجنبی لوگ آکر غلہ اور خوردونوش کی دیگر اشیاء خرید کر لے جاتے ہیں، گوشت ناپید کردیا گیا ہے۔ رسد اگر بھیجی جاتی ہے تو دانستہ تاخیر کی جاتی ہے۔ یوں بھی ہوا کہ رسد بھیج کر دشمن کو اطلاع دے دی گئی۔ دشمن نے رسد کے قافلے کو راستے میں روک لیا۔ شہر میں بدکاری عام ہوگئی ہے۔ جوئے بازی کے ایسے دلچسپ طریقے رائج ہوگئے ہیں جن کے ہمارے لڑکے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ دیہاتی علاقوں سے فوج کو بھرتی نہیں ملتی اور جانور بھی نہیں ملتے۔ فوج میں بے اطمینانی پیدا ہوگئی ہے، ہمارے قومی کردار کو تباہ کرنے کے سامان پیدا کردیئے گئے ہیں۔ انتظامیہ کے حکام چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حکمران بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہیں یہ لالچ صلیبیوں نے دے رکھی ہے۔ ان حاکموں کو باہر سے بے دریغ دولت مل رہی ہے چونکہ سلطنت اور امارت کا انتظام انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہے، اس لیے انہوں نے ایسی فضا پیدا کردی ہے جو دشمن کے لیے سازگار ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک صورت یہ پیدا ہوگئی ہے کہ دیہائی علاقوں میں عجیب وغریب عقیدے پھیل رہے ہیں۔ لوگ غیراسلامی اصولوں کے قائل اور پابند ہوتے جارہے ہ یں۔ اس میں خطرہ یہ ہے کہ ہمیں فوج انہی علاقوں سے ملتی ہے اور ہماری موجودہ فوج انہی علاقوں سے آئی ہے۔ بے بنیاد اور غیراسلامی عقیدے فوج میں بھی آگئے  ہیں''۔
         ''کیا آپ نے اس کا تدارک نہیں کیا؟'' حاضرین میں سے کسی نے پوچھا۔
         ''جی ہاں!'' علی بن سفیان نے کہا… ''میرا تمام ترشعبہ مجرموں کے سراغ لگانے اور انہیں پکڑنے میں مصروف ہے۔ میں نے اپنے جاسوس اور مخبر دیہاتی علاقوں میں بھی پھیلا رکھے ہیں مگر دشمن کی تخریب کاری اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ اس کے آدمیوں کو پکڑنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی دشمن کے جاسوسوں اور تخریب کاروں کو پناہ اور تحفظ دیتے ہیں۔ کیا آپ یہ سن کر حیران نہیں ہوں گے کہ دیہاتی علاقوں کی بعض مسجدوں کے امام بھی دشمن کی تخریب کاری میں شامل ہوگئے ہیں''۔
         ''یہ تو ہونہیں سکتا کہ میں انتظامیہ فوج کے سپرد کردوں''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا… ''فوج جس مقصد کے لیے تیار کی گئی ہے، یہ اسی کی تکمیل کا فرض ادا کرتی رہے تو سلطنت کے لیے بھی بہتر ہوتا ہے اور فوج کے لیے بھی۔ جس طرح ایک کوتوال سالار کے فرائض سرانجام نہیں دے سکتا۔ البتہ ہر سالار کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ کوتوال کیا کررہے ہیں۔ ہر سالار کو باخبر رہنا چاہیے کہ انتظامیہ کیا کررہی ہے۔ کیا واقعی فرائض میں کوتاہی تو نہیں ہورہی؟… میرے رفیقو! ہمیں خدا نے تاریخ کی سب سے زیادہ کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ مصر کے حالات آپ نے سن لیے ہیں۔ سوڈان کا حملہ ناکام ہوگیا ہے۔ تقی الدین اپنی غلطیوں کی بدولت سوڈان کے صحرا میں پھنس کے رہ گیا ہے۔ اس کی فوج چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بکھر گئی ہے۔ اس کی پسپائی بھی ممکن نظر نہیں آتی۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ محترم زنگی کرک فتح کرلیں گے یا نہیں لیکن اسے بھی میں اپنی ناکامی کہتا ہوں۔ آپ انتہائی مشکل حالات میں بھی میدان جنگ میں دشمن کو شکست دے سکتے ہیں مگر دشمن نے جس محاذ پر حملہ کیا ہے، اس پر دشمن کو شکست دینا آپ کے لیے بظاہر آسان نظر نہیں آتا۔ آپ تیغ زن ہیں۔ صحرائوں کا سینہ چیر سکتے ہیں مگر مجھے خطرہ نظر آرہا ہے کہ صلیبیوں کے اس محاذ پر آپ ہتھیار ڈال دیں گے''۔
حاضرین میں چند ایک جوشیلی اور پرعزم آوازیں سنائی دیں۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اس وقت جو فوج مصر میں ہے وہ جب شوبک اور کرک کے محاذ سے مصر گئی تھی تو اس کے کمان داروں اور عہدیداروں کا جذبہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا آج آپ کا ہے مگر قاہرہ پہنچ کر جب انہوں نے د شمنوں کے سبز باغ دیکھے تو بغاوت کے لیے تیار ہوگئے۔ اب اس فوج کی کیفیت یہ ہے کہ آپ اس پر بھروسہ نہیں کرسکتے''۔
         ''ہم ایسے ایک ایک کمان دار اور عہدیدار کو قتل کرکے دم لیں گے''۔ ایک سالار نے کہا۔
         ''ہم سب سے پہلے اپنی صفوں کو غداروں سے پاک کریں گے''۔ ایک اور نے کہا۔
         ''اگر میرا بیٹا صلیبیوں کا دوست نکلا تو میں اپنی تلوار سے اس کا سرکاٹ کر آپ کے قدموں میں رکھ دوں گا''۔ ایک بوڑھے نائب سالار نے کہا۔
         ''میں اس قسم کی جوشیلی اورجذباتی باتوں کا قائل نہیں''… سلطان ایوبی نے کہا۔
حاضرین کا جوش غضب ناک ہوگیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو سلطان ایوبی کے سامنے بات کرنے سے ڈرا کرتے تھے مگر اب یہ سن کر کہ ان کی فوج کی وہ نفری جو مصر میں ہے، دشمن کی تخریب کاری کا شکار ہوکر اپنی سلطنت کے خلاف بغاوت پر اتر آئی ہے تو وہ لوگ آگ بگولہ ہوگئے۔ ایک نے سلطان ایوبی کو یہاں تک کہہ دیا… ''آپ ہمیں ہمیشہ تحمل سے سوچنے اور بردباری سے عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں مگر بعض حالات ایسے ہوتے ہیں جنہیں تحمل اور بردباری اور زیادہ بگاڑ دیتی ہے۔ ہمیں اجازت دیں کہ قاہرہ تک ہم ایک بھی پڑائو نہ کریں۔ ہم آرام اور خوراک کے بغیر متواتر سفر کریں گے۔ ہم اس فوج کو نہتہ کرکے قید کرلیں گے''۔
صلاح الدین ایوبی کے لیے ان حکام پر قابو پانا محال ہوگیا۔ اس نے کچھ اور باتیں کہہ سن کر مجلس برخواست کردی۔ علی الصبح فوج نے کوچ کیا۔ یہ کوچ ترتیب سے ہورہا تھا۔ سلطان ایوبی اپنے عملے کے ساتھ الگ تھلگ جارہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ علی بن سفیان اس کے ساتھ نہیں تھا۔ شام تک فوج کو دو مرتبہ کچھ دیر کے لیے روکا گیا۔ شام گہری ہونے کے بعد بھی فوج چلتی رہی۔ رات کا پہلا پہر ختم ہورہا تھا، جب سلطان ایوبی نے رات کے قیام کے لیے فوج کو روکا۔ سلطان کھانے سے فارغ ہوا تو علی بن سفیان آگیا۔
         ''سارا دن کہاں رہے علی؟''… سلطان ایوبی نے پوچھا۔
         ''گزشتہ رات میرے دل میں ایک شک پیدا ہوگیا تھا''… علی بن سفیان نے جواب دیا… ''اس کی تصدیق یا تردید کے لیے سارا دن فوج میں گھومتا پھرتا رہا''۔
         ''کیسا شک؟''
         ''آپ نے رات دیکھا نہیں تھا کہ تمام سالار، کمان دار اور عہدیدار کس طرح اس فوج کے خلاف بھڑک اٹھے تھے جو مصر میں ہے؟''… علی بن سفیان نے کہا… ''مجھے شک ہونے لگا تھا کہ یہ اپنے اپنے دوستوں کو بھی اسی طرح بھڑکائیں گے۔ میرا شک صحیح ثابت ہوا۔ انہوں نے تمام تر فوج کو مصر کی فوج کے متعلق ایسی باتیں بتائی ہیں کہ تمام فوج انتقامی جذبے سے مشتعل ہوگئی ہے۔ میں نے سپاہیوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم محاذوں پر زخمی اور شہید ہوتے ہیں اور ہمارے ہی ساتھی قاہرہ میں عیش کرتے اور اسلامی پرچم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جاتے ہی انہیں ختم کریں گے۔ پھر سوڈان میں پھنسی ہوئی فوج کی مدد کو پہنچیں گے۔ قابل صد احترام امیر! اگر ہم نے کوئی پیش بندی نہ کی تو قاہرہ میں پہنچتے ہی خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔ ہماری یہ فوج انتقامی جذبے کے زیراثر غصے میں ہے اور ہماری مصر والی فوج پہلے ہی بغاوت کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے''۔
         ''مجھے اس پر تو خوشی ہے کہ مسلسل معرکوں کی تھکی ہوئی اس فوج میں یہ جذبہ پیدا ہوگیا ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''مگر ہمارا دشمن یہی چاہتا ہے کہ ہماری فوج دو حصوں میں بٹ کر آپس میں ٹکرا جائے''۔ وہ گہری سوچ میں پڑ گیا، پھر کہنے لگا… ''جب ہم قاہرہ سے خاصا دور ہوں گے تو میں ذمہ دار اور ذہین قاصد بھیج کر مصر والی فوج کو کسی دوسرے راستے سے کرک کی سمت کوچ کا حکم دے دوں گا۔ شاید میں خود آگے چلا جائوں اور اس فوج کو کوچ کرادوں تاکہ یہ فوج جو ہمارے ساتھ ہے جب وہاں پہنچے تو وہاں اسے اس فوج کا کوئی سپاہی نظر نہ آئے۔ تم نے اچھا کیا ہے علی! میری توجہ ادھر نہیں گئی تھی''۔
٭      ٭       ٭
وہ پراسرار غیب دان جس کے متعلق سرحد کے دیہاتی علاقوں میں مشہور ہوگیا تھا کہ آسمان سے آیا ہے، خدا کا دین لایا ہے اور مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے، اپنے مصاحبوں کے قافلے کے ساتھ سفر کرتا تھا۔ جنہوں نے اسے دیکھا تھا وہ کہتے تھے کہ وہ بوڑھا نہیں، اس کی داڑھی بھورے رنگ کی اور چہرے کی رنگت گوری بتائی جاتی تھی۔ اس نے سر کے بال بڑھا رکھے تھے۔ لوگ بتاتے تھے کہ اس کی شربتی آنکھوں میں پورے چاند جیسی چمک ہے اور اس کے دانت ستاروں کی طرح سفید اور شفاف ہیں۔ اس کا قد اونچا اور جسم گٹھا ہوا بتایا جاتا تھا اور وہ بولتا تھا تو سننے والے مسحور ہوجاتے تھے۔ اس کے ساتھ بہت سے مصاحب اور بہت سے اونٹ تھے۔ سامان والے اونٹ الگ تھے جن میں سے بعض پر بڑے بڑے مٹکے لدے ہوتے تھے۔ اس کا قافلہ آبادی سے دور رکتا اور وہ وہیں لوگوں سے ملتا تھا۔ کسی آبادی میں نہیں جاتا تھا۔ وہ ایک جگہ سے کوچ کرتا تو اس کے آگے آگے کچھ لوگ اونٹ اور گھوڑے بھگا دیتے اور راستے میں آنے والے لوگوں اور بستیوں میں خبر کردیتے تھے کہ وہ آرہا ہے، یہ لوگ ہر کسی کو اس کی کرامات اور روحانی قوتوں کے کرشمے سناتے تھے۔ لوگ کئی کئی دن اس کے راستے میں بیٹھے رہتے تھے۔
جس رات علی بن سفیان صلاح الدین ایوبی کو بتا رہا تھا کہ محاذ سے قاہرہ کو جانے والی فوج مصر میں مقیم فوج کے خلاف مشتعل ہوگئی، اس رات وہ غیب دان قاہرہ سے بہت دور ایک نخلستان میں خیمہ زن ہوا۔ اس کا ایک اصول یہ تھا کہ چاندنی راتوں میں کسی سے نہیں ملتا تھا۔ دن کے دوران کسی کے ساتھ بات نہیں کرتا تھا۔ اندھیر راتیں اسے پسند تھیں۔ اس کی محفل ایسی قندیلوں سے روشن ہوتی تھی جن میں سے ہر ایک کا رنگ دوسری سے مختلف تھا۔ ان روشنیوں کا بھی ایک تاثر تھا جو حاضرین محفل کے لیے طلسماتی تھا۔ وہ جہاں خیمہ زن ہوا تھا اس کے کچھ دور ایک بستی تھی جس میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سوڈانی حبشی رہتے تھے۔ اس بستی میں ایک مسجد بھی تھی جہاں کا امام ایک خاموش طبیعت انسان تھا۔ ایک جواں سال آدمی کوئی ڈیڑھ دو مہینوں سے اس کے پاس دینی تعلیم حاصل کرنے آیا کرتا تھا۔ یہ آدمی جو اپنا نام محمود بن احمد بتاتا تھا کسی دوسری بستی سے مسجد میں جایا کرتاتھا۔ اس کی دلچسپی امام مسجد اور اس کے علم کے ساتھ تھی مگر اس کی ایک دلچسپی اور بھی تھی۔ یہ ایک جوان لڑکی تھی جس نے اسے اپنا نام سعدیہ بتایا تھا۔ سعدیہ کو محمود اتنا اچھا لگا کہ وہ اسے کئی بار اپنی بکریوں کا دودھ پلا چکی تھی۔
ان کی پہلی ملاقات بستی سے دور ایک ایسی جگہ ہوئی تھی جہاں سعدیہ اپنی چار بکریاں اور دو اونٹ چرانے اور انہیں پانی پلانے کے لیے لے گئی تھی۔ محمود وہاں پانی پینے کے لیے رکا تھا۔ سعدیہ نے اس سے پوچھا تھا کہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جارہا ہے؟ محمود نے کہا تھا کہ نہ کہیں سے آرہا ہوں، نہ کہیں جارہا ہوں۔ سعدیہ سادگی سے ہنس پڑی تھی۔ جواب ہی کچھ ایسا تھا۔ سعدیہ نے محمود سے قدرتی سا سوال پوچھا… ''مسلم یا سوڈانی؟''… محمود نے جواب دیا کہ وہ مسلمان ہے تو سعدیہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی تھی۔ محمود نے اسے اپنا صحیح ٹھکانہ نہیں بتایا تھا۔ اس کے ساتھ کچھ ایسی باتیں کیں جو سعدیہ کو اچھی لگی تھیں۔ سعدیہ اس سے سوڈان کی جنگ کے متعلق پوچھنے لگی۔ اس کے انداز سے پتا چلتا تھا کہ اسے اسلامی فوج کے ساتھ دلچسپی ہے۔ اس نے جب صلاح الدین ایوبی کے متعلق پوچھا تو محمود نے اس کی ایسی تعریفیں کیں جیسے سلطان صلاح الدین ایوبی انسان نہیں، خدا کا اتارا ہوا فرشتہ ہے۔ سعدیہ نے پوچھا… ''کیا صلاح الدین ایوبی اس سے زیادہ مقدس اور برگزیدہ ہے جو آسمان سے اترا ہے اور مرے ہوئوں کو زندہ کردیتا ہے؟''
         ''صلاح الدین ایوبی مرے ہوئوں کو زندہ نہیں کرسکتا''۔ محمود نے جواب دیا۔
         ''ہم نے سنا ہے کہ جو لوگ زندہ ہوتے ہیں، انہیں صلاح الدین ایوبی مار ڈالتا ہے''۔ سعدیہ نے شکی لہجے میں کہا… ''لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے اور ہماری طرح کلمہ اور نماز پڑھتا ہے؟''
         ''تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ لوگوں کو مار ڈالتا ہے؟''
         ''ہمارے گائوں میں سے مسافر گزرتے رہتے ہیں اور وہ بتا جاتے ہیں کہ صلاح الدین ایو بی بہت برا آدمی ہے''۔ سعدیہ نے کہا۔
         ''تمہاری مسجد کا امام کیا بتاتا ہے؟'' محمود نے بتایا۔
         ''وہ بہت اچھی باتیں بتاتا ہے''۔ سعدیہ نے کہا… ''وہ سب کو کہتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی اسلام کی روشنی سارے مصر اور سوڈان میں پھیلانے آیا ہے اور اسلام ہی خدا کا سچا دین ہے''۔
محمود اس کے ساتھ اسی موضوع پر باتیں کرتا رہا تھا۔ سعدیہ سے اسے پتا چلا کہ اس کے گائوں میں ایسے آدمی آتے رہتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان بتاتے ہیں مگر باتیں ایسی کرتے ہیں کہ کئی لوگوں کے دلوںمیں اسلام کے خلاف شکوک پیدا ہوگئے ہیں۔ محمود نے سعدیہ کے شکوک رفع کردیئے اور اپنی ذات، میٹھی زبان اور شخصیت کا اس پر ایسا اثر پیدا کیا کہ سعدیہ نے بیتابی سے کہا کہ وہ اکثر یہیں بکریاں چرانے آیا کرتی ہے اور محمود جب کبھی ادھر سے گزرے تو اسے ضرور ملے۔ محمود اسے جذبات اور حقائق کے درمیان بھٹکتا چھوڑ کر اس کے گائوں کی طرف چلا گیا۔ سعدیہ یہ سوچتی رہ گئی کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اور کہاں جارہا ہے؟ اس کا لباس اسی علاقے کا تھا مگر اس کی شکل وصورت اور اس کی باتیں بتاتی تھیں کہ وہ اس علاقے کا رہنے والا نہیں… سعدیہ کے شکوک صحیح تھے۔ محمود بن احمد دیہاتی علاقے کا رہنے والا نہیں تھا۔ سکندریہ شہر کا باشندہ تھا اور علی بن سفیان کی داخلی جاسوسی (انٹیلی جنس) کا ایک ذہین کارکن تھا۔ وہ کئی مہینوں سے اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے سرحدی دیہات میں گھوم پھر رہا تھا۔ اس نے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام خفیہ رکھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ چند اور جاسوس بھی تھے جو اس علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ وہ کبھی کبھی اکٹھے ہوتے اور ان کے جو مشاہدات ہوتے تھے، وہ اپنے کسی ایک ساتھی کے سپرد کرکے اسے قاہرہ بھیج دیتے تھے۔ اس طرح علی بن سفیان کے شعبے کو پتا چلتا رہتا تھا کہ سرحدی علاقے میں کیا ہورہا ہے۔
محمود بن احمد کو سعدیہ مل گئی تو اس نے اس لڑکی کے ساتھ بھی ایسی باتیں کیں جن سے اسے گائوں اور گردوپیش کے علاقے کے لوگوں کے خیالات کا علم ہوسکتا تھا۔ اس نے سعدیہ کے گائوں کی مسجد کے امام کے متعلق خاص طور پر پوچھا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ دو گائوں میں اس نے ایسے امام مسجد دیکھے تھے جو اسے مشکوک سے لگتے تھے۔ وہاں کے لوگوں سے اسے پتا چلا تھا کہ یہ دونوں امام نئے نئے آئے ہیں۔ اس سے پہلے ان مسجدوں میں امام تھے ہی نہیں۔ دونوں جہاد کے خلاف وعظ سناتے اور قرآن کی آیات پڑھ کر غلط تفسیریں بیان کرتے تھے اور یہ دونوں پراسرار غیب دان کو برحق بتاتے اور لوگوں میں اس کی زیارت کا اشتیاق پیدا کرتے تھے۔ محمود اور اس کے دو ساتھیوں نے ان دونوں اماموں کے متعلق رپورٹ قاہرہ کو بھیج دی تھی اور اب وہ سعدیہ کے گائوں جارہا تھا۔ اسے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ اس گائوں کا امام سلطان ایوبی کا مرید اور اسلام کا علمبردار ہے۔ اس نے اسی مسجد کو اپنا ٹھکانہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔
وہ مسجد میں گیا اور امام سے ملا۔ اپنا جھوٹا تعارف کراکے اس نے کہا کہ وہ مذہبی علم کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ امام نے اسے تعلیم دینے کا وعدہ کیا اور اسے مسجد میں رہنے کی پیشکش کی۔ محمود مسجد میں قید نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے امام سے کہا کہ وہ دوتین روز بعد اپنے گھر جایا کرے گا۔ اس نے امام کو بھی اپنا نام نہیں بتایا تھا۔ امام نے اس سے نام پوچھا تو اس نے کچھ اور نام بتادیا۔ یہ پوچھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے تو اس نے اور کسی سرحدی گائوں کا نام بتا دیا۔ امام مسکرایا اور آہستہ سے بولا… ''محمود بن احمد! مجھے خوشی ہوئی ہے کہ تم اپنے فرائض سے بے خبر نہیں۔ سکندریہ کے مسلمان فرض کے پکے ہوتے ہیں''۔
محمود ایسا چونکا جیسے بدک اٹھا ہو۔ وہ سمجھا کہ یہ امام صلیبیوں کا جاسوس ہے لیکن امام نے اسے زیادہ دیر تک شک میں نہ رہنے دیا اور کہا… ''میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے کم از کم تمہارے سامنے اپنے آپ کو بے نقاب کردینا چاہیے۔ میں تمہارے ہی محکمے کا آدمی ہوں۔ میں تمہارے تمام ساتھیوں کو جو اس علاقے میں ہیں، جانتا ہوں۔ مجھے تم میں سے کوئی بھی نہیںجانتا۔ میں محترم علی بن سفیان کے اس عملے کا آدمی ہوں جو دشمن پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے جاسوسوں پر بھی نظر رکھتا ہے۔ میں امام بن کر جاسوسی کا کام کررہا ہوں''۔
         ''پھر میں آپ کو دانشمند آدمی نہیں کہوں گا؟''۔ محمود بن احمد نے کہا… ''آپ نے جس طرح میرے سامنے اپنے آپ کو بے نقاب کیا ہے، اس طرح آپ دشمن کے کسی جاسوس کے سامنے بھی بے نقاب ہوسکتے ہیں''۔
         ''مجھے یقین تھا کہ تم میرے آدمی ہو''۔ امام نے کہا… ''ضرورت ایسی آپڑی ہے کہ تمہیں اپنا اصلی روپ بتانا ضروری سمجھا۔ میرے ساتھ دو محافظ ہیں جو یہاں کے باشندوں کے بہروپ میں گائوں میں موجود رہتے ہیں۔ مجھے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اچھا ہوا کہ تم آگئے ہو۔ اس گائوں میں دشمن کے تخریب کار آرہے ہیں۔ تم نے اس آدمی کے متعلق سنا ہوگا جس کے متعلق مشہور ہوگیا ہے کہ وہ مستقبل کے اندھیرے کی خبر دیتا ہے اور مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے۔ یہ گائوں بھی اس کی ان دیکھی کرامات کی زد میں آگیاہے۔ میں نے گائوں والوں کو شروع میں بتایا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور لاشوں میں کوئی انسان جان نہیں ڈال سکتا مگر اس کی شہرت کا جادو اتنا سخت ہے کہ لوگ میرے خلاف ہونے لگے ہیں۔ میں سنبھل گیا کیونکہ میں اس مسجد سے نکلنا نہیں چاہتا۔ مجھے ایک اڈے اور ٹھکانے کی ضرورت ہے۔ یہاں کے گمراہ کیے ہوئے لوگوں کو اسلام کا سیدھا راستہ بھی دکھانا ہے۔ پندرہ بیس روز گزرے، رات کو دو آدمی میرے پاس آئے۔ میں اکیلا تھا۔ ان دونوں کے چہروں پر نقاب تھے۔ انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ میں یہاں سے چلا جائوں۔ میں نے انہیں کہا کہ میرا اور کوئی ٹھکانہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہاں رہنا چاہتے ہو تو درس بند کردو اور اس کی باتیں کرو جو آسمان سے آیا ہے اور خدا کا سچا مذہب لایا ہے۔ میں دونوں کا مقابلہ کرسکتا تھا۔ ہتھیار ہر وقت اپنے پاس رکھتا ہوں لیکن میں لڑ کر قتل کرکے یا قتل ہوکر اپنا فرض پورا نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے عقل سے کام لیا اور انہیں یہ تاثر دیا کہ آج سے وہ مجھے اپنا آدمی سمجھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ ان کی باتوں پر عمل کرے گا تو اسے ایک انعام یہ ملے گا کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ اسے اشرفیاں دی جائیں گی''۔
         ''پھر آپ نے اپنے وعظ اور خطے کا رنگ بدل دیا ہے؟'' محمود نے پوچھا۔
         ''کسی حد تک''۔ امام نے جواب دیا… ''میں اب دونوں قسم کی باتیں کرتا ہوں۔ مجھے اشرفیوں کی نہیں۔ اپنی جان کی ضرورت ہے۔ میں اپنا فرض ادا کیے بغیر مرنا نہیں چاہتا۔ میں گائوں سے باہر جاکر تمہیں یا تمہارے کسی ساتھی کو ڈھونڈنا بھی نہیں چاہتا کیونکہ اس کی جان بھی خطرے میں پڑ جاتی۔ خدا نے خود ہی تمہیں میرے پاس بھیج دیا ہے۔ میرے محافظ اس رات میرے پاس نہیں تھے۔ اب تم ہی میرے ساتھ رہو۔ تم میرے شاگرد کی حیثیت سے میرے ساتھ رہوگے۔ تم سیدھی سادی گنواروں کی سی باتیں کیا کرنا۔ گائوں میں چار پانچ آدمی ایسے ہیں جو ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اگر ہمیں قریب کوئی سرحدی دستہ مل جائے تو ہمارا مقصد پورا ہوسکتا ہے مگر ہمارے سرحدی دستوں کے کسی کمان دار پر بھروسہ کرنا بڑا خطرناک ہے۔ دشمن نے اشرفیوں اور عورتوں سے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ وہ تنخواہ ہمارے خزانے سے لیتے اور کام دشمن کا کرتے ہیں''۔
محمود بن احمد اس کے پاس رک گیا۔ اسی روز امام نے اسے اپنے دونوں محافظوں سے ملا دیا۔
شام کو جب سعدیہ مسجد میں امام کے لیے کھانا لے کر آئی تو محمود کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی اور مسکرائی۔ محمود نے پوچھا… ''میرے لیے کھانا نہیں لائو گی؟'' سعدیہ کھانا امام کے حجرے میں رکھ کر دوڑی گئی اور روٹی کے ساتھ ایک پیالے میں بکریوں کا دودھ بھی لے آئی۔ وہ چلی گئی تو امام نے محمود سے کہا… ''یہ علاقے کی سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی ہے۔ ذہین بھی ہے اور کم عمر بھی۔ اس کا سودا ہورہا ہے''۔
         ''سودا یا شادی؟''
         ''سودا''… امام نے کہا… ''تم جانتے ہو کہ ان لوگوں کی شادی دراصل سودا ہوتا ہے مگر سعدیہ کا سیدھا سودا ہورہا ہے۔ ہمیں اس کے متعلق پریشان نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن خریدار مشکوک لوگ ہیں۔ وہ یہاں کے رہنے والے نہیں۔ یہ وہی لوگ معلوم ہوتے ہیں جو مجھے دھمکی دے گئے ہیں۔ تم اچھی طرح سمجھ سکتے ہو کہ وہ اس لڑکی کو اپنے رنگ میں رنگ کر ہمارے خلاف استعمال کریں گے۔ اس لیے اسے بچانا ضروری ہے اور اس لیے بھی اسے بچانا ضروری ہے کہ یہ لڑکی مسلمان ہے۔ ہمیں سلطنت کے ساتھ ساتھ سلطنت کی بچیوں کی عصمت کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ سودا نہیں ہوسکے گا۔ سعدیہ کے باپ کو میں نے اپنا مرید بنا رکھا ہے لیکن وہ غریب اور تنہا آدمی ہے اور رسم ورواج سے بھاگ بھی نہیں سکتا۔ بہرحال سلطنت اور سعدیہ کی عصمت کے محافظ ہمارے سوا اور کوئی نہیں''۔
اس کے بعد محمود امام کا شاگرد بن گیا۔ دن گزرنے لگے اور اس کی ملاقاتیں سعدیہ کے ساتھ ہونے لگیں۔ لڑکی چراگاہ میں چلی جاتی اور محمود وہاں پہنچ جاتا تھا۔ ان کی بے تکلفی بڑھ گئی تو محمود نے سعدیہ سے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جو اسے خریدنا چاہتے ہیں۔ سعدیہ انہیں نہیں جانتی تھی۔ اس کے لیے وہ اجنبی تھے۔ انہوں نے اس طرح آکر دیکھا تھا جس طرح گائے، بھینس کو  خریدنے سے پہلے دیکھا جاتا ہے۔ سعدیہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ کسی کی بیوی نہیں بنے گی۔ اسے عرب کا کوئی دولت مند تاجر یا کوئی امیر یا وزیز اپنے حرم میں رکھ کر قید کرلے گا۔ جہاں وہ اپنا گھر بسائے بغیر بوڑھی ہوکر مر جائے گی یا اسے ناچنا سکھا کر تفریح کی چیز بنا لیا جائے۔ اس نے اپنے گائوں کے فوجیوں سے ایسی لڑکیوں کے بہت قصے سنے تھے۔ وہ اتنے پسماندہ علاقے میں رہتے ہوئے بھی ذہین تھی اور اپنا برا بھلا سوچ سکتی تھی۔ اس نے محمود کو دیکھا تو اسے دل میں بٹھا لیا اور اس نے جب یہ دیکھا کہ محمود اسے چاہنے لگا ہے تو اس نے دل میں یہ ارادہ پختہ کرلیا کہ وہ فروخت نہیں ہوگی۔ وہ جانتی تھی کہ خریداروں سے بچنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ ایک روز اس نے محمود سے پوچھا… ''تم مجھے خرید نہیں سکتے؟''
         ''خرید سکتا ہوں''… محمود نے کہا… ''لیکن میں جو قیمت دوں گا وہ تمہارے باپ کو منظور نہیں ہوگی''۔
         ''کتنی قیمت دوگے؟''
         ''میرے پاس دینے کے لیے اپنے دل کے سوا کچھ بھی نہیں''… محمود بن احمد نے جواب دیا… ''معلوم نہیں تم دل کی قیمت جانتی ہو یا نہیں''۔
         ''اگر تمہارے دل میں میری محبت ہے تو میرے لیے یہ قیمت بہت زیادہ ہے''… سعدیہ نے کہا… ''تم ٹھیک کہتے ہو کہ میرے باپ کو یہ قیمت منظور نہیں ہوگی لیکن میں تمہیں یہ بتا دوں کہ میرا باپ مجھے بیچنا بھی نہیں چاہتا، اس کی مجبوری یہ ہے کہ وہ غریب ہے اور اکیلا ہے۔ میراکوئی بھائی نہیں، میرے خریداروں نے میرے باپ کو دھمکی دی ہے کہ اس نے ان کی قیمت قبول نہ کی تو وہ مجھے اغوا کرلیں گے''۔
         ''تمہارا باپ اتنی زیادہ قیمت کیوں قبول نہیں کرتا؟''… محمود نے پوچھا… ''لڑکیوں کو بیچنے کا تو یہاں رواج ہے''۔
         ''باپ کہتا ہے کہ وہ لوگ مسلمان نہیں لگتے''… سعدیہ نے کہا… ''میں نے بھی باپ سے کہہ دیا ہے کہ میں کسی غیرمسلم کے پاس نہیں جائوں گی''… اس نے بیتاب ہوکر کہا… ''تم اگر مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار ہوتو میں ابھی تمہارے ساتھ چل پڑوں گی''۔
         ''میں تیار ہوں''…  محمود نے کہا۔
         ''توچلو''… سعدیہ نے کہا… ''آج ہی رات چلو''۔
         ''نہیں''… محمود کے منہ سے نکل گیا… ''میں اپنا فرض پورے کیے بغیر کہیں بھی نہیں جاسکتا''۔
         ''کیسا فرض؟''… سعدیہ نے پوچھا۔
محمود بن احمد چونکا۔ وہ سعدیہ کو نہیں بتا سکتا تھا کہ اس کا فرض کیا ہے۔ اس نے منہ سے نکلی ہوئی بات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی مگر سعدیہ اس کے پیچھے پڑ گئی۔ محمود کو اچانک یاد آگیا۔ اس نے کہا … ''میں امام سے مذہبی تعلیم لینے آیا ہوں۔ اس کی تکمیل کے بغیر میں کہیں نہیں جائوں گا''
         ''اس وقت تک مجھے معلوم نہیں کہاں پہنچا دیا جائے گا''… سعدیہ نے کہا۔
محمود فرض کو ایک لڑکی پر قربان کرنے پر آمادہ نہ ہوسکا۔ اس کے دل میں یہ شک بھی پیدا ہوا کہ یہ لڑکی دشمن کی جاسوس بھی ہوسکتی ہے جسے اسے بے کار کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لہٰذا اس نے سعدیہ کے متعلق چھان بین کرنا ضروری سمجھا۔
٭      ٭       ٭
صلاح الدین ایوبی کی فوج قاہرہ سے آٹھ دس میل دور تھی۔ اسے بتا دیا گیا تھا کہ فوج مشتعل ہے اور مصر کی فوج پر ٹوٹ پڑے گی۔ سلطان ایوبی نے وہاں پڑائو کا حکم دے دیا اور سپاہیوں میں گھومنے پھرنے لگا۔ وہ خود سپاہیوں کے جذبات کا جائزہ لینا چاہتا تھا۔ وہ ایک سوار کے پاس رکا تو کئی سوار اور پیادہ اس کے گرد جمع ہوگئے۔ اس نے ان کے ساتھ غیرضروری سی باتیں کیں تو ایک سوار بول پڑا۔ اس نے پوچھا… ''گستاخی معاف سالاراعظم! یہاں پڑائو کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم شام تک قاہرہ پہنچ سکتے تھے''۔
         ''تم لوگ لڑتے لڑتے آئے ہو''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں تمہیں اس کھلے صحرا میں آرام دینا چاہتا ہوں''۔
         ''ہم لڑتے آئے ہیں اور لڑنے جارہے ہیں''… سوار نے کہا۔
         ''لڑنے جارہے ہیں؟''… سلطان ایوبی نے انجان بنتے ہوئے پوچھا… ''میں تو تمہیں قاہرہ لے جارہا ہوں، جہاں تم اپنے دوستوں سے ملوگے''۔
         ''وہ ہمارے دشمن ہیں''… سوار نے کہا… ''اگر یہ سچ ہے کہ ہمارے دوست بغاوت کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو وہ ہمارے دشمن ہیں''۔
         ''صلیبیوں سے بدترین دشمن''… ایک اور سپاہی نے کہا۔
         ''کیا یہ سچ نہیں سالاراعظم کہ قاہرہ میں غداری اور بغاوت ہورہی ہے؟''… کسی اور نے پوچھا۔
         ''کچھ گڑبڑ سنی ہے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں مجرموں کو سزا دوں گا''۔
         ''آپ پوری فوج کو کیا سزا دیں گے؟''… ایک سوار نے کہا… ''سزا ہم دیں گے، ہمیں کمان داروں نے قاہرہ کے سارے حالات بتا دیئے ہیں۔ ہمارے ساتھی شوبک اور کرک میں شہید ہوئے ہیں۔ دونوں شہروں کے اندر ہماری بیٹیوں اور بہنوں کی عصمت دری ہوئی ہے اور کرک میں ابھی تک ہورہی ہے۔ ہمارے ساتھی قلعے کی دیواروں سے دشمن کی پھینکی ہوئی آگ میں زندہ جل گئے ہیں۔ قبلہ اول پر کافروں کا قبضہ ہے اور ہماری فوج قاہرہ میں بیٹھی عیش کررہی ہے۔ آپ کے خلاف بغاوت کی تیاری کررہی ہے، جنہیں شہیدوں کا پاس نہیں، اپنی بیٹیوں کی عصمتوں کا خیال نہیں، انہیں زندہ رہنے کا بھی حق نہیں۔ ہم جانتے ہیں وہ اسلام کے دشمن کے دوست بن گئے ہیں۔ ہم جب تک غداروں کی گردنیں اپنے ہاتھوں نہیں کاٹیں گے ہمیں شہیدوں کی روحیں معاف نہیں کریں گے۔ ذرا ان زخمیوں کودیکھئے، جنہیں ہم اپنے ساتھ لارہے ہیں کسی کی ٹانگ نہیں، کسی کا بازو نہیں۔ کیا یہ اس لیے ساری عمر کے لیے اپاہج ہوگئے ہیں کہ ہمارے ساتھی اور ہمارے دوست دشمن کے ہاتھ میں کھیلیں؟''۔
         ''ہم انہیں اپنے ہاتھوں سزا دیں گے''… اور پھر ایسا شور سپا ہوگیا کہ ساری فوج وہاں جمع ہوگئی۔ صلاح الدین ایوبی کے لیے اس جوش وخروش پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ وہ سپاہیوں کے جوش اور جذبے کو سرد کرکے ان کا دل بھی نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ اس نے انہیں صبرو تحمل کی تلقین کی۔ کوئی حکم نہ دیا۔ اپنے خیمے میں گیا۔ مشیروں اور نائبین کو بلا کر کہا کہ یہ فوج اگلے حکم تک یہیں پڑائو کرے گی۔ اس نے کہا… ''میں نے دیکھ لیا ہے کہ خانہ جنگی ہوگی، فوج کا آپس میں ٹکرا جانا دشمن کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ میں آج رات قاہرہ جارہا ہوں۔ کسی کو معلوم نہ ہوسکے کہ میں یہاں نہیں ہوں۔ سپاہیوں کے جوش کو سرد کرنے کی بھی کوشش نہ کی جائے''۔
اس نے ضروری احکام اور ہدایات دے کر کہا۔ ''ہماری قاہرہ والی فوج جو بغاوت پر آمادہ ہے، میری نظر میں بے گناہ ہے اور ہماری قوم کے وہ نوجوان جو جوئے اور ذہنی عیاشی کے عادی ہوتے جارہے ہیں، وہ بھی بے گناہ ہیں۔ فوج کو ہمارے اعلیٰ حکام نے غلط باتیں بتا کر بھڑکایا ہے۔ انہی حکام کے ایماء پر دشمن نے ہمارے ملک کے سب سے بڑے شہر میں ذہنی عیاشی کے سامان پھیلائے ہیں۔ اس اخلاقی تباہ کاری کو فروغ صرف اس لیے حاصل ہوا ہے کہ ہماری انتظامیہ کے وہ حکام جنہیں اس تخریب کاری کو روکناتھا، وہ اسے پھیلانے میں شریک ہیں۔ دشمن انہیں اجرت دے رہا ہے، جب کسی قوم کے سربراہ اور امراء دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتے ہیں تو اس قوم کا یہی حشر ہوتا ہے۔ ہماری فوج سوڈان کے ظالم صحرا میں بکھری ہوئی لڑرہی ہے، کٹ رہی ہے، سپاہی بھوکے اور پیاسے مرررہے ہیں اور ہمارے حاکم ان کی کمک، رسد اور ہتھیار روکے بیٹھے ہیں۔ کیا یہ دشمن کی سازشیں نہیں جسے ہمارے اپنے بھائی کامیاب کررہے ہیں؟ اس سے دشمن ایک فائدہ اٹھا رہا ہے کہ تقی الدین اور اس کے وہ عسکری جو جذبہ جہاد سے لڑ رہے ہیں، وہ مررہے ہیں اور نوبت ہتھیار ڈالنے تک آگئی ہے اور دوسرا فائدہ یہ کہ ہماری قوم کو بتایا جائے گا کہ یہ دیکھو تمہاری فوج شکست کھا گئی ہے کیونکہ یہ اسی قابل تھی۔ ہمارے بعض بھائی مصر کی امارت پر قابض ہونے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ سب سے پہلے فوج کو قوم کی نظروں میں رسوا اور ذلیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ من مانی کرسکیں۔ مجھے امارت کے ساتھ چپکے رہنے کی کوئی خواہش نہیں اگر میرے مخالفین میں سے کوئی مجھے یہ یقین دلا دے کہ وہ میرے عزم کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے گا تو میں اس کی فوج میں سپاہی بن کر رہوں گا مگر ایسا کون ہے؟ یہ لوگ اپنی باقی زندگی بادشاہ بن کر گزارناچاہتے ہیں، خواہ دشمن کے ساتھ سازباز کرکے بادشاہی ملے اور میں اپنی زندگی میں قوم کو اس مقام پر لانا چاہتا ہوں، جہاں وہ اپنے دین کے دشمنوں کے سرپر پائوں رکھ کر بادشاہی کرے۔ ہمارے ان لالچی اور غدار حاکموں کی نظر اپنے حال پر اپنے آج پر ہے۔ میری نظر قوم کے مستقبل پر ہے''۔
اس نے بولتے بولتے توقف کیا اور کہا… ''میرا گھوڑا فوراً تیار کرو''… اس نے ان افراد کے نام لیے جنہیں اس کے ساتھ جانا تھا۔ اس نے کہا … ''نہایت خاموشی سے ان سب کو بلائو اور انہیں قاہرہ چلنے کے لیے کہو۔ میرا خیمہ یہیں لگا رہنے دو تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ میں یہاں نہیں ہوں''… اس نے گہرا سانس لیا اور کہا… ''میں آپ کو سختی سے ذہن نشین کراتا ہوں کہ جو فوج بغاوت کے لیے تیار ہے، میں اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کروں گا۔ تم میں سے کوئی بھی اس فوج کے خلاف کدورت نہ رکھے۔ اسی طرح اپنے نوجوانوں کو بھی قابل نفرت نہ سمجھنا۔ میں ان کے خلاف کارروائی کروں گا جو فوج اور قوم کو گمراہ اور ذلیل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہی فوج جب اپنے دشمن کے سامنے آئے گی اور دشمن اس کا تیروں سے استقبال کرے گا تو فوج کو یاد آئے گا کہ وہ اللہ کی فوج ہے۔ دماغ سے بغاوت کے کیڑے نکل جائیں گے۔ آپ جب اپنے بچوں کو اپنے دین کا دشمن دکھائیں گے تو ان کا ذہن ازخود جوئے سے ہٹ کر جہاد کی طرف آجائے گا۔ میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیتا ہوں کہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کی بقاء اور وقار فوج کے بغیر ممکن نہیں۔ میں صلیبیوں اور یہودیوں کے عزائم اور ان کے طرز جنگ اور ان کی زمین دوز کارروائیوں کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ اسلام کی فوج کو کمزور کرکے اسلام کا خاتمہ کریں گے جس رو زاور جس دور میں کسی بھی مسلمان ملک کی فوج کمزور ہوگئی، وہ ملک اپنی آزادی اور اپنا وقار کھو بیٹھے گا۔ کسی بھی دور میں کوئی مسلمان مملکت مضبوط اور باوقار فوج کے بغیر زندہ نہیں رہ سکے گی۔ ہمارا آج کا غلط اقدام اسلام کے مستقبل کو تاریک کردے گا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ آنے والی نسلیں ہماری لغزشوں، ناکامیوں اور کامیابیوں سے فائدہ اٹھائیں گی یا نہیں''۔
         ''امیرمصر!''… ایک مشیر نے کہا… ''اگر ہمارے بھائی غداری کے فن میں ہی مہارت حاصل کرتے رہے تو آنے والی نسلیں غلام ہوں گی۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ آزادی کسے کہتے ہیں اور قومی وقار کیا ہے۔ کیا ہمارے پاس اس کا کوئی علاج ہے؟''
         ''قوم کا ذہن بیدار کرو''… سلطان ایوبی نے کہا… ''قوم کو رعایا نہ کہو، قوم کا ہر فرد اپنی جگہ بادشاہ ہوتا ہے۔ کسی بھی فرد کو قومی وقار سے محروم نہ کرو۔ ہمارے امراء اور حاکموں میں چونکہ بادشاہ اور خلیفہ بننے کا جنون سوار ہے۔ اس لیے وہ قوم کو رعایا بنا کر اسے اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھو، قوم جسموں کا مجموعہ نہیں، جسے تم مویشیوں کی طرح ہانگتے پھرو۔ قوم میں دماغ بھی ہے، روح بھی ہے اور قومی وقار بھی ہے۔ قوم کی ان خوبیوں کو ابھارو تاکہ قوم خود سوچے کہ اچھا کیا اور برا کیا ہے۔ اچھا کون اور برا کون ہے۔ اگر قوم محسوس کرے کہ صلاح الدین ایوبی سے بہتر امیر موجود ہے جو سلطنت اسلامیہ کے تحفظ کے ساتھ اسے سمندروں سے پار بھی وسعت دے سکتا ہے تو قوم کا کوئی بھی فرد مجھے راستے میں روک لے اور جرأت سے کہے کہ صلاح الدین ایوبی! تم یہ مسند خالی کردو، ہم نے تم سے بہتر آدمی ڈھونڈ لیا ہے۔ قوم میں یہ سوچ بھی اور جرأت بھی اور مجھ میں فرعونیت نہ ہو کہ اپنے خلاف بات کرنے والے کی گردن مار دوں۔ مجھے یہی خطرہ نظر آرہا ہے کہ ملت اسلامیہ ایسے ہی فرعونوں کی نذر ہوجائے گی۔ قوم کو رعایا اور مویشی بنادیا جائے گا پھر مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے یا برائے نام مسلمان ہوں گے۔ مذہب تو شاید ان کا یہی رہے گا مگر تہذیب وتمدن صلیبیوں کا ہوگا''۔
اتنے میں ایک محافظ نے اندر آکر بتایا کہ گھوڑا تیار ہے اور جن تین چار نائب سالاروں کو بلایا گیا تھا، وہ بھی آگئے ہیں۔ سلطان ایوبی نے اپنے ساتھ چار محافظ لیے۔ باقی محافظ دستے سے کہا کہ وہ اس کے خالی خیمے پر پہرہ دیتے رہیں اور کسی کو پتا نہ چلنے دیں کہ وہ یہاں نہیں ہے۔ اس نے اپنے ساتھ جانے والے عملے سے کہا کہ وہ خاموشی سے فلاں جگہ پہنچ جائیں، وہ ان سے آملے گا۔ اس نے اپنا قائم مقام مقرر کیا اور باہر نکل گیا
٭      ٭       ٭
صحرا تاریک تھا۔ چودہ گھوڑے سرپٹ دوڑے جارہے تھے۔ صلاح الدین ایوبی تاریکی چھٹنے سے پہلے قاہرہ پہنچ جانا چاہتا تھا۔ علی بن سفیان کو اس نے اپنے ساتھ رکھا تھا۔ اس کی فوج پڑائو میں گہری نیند سوگئی تھی۔ جاگنے والے سنتریوں کو بھی علم نہیں ہوسکتا تھا کہ ان کا سالار اعلیٰ نکل گیا ہے۔ قاہرہ والوں کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ سلطان ایوبی مصر میں داخل ہوچکا ہے… رات کا پچھلا پہر تھا، جب سلطان ایوبی کا قافلہ قاہرہ میں داخل ہوا۔ اسے کسی سنتری نے نہ روکا، وہاں کوئی سنتری تھا ہی نہیں۔ سلطان ایوبی نے اپنے ساتھیوں سے کہا… ''یہ ہے بغاوت کی ابتدائ۔ شہر میں کوئی سنتری نہیں۔ فوج سوئی ہوئی ہے، بے پروا، بے نیاز، حالانکہ ہم دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں اور دشمن کے حملے کا خطرہ ہر لمحہ موجود ہے''۔
اپنے ٹھکانے پر پہنچتے ہی ایک لمحہ آرام کیے بغیر اس نے مصر کے قائم مقام سالار اعلیٰ کو بلا لیا۔ الادریس کو بھی بلا لیا جس کے دونوں جوان بیٹوں کو غداروں نے دھوکے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرادیا تھا۔ قائم مقام سالار اعلیٰ سلطان ایوبی کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ سلطان ایوبی نے الادریس سے افسوس کا اظہار کیا۔ الادریس نے کہا… ''میرے بیٹے میدان جنگ میں جانیں دیتے تو مجھے خوشی ہوتی۔ وہ دھوکے میں مارے گئے ہیں''… اس نے کہا… ''یہ وقت میرے بیٹوں کے ماتم کرنے کا نہیں، آپ نے مجھے کسی اور مقصد کے لیے بلایا تھا۔ حکم فرمائیں''۔
قائم مقام سالار اعلیٰ محب اسلام تھا۔ ان دونوں سے سلطان ایوبی نے قاہرہ کے اندرونی حالات کے متعلق تفصیلی رپورٹ لی اور پوچھا کہ ان کی نظر میں کون کون سے حاکم مشتبہ ہیں۔ وہ فوجی حکام کے متعلق خاص طور پر پوچھ رہا تھا۔ اسے چند ایک نام بتائے گئے۔ اس نے احکام دینے شروع کردیئے جن میں اہم یہ تھے کہ مشتبہ حکام کو قاہرہ میں مرکزی کمان میں رہنے دیا جائے اور تمام فوج کو سورج نکلنے سے پہلے کوچ کی تیاری میں جمع کرلیا جائے اور بھی بہت سی ہدایات دے کر سلطان ایوبی نے ایک پلان تیار کرنا شروع کردیا۔ کچھ ہدایات علی بن سفیان کو دے کر اسے فارغ کردیا۔ کچھ دیر بعد فوج کے کیمپ میں ہڑبونگ مچ گئی۔ فوج کو قبل از وقت جگا لیا گیا تھا۔ فوج اور انتظامیہ کے مشتبہ حکام کو صلاح الدین ایوبی کے ہیڈکوارٹر میں بلا لیا گیا تھا۔ وہ حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ انہیں اتنا ہی پتا چلا تھا کہ سلطان ایوبی آگیا ہے۔ انہوں نے اس کا گھوڑا بھی دیکھ لیا تھا لیکن انہیں سلطان ایوبی نظر نہیں آرہا تھا اور سلطان ایوبی انہیں ابھی ملنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اس نے انہیں کوچ تک فوج سے الگ رکھنے کا بندوبست کردیا تھا۔ یہی اس کا مقصد تھا۔
ابھی صبح کی روشنی صاف نہیں ہوئی تھی۔ فوج ترتیب سے کھڑی کردی گئی۔ پیادوں اور سواروں کی صفوں کے پیچھے رسد اور دیگر سامان سے لدے ہوئے اونٹ تھے۔ سلطان ایوبی نے فوج کو یہ ٹریننگ خاص طور پر دی تھی کہ جب بھی فوج کوچ کا حکم ملے تو فوج ایک گھنٹے کے اندر اندر مع رسد اور دیگر سامان کے قافلے کے ساتھ تیار ہوجائے۔ اسی ٹریننگ اور مشق کا کرشمہ تھا کہ فوج طلوع صبح کے ساتھ ہی کوچ کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ سلطان ایوبی اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ اس کے ساتھ مصر کا قائم مقام سالار اعلیٰ بھی تھا۔ سلطان ایوبی نے فوج کو ایک نظر دیکھا اور ایک صف کے سامنے سے گزرنے لگا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اس کے منہ سے باربار یہ الفاظ نکلتے تھے… ''آفرین، صد آفرین۔ اسلام کے پاسبانو تم پر اللہ کی رحمت ہو''… صلاح الدین ایوبی کی شخصیت کا اپنا ایک اثر تھا جسے ہر ایک سپاہی محسوس کررہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی مسکراہٹ اور دادو تحسین کے کلمے سپاہیوں پر اس اثر کو اور زیادہ گہرا کررہے تھے۔ امیر اور سالار اعلیٰ کا سپاہیوں کے اتنا قریب جانا ہی کافی تھا۔
تمام فوج کا معائنہ کرکے سلطان صلاح الدین ایوبی نے مکمل طور پر بلند آواز سے فوج سے خطاب کیا۔ اس وقت کی تحریروں میں اس کے جو الفاظ محفوظ ملتے ہیں وہ کچھ اس طرح تھے… ''اللہ کے نام پر کٹ مرنے والے مجاہدو! اسلام کی ناموس تمہاری تلواروں کو پکار رہی ہے۔ تم نے شوبک کا مضبوط قلعہ جو کفر کا سب سے زیادہ مضبوط مورچہ تھا، ریت کا ٹیلہ سمجھ کر توڑ ڈالا تھا۔ تم نے صلیبیوں کو صحرائوں میں بکھیر کر مارا اور جنت الفردوس میں جگہ بنا لی ہے۔ تمہارے ساتھ، تمہارے عزیز دوست تمہارے سامنے شہید ہوئے۔ تم نے انہیں اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔ ان چھاپہ مار شہیدوں کو یاد کرو جو دشمن کی صفوں کے پیچھے جاکر شہید ہوئے۔ تم ان کا جنازہ نہ پڑھ سکے۔ ان کی لاشیں بھی نہ دیکھ سکے۔ تم تصور کرسکتے ہو کہ دشمن نے ان کی لاشوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا۔ شہیدوں کے یتیم بچوں کو یاد کرو۔ ان کی بیویوں کو یاد کرو جن کے سہاگ خدا کے نام پر قربان ہوگئے ہیں۔ آج شہیدوں کی روحیں تمہیں للکار رہی ہیں۔ تمہاری غیرت کو اور تمہاری مردانگی کو پکار رہی ہیں۔ دشمن نے کرک کے قلعے کو اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ تمہارے کئی ساتھی دیواروں سے پھینکی ہوئی آگ میں جل گئے ہیں، تم اگر وہ منظر دیکھتے تو سرکی ٹکروں سے قلعے کی دیواریں توڑ دیتے۔ وہ آگ میں جلتے رہے اور دیوار میں شگاف ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ موت نے انہیں مہلت نہ دی…''
         ''عظمت اسلام کے پاسبانو! کرک کے اندر تمہاری بیٹیوں اور تمہاری بہنوں کی عصمت دری ہورہی ہے۔ بوڑھوں سے مویشیوں کی طرح مشقت لی جا رہی ہے۔ جوانوں کو قید میں ڈال دیا گیا ہے۔ مائوں کو بچوں سے الگ کردیا گیا ہے مگر میں کہ جس نے پتھروں کے قلعے توڑے ہیں، مٹی کا قلعہ سر نہیں کرسکا۔ میری طاقت تم ہو، میری ناکامی تمہاری ناکامی ہے''… اس کی آواز اور زیادہ بلند ہوگئی۔ اس نے بازو اوپر کرکے کہا… ''میرا سینہ تیروں سے چھلنی کردو، میں ناکام لوٹا ہوں مگر میری جان لینے سے پہلے میرے کان میں یہ خوشخبری ضرور ڈالنا کہ تم نے کرک لے لیا ہے اور اپنی عصمت بریدہ بیٹیوں کو سینے سے لگا لیا ہے''۔
اس وقت کا ایک وقائع نگار الاسدی لکھتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھوڑے اپنے سواروں کی جذباتی کیفیت کو سمجھتے تھے۔ سوار خاموش تھے لیکن کئی گھوڑے بڑی زور سے ہنہنائے، تڑاخ تڑاخ کی آوازیں سنائی دیں۔ سوار باگوں کو زور زور سے جھٹک کر اپنی بیتابی اورجذبہ انتقام کی شدت کا اظہار کررہے تھے۔ ان کی زبانیں خاموش تھیں۔ ان کے چہرے لال سرخ ہوکر ان کے جذبات کی ترجمانی کررہے تھے۔ سلطان ایوبی کے الفاظ تیروں کی طرح ان کے دلوں میں اترتے جارہے تھے۔ بغاوت کی چنگاریاں بجھ چکی تھیں۔ سلطان ایوبی کامقصد پورا ہورہا تھا۔
         ''سلطنت اسلامیہ کی عصمت کے محافظو! تم کفار کے لیے دہشت بن گئے ہو، تمہاری تلواروں کو کند کرنے کے لیے آج صلیبی اپنی بیٹیوں کی عصمت اور حشیش استعمال کررہے ہیں۔ تم نہیں سمجھتے کہ صلیبی اپنی ایک بیٹی کی عصمت لٹا کر ایک ہزار مجاہدین کو بے کار کردیتے ہیں اور اپنے علاقوں میں اپنی ایک بیٹی کے بدلے ہماری ایک ہزار بیٹیوں کو بے آبرو کرتے ہیں۔ تمہارے درمیان ایک فاحشہ عورت بھیج کر ہماری سینکڑوں بیٹیوں کو فاحشہ بنا لیتے ہیں۔ جائو اور اپنی بیٹیوں کی عصمتوں کو بچائو۔ تم کرک جارہے ہو جس کی دیواروں کے گھیرے میں قرآن کے ورق بکھرے ہوئے ہیں اور جہاں کی مسجدیں صلیبیوں کے لیے بیت الخلا بن گئی ہیں۔ وہ صلیبی جو تمہارے نام سے ڈرتے ہیں، آج تم پر قہقہے لگا رہے ہیں۔ شوبک تم نے لیا تھا اور کرک بھی تم ہی لوگے''۔
سلطان ایوبی نے فوج پر یہ الزام عائد نہیں کیا کہ وہ گمراہ ہوگئی ہے اور بغاوت پر آمادہ ہے۔ اس نے کسی کے خلاف شک وشبے کا اشارہ بھی نہیں کیا۔ اس کے بجائے فوج کے جذبے اور غیرت کو ایسا للکارا کہ فوج جو حیران تھی کہ اسے اتنی سویرے کیوں جگایا گیا ہے۔ اب اس پر حیران تھی کہ اسے کرک کی طرف کوچ کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا۔ تمام تر فوج مشتعل ہوگئی تھی۔ سلطان ایوبی نے اعلیٰ اور ادنیٰ کمانڈروں کو بلایا اور انہیں کوچ کے متعلق ہدایات دیں۔ کوچ کے لیے کوئی اور راستہ بتایا۔ راستہ اس راستے سے بہت دور تھا جس پر محاذ کی فوج آرہی تھی۔ کوچ کرنے والی فوج کے ساتھ سلطان ایوبی نے اپنے وہ کمانڈر بھیج دیئے جنہیں وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ انہیں نے خفیہ طور پر ہدایات دے دی تھیں۔ فوج کو جب کوچ کا حکم ملا تو سپاہیوں کے نعرے قاہرہ کے درودیوار کو ہلانے لگے۔ سلطان ایوبی کا چہرہ جذبات کی شدت سے دمک رہا تھا۔
جب فوج اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تو اس نے ایک قاصد کو پیغام دے کر اس پڑائو کی طرف روانہ کردیا جہاں محاذ سے آنے والی فوج رکی ہوئی تھی۔ قاصد کو بہت تیز جانے کو کہا گیا۔ پیغام یہ تھا کہ پیغام ملتے ہی فوج کو قاہرہ کے لیے کوچ کرادیا جائے۔ فاصلہ آٹھ دس میل تھا۔ قاصد جلدی پہنچ گیا۔ اسی وقت کوچ کا حکم مل گیا۔ غروب آفتاب کے بعد فوج کے ہر اول دستے قاہرہ میں داخل ہوگئے۔ ان کے پیچھے باقی فوج بھی آگئی۔ اسے رہائش کے لیے وہی جگہ دی گئی جہاں گزشتہ رات تک کوچ کرجانے والی فوج قیام پذیر تھی۔ سپاہیوں کو کمانڈروں نے بتانا شروع کردیا کہ پہلی فوج کو محاذ پر بھیج دیا گیا ہے۔ آنے والی فوج بھڑکی ہوئی تھی۔ علی بن سفیان نے انہیں ٹھنڈا کرنے کا انتظام کررکھا تھا۔ سلطان ایوبی نے دانشمندی سے فوجی بغاوت کا خطرہ بھی ختم کردیا اور خانہ جنگی کا امکان بھی نہ رہنے دیا۔ اس نے اعلیٰ کمانڈروں کو بلا لیا اور اس فوجی حاکم کو بھی بلایا جو سرحدی دستوں کا ذمہ دار تھا۔ اس نے یہ معلوم کرکے کہ سرحد پر کتنے دستے ہیں اور کہاں کہاں ہیں، اتنی ہی نفری کے دستے تیار کرکے علی الصبح مطلوبہ جگہوں کو بھیجنے کا حکم دیا۔ اسے بتایا جا چکا تھا کہ سرحدی دستے ملک سے غلہ اور فوجی ضروریات کا دیگر سامان باہر بھیجنے میں دشمن کی مدد کررہے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان دستوں کے کمانڈروں کو خصوصی احکامات دئیے اور سرحد سے واپس آنے والے پرانے دستوں کے متعلق اس نے حکم دیا کہ انہیں قاہرہ میں لانے کے بجائے باہر سے ہی محاذ پر بھیج دیا جائے۔
٭      ٭       ٭
سعدیہ دونوں وقت مسجد میں امام کو کھانا دینے جاتی تھی۔ محمود بن احمد شاگرد کی حیثیت سے مذہب کی تعلیم حاصل کررہاتھا۔ وہ اس چراگاہ میں بھی چلاجایا کرتا تھا جہاں سعدیہ بکریاں چرایا کرتی تھی۔ وہاں ٹیلے بھی تھے۔ جگہ سرسبز تھی، کیونکہ وہاں پانی تھا۔ جگہ گائوں سے ذرا دور تھی۔ سعدیہ اب محمود کو اپنا محافظ سمجھنے لگی تھی اور اسے یقین ہوگیا تھا کہ محمود اسے کافروں کے قبضے میں جانے سے بچا لے گا مگر محمود اس کی یہ بات نہیں مانتا تھا کہ اسے فوراً گائوں سے لے جائے۔ سعدیہ نے اسے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اسے اپنے گائوں چھوڑ آئے اور یہاں آکر تعلیم مکمل کرلے۔ محمود اسے بتا نہیں سکتا تھا کہ اس کا گائوںمصر کے دوسرے سرے پر ہے جہاں وہ اتنی جلدی نہیں جاسکتا۔ اس نے اپنے جاسوسی کے فن کے مطابق یہ یقین کرلیا تھا کہ سعدیہ دشمن کی آلۂ کار نہیں۔ اگر محمود کے راستے میں فرض حائل نہ ہوتا تو وہ کبھی کا سعدیہ کو وہاں سے لے جاچکا ہوتا۔ فرض کے علاوہ امام مسجد اس کے محکمے کا افسر تھا جس کی موجودگی میں وہ اپنے فرض میں کوتاہی نہیں کرسکتا تھا۔ امام نے اسے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ رہے۔ اس کا کہنا حکم کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک روز اچانک گائوں میں رونق آگئی۔ کچھ اجنبی صورتیں نظر آنے لگیں۔ ہر کسی کی زبان پر ایک ہی کلمہ تھا… ''وہ آرہا ہے، وہ آسمان سے آیا ہے… مرے ہوئوں کو زندہ کرنے والا آرہا ہے''… گائوں کا ہر فرد بہت ہی خوش تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ان کی مرادیں پوری کرنے والا آرہا ہے۔ سعدیہ دوڑتی آئی اور محمود بن احمد سے کہا… ''تم نے بھی سنا ہے کہ وہ آرہا ہے؟ تم جانتے ہو میں اس سے کیا مانگوں گی؟ میں اسے کہوں گی کہ محمود مجھے فوراً یہاں سے لے جائے، پھر تم مجھے لے جائو گے''۔
محمود کچھ بھی جواب نہ دے سکا۔ اس نے ابھی تک اس پراسرار آدمی کو نہیں دیکھا تھا جسے لوگ پیغمبر تک کہتے تھے… محمود کی ڈیوٹی کے علاقے میں وہ پہلی بار آرہا تھا۔ اس کی کرامات اور معجزوں کی کہانیاں اس علاقے میں کب کی پہنچ رہی تھیں۔ محمود باہر نکل گیا تو اجنبی لوگوں میں اسے اپنے دو ساتھی جاسوس نظر آئے۔ ان کا علاقہ کوئی اور تھا۔ محمود نے ان سے پوچھا کہ وہ اس کے علاقے میں کیوں آگئے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس غیب دان کو دیکھنے آئے ہیں مگر وہ جاسوسوں کی حیثیت سے نہیں آئے تھے بلکہ اس سے پوری طرح متاثر تھے۔ انہوں نے اس کی کرامات کسی جگہ دیکھی تھیں جو انہوں نے محمود کو ایسے انداز سے سنائی کہ وہ مرعوب ہوگیا۔ یہ دونوں اس غیب دان کو برحق سمجھنے لگے تھے۔ محمود نے سوچا کہ علی بن سفیان کی تربیت یافتہ جاسوس جس سے متاثر ہوجائیں وہ برحق ہوسکتا ہے۔
محمود اس سرسبز جگہ کی طرف چلا گیا جہاں سعدیہ بکریاں اور اونٹنی چرانے کے بہانے اسے ملا کرتی تھی مگر وہاں کچھ اور ہی گہما گہمی تھی۔ اسے دور ہی دو آدمیوں نے روک دیا اورکہا کہ خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر آرہا ہے۔ یہ جگہ اس کے لیے صاف کی جارہی ہے۔ وہ یہیں قیام کرے گا۔ اس نے دور سے دیکھا کہ ایک ٹیلے میں غار سا بنایا جارہا تھا اور جگہ ہموار کی جارہی تھی۔ اب وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ گائوں کے لوگ کام دھندا چھوڑ کر وہاں جمع ہورہے تھے۔ اجنبی آدمی جو اس جگہ صفائی وغیرہ کا کام کرتے تھے، باری باری آکر لوگوں کو اس کے معجزے سناتے تھے۔ لوگ مسرور اور مسحور ہوئے جارہے تھے۔ رات کو بھی لوگ وہاں کھڑے رہے۔ ان کی عقیدت مندی کا یہ عالم تھا کہ مسجد میں کوئی بھی نہ گیا۔ دوسرے دن کی ابھی صبح طلوع ہوئی تھی کہ لوگ پھر وہیں پہنچ گئے۔ انہیں دور ہی روک لیا گیا۔ رات کے دوران اجنبی چہروں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ یہ لوگ وہاں گڑھے بھی کھود رہے تھے۔ ان کے ساتھ چند اونٹ تھے جن پر بہت سارا سامان لدا ہوا تھا۔ یہ سامان کھولا جانے لگا تو انہیں بہت سے خیمے نظر آئے جو کھول کر نصب کیے جارہے تھے۔
شام گہری ہونے لگی۔ راتیں تاریک ہوا کرتی تھیں۔ چاند رات کے پچھلے پہر ابھرتا تھا۔ اس غیب دان کے متعلق بتایا جاتا تھا کہ صرف تاریک راتوں میں لوگوں کو اپنا آپ دکھاتا ہے۔ شام کے بعد بھی گائوں کے لوگ وہاں موجود رہے۔ ایک طرف گائوں کی عورتیں بھی کھڑی تھیں، جن میں سعدیہ بھی تھی جو جگہ آنے والے کے لیے صاف کی جارہی تھیں۔ وہاں مشعل جل رہی تھیں۔ دو آدمی ان چند لڑکیوں کے پیچھے سے آئے، جن میں سعدیہ تھی۔ لڑکیاں انہیں دیکھ نہ سکیں۔سامنے سے تین چار آدمی آئے۔ یہ اجنبی لوگوں میں سے تھے۔ لڑکیوں کے قریب آکر انہوں نے لڑکیوں سے کہا… ''تم یہاں سے جاتی کیوں نہیں؟''… اور وہ لڑکیوں کو ڈرانے کے لیے ان کی طرف دوڑے، لڑکیاں بھاگ اٹھیں اور بکھر گئیں۔ کسی نے پیچھے سے سعدیہ کے اوپر کمبل پھینکا۔ دو مضبوط بازوئوں نے اسے کمر سے دبوچ لیا۔ ایک ہاتھ سے کسی نے اس کا منہ بند کردیا۔ اسے کندھے پر اٹھا کر کوئی دوڑ پڑا۔ ایک تو تاریکی تھی اور دوسرے لڑکیاں بھاگ گئی تھیں۔ اس لیے کوئی بھی نہ دیکھ سکا کہ سعدیہ کو کوئی اٹھا لے گیا ہے۔
دوسری صبح جیسے طوفان آگیا ہو۔ گائوں کے لوگ چراگاہ کی طرف دوڑ پڑے۔ ایک ہجوم چلا آرہا تھا۔ اس کے آگے آگے سولہ سترہ اونٹ تھے۔ ہر اونٹ پر نہایت خوبصورت پالکی تھی۔ ہر پالکی کے پردے گرے ہوئے تھے۔ ''وہ'' ان میں سے کسی پالکی میں تھا۔ آگے آگے ڈف اور شہنائیاں بج رہی تھیں۔ بعض لوگ وجد آفریں گونج میں کچھ گنگناتے آرہے تھے اونٹوں کی گردنوں سے لٹکتی ہوئی بڑی بڑی گھنٹیوں کا ترنم اسی موسیقی کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ ہجوم میں کوئی شورشرابہ نہیں تھا۔ ہر کسی پر تقدس کا رعب طاری تھا۔ یہ مریدوں اور عقیدت مندی کا جلوس تھا جو معلوم نہیں کہاں کہاں سے اس کے ساتھ چلے آرہے تھے۔ ایسی فضا پیدا ہوگئی تھی جیسے پالکیوں والے اونٹ آسمان سے اتر رہے ہوں۔ یہ قافلہ سرسبز جگہ چلا گیا۔ وہاں ٹیلے زیادہ تھے۔ ایک جگہ بہت سے خیمے نصب کردئیے گئے تھے۔ ان میں ایک خیمہ خاصا بڑا تھا۔ تمام لوگوں کو دور ہٹا دیا گیا پھر کوئی نہ دیکھ سکا کہ پالکیوں میں سے کون کون نکلا اور کہاں غائب ہوگیا۔ عقیدت مندوں کا ہجوم دور ہٹ کر بیٹھ گیا۔ سعدیہ کے گائوں کے لوگ ان سے اس مقدس انسان کی باتیں سننے لگے۔ انسانی فطرت کی یہ خاصیت ہے کہ انسان جس قدر گنوار اور پسماندہ ہوتا ہے وہ اتنا ہی سنسنی پسند ہوتا ہے۔ وہ باتوں میں سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی کیفیت وہاں پیدا ہوگئی تھی۔
امام بھی اس ہجوم کو دیکھ رہا تھا اور محمود بھی۔ وہ ابھی کوئی رائے قائم نہیں کرسکتے تھے۔ انہیں قاہرہ سے یہ ہدایت ملی تھی کہ سرحدی علاقے میں کوئی نیا عقیدہ پھیلایا جارہا ہے۔ اس کے متعلق تفصیلات معلوم کرکے بتائو کہ یہ کیا ہے اور اس کی پشت پناہی میں کون لوگ ہیں۔ قاہرہ کو ابھی کوئی تفصیلی اطلاع نہیں ملی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ جن علاقوں میں پراسرار آدمی جاچکا تھا وہاں کے جاسوس بھی اس کے معجزوں سے مرعوب ہوگئے تھے۔ وہ اس کے خلاف کوئی بات منہ سے نکالنے سے ڈرتے تھے۔ سرحدی دستوں نے بھی ایسا ہی اثر قبول کرلیا تھا۔ اب اس امام کی باری تھی۔ اسے دیکھنا تھا کہ یہ سب کوئی ڈھونگ ہے، شعبدہ بازی ہے یا کیا ہے۔ اس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ لوگ اس کی صرف باتیں سن سن کر اتنے متاثر اور مرعوب ہوگئے تھے کہ انہوں نے مسجد میں جانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ اس کی جھلک دیکھنے کو اس جگہ کے گرد بیٹھے تھے جہاں وہ اونٹ سے اتر کر کسی خیمے میں غائب ہوگیا تھا۔
امام اور محمود وہاں کھڑے تھے۔ سعدیہ کا باپ ان کے پاس آن رکا۔ اس نے پریشانی کے عالم میں بتایا کہ سعدیہ رات سے غائب ہے۔ لڑکیوں نے اسے بتایا تھا کہ انہیں چند آدمیوں نے سامنے سے آکر ڈرایا اور وہاں سے بھگا دیا تھا۔ ایک لڑکی نے بتایا کہ اس نے وہاں سے پیچھے دو آدمی دیکھے تھے۔ اس سے آگے کسی کو کچھ علم نہ تھا۔ باپ سعدیہ کی تلاش میں چل پڑا۔ محمود بھی اس کے ساتھ ہولیا۔ وہاں اسے سعدیہ کہاں مل سکتی تھی مگر وہ باپ تھا۔ بے چینی سے ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگا۔ محمود اس کے ساتھ رہا۔ انہیں ایک اجنبی نے روک لیا اور پوچھا… ''کیا تم لوگ کسی کو ڈھونڈ رہے ہو؟''… سعدیہ کے باپ نے اسے بتایا کہ گزشتہ رات اس کی لڑکی لاپتہ ہوگئی ہے۔
         ''مجھے ابھی ابھی کسی نے بتایا ہے کہ تم اس لڑکی کے باپ ہو''… اجنبی نے سعدیہ کا حلیہ بتا کر کہا… ''اگر تم اس لڑکی کو ڈھونڈ رہے ہو تو وہ تمہیں یہاں نہیں ملے گی۔ اب تک وہ مصر کی سرحد سے باہر اور بہت دور جاچکی ہوگی۔ گزشتہ شام میں نے ایک گھوڑا دیکھا تھا۔ ایک نوجوان اور بڑی خوبصورت لڑکی دوسری لڑکیوں سے ہٹ کر گھوڑے کے پاس گئی۔ سوار گھوڑے کے قریب کھڑا تھا۔ لڑکی نے اس کے ساتھ کچھ باتیں کیں، سوار گھوڑے پر سوار ہوکر چند قدم پرے چلا گیا۔ لڑکی ادھر ادھر دیکھتی اس کے پیچھے گئی۔ آگے جاکر وہ خود ہی سوار کے آگے گھوڑے پر بیٹھ گئی۔ سوار گھوڑا دوڑا لے گیا۔ میں دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکی کون ہوسکتی ہے جو ایک سوار کے ساتھ اپنی مرضی سے چلی گئی ہے۔ آج کسی نے بتایا کہ وہ تمہاری بیٹی تھی۔ اسے اب ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرو''۔
وہ آدمی چلا گیا۔ سعدیہ کے باپ کے آنسو نکل آئے۔ محمود کا ردعمل کچھ اور تھا۔ وہ جاسوس تھا۔ اس نے یہ سوچا کہ یہ آدمی سفید جھوٹ بول گیا ہے۔ اس کی اطلاع اور تمام تر بیان جھوٹ تھا۔ کوئی اسے کیسے بتا سکتا تھا کہ اس شخص کی بیٹی ایک سوار کے ساتھ بھاگ گئی ہے، جب اسے دیکھنے والا یہ اکیلا شخص تھا۔ جاسوس کو یہ ٹریننگ خاص طور پر دی جاتی تھی کہ کسی کی بات پر فوراً اعتبار نہ کرو اور ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھو۔ محمود نے اس اجنبی کا پیچھا کیا۔ وہ ہجوم میں سے ہوتا ہوا ٹیلوں کے پیچھے چلا گیا اور خیموں میں کہیں غائب ہوگیا۔ محمود کو یقین ہوگیا کہ سعدیہ انہی خیموں میں ہے اور اس کے اغوا میں اس آدمی کا ہاتھ ہے۔ یہ سعدیہ کے خریداروں میں سے ہوسکتا ہے جنہوں نے سودا نہ ہونے پرسعدیہ کے باپ کو لڑکی کے اغوا کی دھمکی دی تھی۔ سعدیہ کے باپ نے اسے نہیں پہچانا تھا۔ یہ اجنبی سعدیہ کے باپ کو یہ جھوٹا بیان دے کر گمراہ کرنے آیا تھا تاکہ باپ اپنی بیٹی کو یہاں تلاش نہ کرے۔
محمود بن احمد کے دل میں سعدیہ کی اتنی شدید محبت تھی کہ اس نے سعدیہ کو وہاں سے نکالنے کا تہیہ کرلیا۔ اس نے امام کو جا کر یہ ساری بات سنائی۔ امام سراغ رسانی کے شعبے کا ذہین حاکم تھا۔ اس نے بھی یہی رائے دی کہ اس غریب باپ کو دھوکا دیا جارہا ہے کہ اس کی بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ محمود نے امام کے ان دونوں جاسوسوں سے جو گائوں میں موجود رہتے تھے، ذکر کیا اور کہا کہ وہ سعدیہ کو وہاں سے نکالے گا اور اسے ان کی مدد کی ضرورت ہے مگر یہ کام آسان نہیں تھا۔ ٹیلوں کے اندر اب کوئی نہیں جا سکتا تھا۔
٭      ٭       ٭
نورالدین زنگی نے کرک کے محاصرے میں اپنی فوج لگا دی تھی اور قلعہ توڑنے کے طریقے سوچ رہا تھا۔ اس نے پہلے روز ہی اپنے کمانڈروں سے کہہ دیا تھا کہ جو قلعہ صلاح الدین ایوبی سر نہیں کرسکا وہ تم بھی آسانی سے سر نہیں کرسکو گے۔ صلاح الدین ایوبی تو ناممکن کو ممکن کردکھانے والا آدمی ہے۔ سلطان ایوبی نے اسے تفصیل سے بتا دیا تھا کہ یہاں کون کون سے طریقے آزما چکا ہے۔ یہ بھی بتایا تھا کہ قلعے کے اندر کیا کیا ہے۔ رسد اور جانور کہاں ہیں اور آبادی کس طرف ہے۔ اسے یہ معلومات جاسوس نے دی تھیں۔ وہ اندر آگ پھینکنا چاہتا تھا مگر اس کی منجنیقیں چھوٹی تھیں۔ اس کے علاوہ صلیبیوں کے پاس بڑی کمانیں تھیں جن کے تیر بہت دور تک چلے جاتے تھے۔ یہ تیر منجنیقوں کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ اسی لیے قلعے کے دروازے پر بھی آگ نہیں پھینکی جاسکتی تھی۔ مجاہدین کہیں سے قلعے کی دیوار تھوڑنے کی کوشش کرتے تھے تو اوپر سے صلیبی جلتی ہوئی لکڑیوں اور دہکتے کوئلوں کے ڈرم انڈیل دیتے تھے۔
نورالدین زنگی نے اپنے نائبین کا اجلاس بلا کر انہیں کہا… ''صلاح الدین ایوبی نے مجھے کہا تھا کہ وہ بڑی منجیقیں بنوا کر اندر آگ پھینک سکتا ہے لیکن اندر مسلمانوں کی آبادی بھی ہے اگر ایک بھی مسلمان جل گیا تو یہ ساری عمر کا پچھتاوا ہوگا۔ میں اب ایوبی کی سوچ کے خلاف فیصلہ کررہا ہوں۔ میں نے اتنی بڑی منجنیقیں بنانے کا انتظام کرلیا ہے جن کی پھینکی ہوئی آگ اور وزنی پتھر دور تک جاسکیں گے۔ آپ کو یہ حقیقت قبول کرنی پڑے گی کہ آپ کی پھینکی ہوئی آگ سے اندر چند ایک مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ میرے دوستو! اگر تم اندر کے مسلمانوں کی حالت جانتے ہوتو کہو گے کہ وہ مر ہی جائیں تو اچھا ہے۔ وہاں کسی مسلمان کی عزت محفوظ نہیں۔ مسلمان بچیاں صلیبیوں کے پاس ہیں اور مرد کھلے قید خانے میں بڑے بیگار کررہے ہیں۔ وہ تو دعائیں مانگ رہے ہوں گے کہ خدا انہیں موت دے دے۔ آپ کا محاصرہ جس قدر لمبا ہوتا جائے گا اندر کے مسلمانوں کی اذیت بھی اسی قدر زیادہ اور اذیتوں کی مدت لمبی ہوتی جائے گی اور پھر یہ ضروری تو نہیں کہ ہر ایک مسلمان جل مرے گا۔ اگر چند ایک مر گئے تو ہمیں یہ قربانی دینی ہی پڑے گی۔ آپ بھی تو مرنے کے لیے آئے ہیں۔ اسلام کو زندہ رکھنا ہے تو ہم میں سے کئی ایک کو جانیں قربانی کرنی ہوں گی۔ میں آپ کو یہ اطلاع اس لیے دے رہا ہوں کہ آپ میں سے مجھ پر کوئی یہ الزام عائد نہ کرے کہ میں نے ایک قلعہ سر کرنے کے لیے بے گناہ مسلمانوں کو جلا دیا ہے''۔
         ''ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں سوچے گا''… ایک سالار نے کہا… ''ہم یہاں اپنی بادشاہی قائم کرنے نہیں آئے۔ فلسطین مسلمانوں کا ہے۔ ہم یہاں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بادشاہی بحال کرنے آئے ہیں۔ قبلہ اول ہمارا ہے، صلیبیوں اور یہودیوں کا نہیں''۔
         ''ہم یہودیوں کے اس دعوے کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے کہ فلسطین یہودیوں کا وطن ہے''۔ ایک اور نے کہا… ''ہم سب جل مرنے کے لیے تیار ہیں، ہم اپنے بچوں کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں''۔
نورالدین زنگی کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ آگئی جس میں مسرت نہیں تھی اس نے کہا… ''تم جانتے ہی ہوگے کہ فلسطین کو اپنا وطن بنانے کے لیے یہودی کس میدان میں لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی دولت اور اپنی بیٹیوں کی عصمت صلیبیو ں کے حوالے کردی ہے اور انہیں ہمارے خلاف لڑا رہے ہیں۔ اپنی دولت اور اپنی لڑکیوں کے ہی ذریعے ہماری صفوں میں غدار پیدا کررہے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا نشانہ صلاح الدین ایوبی اور مصر ہے۔ مصر کے بڑے بڑے شہروں میں فاحشہ عورتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ یہ سب یہودی عورتیں ہیں، افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مسلمان امراء اور دولت مند تاجر یہودیوں کے جال میں پھنس گئے ہیں۔ ان میں نفاق اور تفرقہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ اب کفار انہیں آپس میں لڑائیں گے۔ اگر ہم ہوش میں نہ آئے تو یہودی ایک نہ ایک دن فلسطین کو اپنا وطن بنا کر قبلہ اول کو اپنی عبادت گاہ بنا لیں گے اور مسلمان مملکتیں آپس میں لڑتی رہیں گی۔ انہیں محسوس تک نہ ہوگا کہ ان کی آپس کی چپقلش کے پیچھے یہودیوں اور صلیبیوں کا ہاتھ ہے۔ یہ ہوگا دولت، عورت اور شراب کا کرشمہ جو شروع ہوچکا ہے۔ اگر ہمیں آنے والی نسلوں کو باوقار زندگی دینی ہے تو ہمیں آج کی نسل کے کچھ بچے قربان کرنے پڑیں گے۔ میں نیا چاند نکلنے تک کرک لے لینا چاہتا ہوں۔ خواہ مجھے اس کے کھنڈر ملیں اور اندر مسلمانوں کی جلی ہوئی لاشیں ملیں۔ ہم انتظار نہیں کرسکتے۔ ہمیں صلیبیوں اور یہودیوں کو بحیرۂ روم میں ڈبونا ہے۔ یہ کام ہمیں اپنی زندگی میں کرنا ہے، مجھے نظر آرہا ہے کہ ہمارے بعد اسلام کا پرچم غداروں اور صلیب نوازوں کے ہاتھوں میں آجائے گا''۔
نورالدین زنگی نے کاریگروں کی بھی ایک فوج ساتھ رکھی ہوئی تھی۔ اس نے متعلقہ کاریگروں کو بتا دیا تھا کہ کھجوروں کے بہت لمبے لمبے درخت کاٹ کر منجنیقیں تیار کریں۔ اس نے کاریگروں کے مشوروں سے کچھ اور قسم کے بھی درخت کٹوالیے تھے اور حکم دیا کہ ان کے تنے اور ٹہنیاں خشک ہونے سے پہلے کام میں لائے جائیں تاکہ ان میں لوہے والی سختی پیدا نہ ہوجائے۔ کاریگر دن رات مصروف رہتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی زنگی نے وزنی پتھروں کے ڈھیر لگوا دئیے تھے۔ اس کے پاس صلاح الدین ایوبی کا چھوڑا ہوا آتش گیر مادے کا ذخیرہ بھی تھا۔ بہت سا سیال مادہ زنگی اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ اس نے آگ کے گولے تیار کرلیے تھے۔ اسی دوران مصر سے سلطان ایوبی کی بھیجی ہوئی فوج بھی پہنچ گئی۔ نورالدین زنگی کو اس فوج کے متعلق بتایا گیا تھا کہ بغاوت کے لیے تیار رہے لیکن زنگی نے جب اس کا معائنہ کیا تو اسے بغاوت کا شائبہ تک نظر نہ آیا۔ زنگی سلطان ایوبی کی طرح دانشمند اور دوراندیش انسان تھا۔ اس نے اس فوج کو چند ایک پرجوش الفاظ سے اس سے زیادہ بھڑکا دیا جتنا سلطان ایوبی نے بھڑکا کر بھیجا تھا۔
ایک روز سورج غروب ہوچکا تھا۔ صلبی حکمران اور اعلیٰ فوجی کمانڈر قلعے کے اندر ایک کانفرنس بیٹھے تھے۔ ان کی باتوں سے معلوم ہوتا تھا کہ انہیں محاصرے کے متعلق کوئی پریشانی نہیں۔ انہیں یہ بھی پتا چل چکا تھا کہ سلطان ایوبی مصر جا چکا ہے اور نورالدین زنگی آگیا ہے۔ کانفرنس والے دن کی صبح انہیں یہ اطلاع ملی کہ مصر سے تازہ دم فوج آگئی ہے۔ اس صورتحال پر غور کرنے کے لیے یہ سب اکٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے ابھی بات شروع کی ہی تھی کہ دھماکے کی طرح آواز سنائی دی اور ملبہ گرنے کا شور بھی اٹھا۔ صلیبی کمانڈر اور حکمران دوڑتے باہر نکلے۔ ساتھ والے کمرے کی منڈیر پھٹ گئی تھی۔ اور وہاں ایک وزنی پتھر پڑا تھا۔ دیوار میں شگاف نہیں ہواتھا۔ زناٹہ سا سنائی دیا جو قریب آکر دھماکہ بن کر خاموش ہوگیا۔ اسی جگہ کے قریب ایک اور پتھر گرا۔ صلیبی وہاں سے بھاگے وہ سمجھ گئے کہ مسلمان منجنیقوں سے پتھر پھینک رہے ہیں۔ وہ قلعے کی دیوار پر گئے مگر شام اندھیری ہوچکی تھی۔ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔
یہ نورالدین زنگی کی تیار کرائی ہوئی ایک منجنیق تھی جسے تجرباتی طور پر استعمال کیا جارہا تھا۔ یہ ضرورت کے عین مطابق دور مار تھی مگر اسے چلانا بہت مشکل تھا۔ ایک لمبے ٹہن کے وسط میں مضبوط رسے باندھے گئے تھے جنہیں گھوڑوں کے زور سے کھینچ کر خم دیا جاتا اور خم کی جگہ پتھر رکھا جاتا تھا۔ انتہائی خم میں لے جا کر رسہ تلواروں سے کاٹ دیا جاتا تھا۔ اس طریقے سے نقصان یہ ہوتا تھا کہ رسہ کٹ جاتا اور اسے گانٹھ دے کر دوبارہ استعمال کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ دوسری تکلیف یہ ہوتی تھی کہ جب آٹھ گھوڑوں کو کھچا تنا ہوا رسہ کٹتا تو گھوڑے دور آگے کو اس طرح چلے جاتے تھے جیسے کسی بے پناہ قوت نے دھکا دیا ہو۔ دو تین بار یوں ہوا کہ دو گھوڑے آگے جاکر گھٹنوں کے بل گر پڑے اور پچھلے گھوڑے ان کے اوپر گرے۔ دو سوار ایسے زخمی ہوئے کہ محاذ کے قابل نہ رہے۔ زنگی نے پھر بھی آدھی رات کے بعد تک یہ عمل جاری رکھا جس سے یہ نقصان ہوا کہ صلیبیوں کے ہیڈکوارٹر کی دو چھتیں گر پڑیں اور چند ایک کمروں کی دیواروں میں لمبے چوڑے شگاف پڑ گئے۔ یہ نقصان کچھ زیادہ تو نہیں تھا لیکن صلیبیوں کی حوصلہ شکنی کی صورت پیدا ہوگئی تھی۔ چند ایک دیواروں کے شگافوں نے ہیڈکوارٹر کے محافظوں اور دیگر عملے کو وہاں سے بھگا دیا تھا اور صبح تک اس دور کی پہلی ''بمباری'' کی دہشت ناک خبر سارے شہر میں پھیل گئی تھی۔
مگر آدھی رات کے بعد نورالدین زنگی کی پہلی دور مار منجنیق بے کار ہوگئی تھی۔ پتھر پھینکنے والا حصہ جسے خم دیا جاتا تھا زیادہ استعمال سے یا زیادہ زور دینے سے ٹوٹ گیا۔ آخری پتھر قلعے کے اندر جانے کے بجائے دیوار کے باہر لگا۔ زنگی نے اگلا پتھر پھینکنے سے روک دیا۔ تاہم یہ تجربہ ناکام نہیں تھا۔ کاریگروں میں دو خاص طور پر دانشمند تھے۔ انہوں نے بنیادی اصول دیکھ لیا تھا۔ اس اصول پر انہیں کامیاب دور مار منجنیق تیار کرنی تھی۔ انہوں نے اس پر غور کرنا شروع کردیا کہ رسے کاٹے بغیر پتھر نکلے اور اگر رسے کاٹنے ہی پڑیں تو گھوڑے اس سے پہلے تنے ہوئے رسوں سے آزاد کردئیے جایا کریں۔ نورالدین زنگی نے انہیں کہا کہ وہ جو کچھ بھی کریں، وقت ضائع کیے بغیر کریں۔ دن رات سوچیں اور کام کریں۔ انہوں نے کام شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ہی زنگی نے تیروکمان بنانے والے کاریگروں سے کہا کہ وہ دور مار کمانیں تیار کریں۔ اس نے اپنے کمانڈروں سے کہا کہ اپنے دستوں میں سے غیرمعمولی طور پر طاقتور سپاہی الگ کرلیں جو بڑی کمانوں سے تیر پھینک سکیں۔
٭      ٭       ٭
سعدیہ کے گائوں کے باہر جہاں وہ بکریاں چراتی اور محمود بن احمد سے ملا کرتی تھی، ایک ایسی دنیا آباد ہوگئی جس کی رونق وہاں کے لوگوں کے لیے روئے زمین کی نہیں، آسمان سے اتری ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ بہت دیر گزری سورج غروب ہوچکا تھا۔ رات تاریک تھی، لوگوں کو ٹیلوں کے اندر جانے کی اجازت دے دی گئی تھی لیکن ا نہیں ایک طرف بٹھا دیا گیا تھا۔ کسی کو کسی ٹیلے کے اوپر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ لوگوں کو جہاں بٹھایا گیا وہاں سے کسی کو اٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ انہیں کوئی حکم نہیں دیا جارہا تھا بلکہ ''اس'' سے ڈرایا جارہا تھا۔ کہتے تھے کہ وہ کسی کی ذرا سی بھی حرمت سے ناراض ہوگیا تو سب پر مصیبت نازل ہوگی۔ لوگ دم بخود بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ ان سے کچھ دور بڑی خوبصورت دریاں اور ان پر دو قالین بچھے ہوئے تھے۔ پیچھے لمبے لمبے پردے لٹکے ہوئے تھے جن پر ستارے سے چمکتے تھے۔ یہ چمک ان مشعلوں اور قندیلوں سے پیدا ہوتی تھی جو ایک خاص ترکیب سے رکھی جل رہی تھیں۔ پردوں کے پیچھے عمودی ٹیلا تھا جس کے دامن میں اجنبی لوگ غار کھود رہے تھے۔ اس ٹیلے کے پیچھے کچھ جگہ ہموار تھی، وہاں رنگارنگ خیمے نصب تھے۔
تماشائیوں پر ایسا رعب طاری تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی میں بھی بات نہیں کرتے تھے۔ یہ رات اس سے اگلی تھی جس رات سعدیہ اغوا ہوئی تھی۔ سامنے لٹکے ہوئے پردے آہستہ آہستہ ہلنے لگے تھے۔ ستارے آسمان کے ستاروں کو طرح ٹمٹمانے لگے اور ایسے سازوں کا ترنم سنائی دینے لگا جن کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا۔ یہ ایک گونج سی تھی جس میں طلسماتی سا تاثر تھا۔ صحرا کی خاموش رات میں یہ تاثر روحوں تک اترتا محسوس ہوتا تھا۔ یہ احساس بھی ہوتا تھا جیسے اس ترنم کی لہریں لوگوں کے اوپر سے گزر رہی ہوں، جنہیں وہ دیکھ سکیں گے، چھو بھی سکیں گے، یہی وجہ تھی کہ لوگ باربار اوپر ادھر ادھر دیکھتے تھے لیکن انہیں نظر کچھ بھی نہیں آتا تھا۔ سازوں کے ترنم میں ایک اور گونج شامل ہوگئی۔ صاف پتا چلتا تھا کہ بہت سے آدمی مل کر ایک ہی نغمہ گنگنا رہے ہیں۔ اس میں لڑکیوں کی آواز بھی تھی۔ اس کے ساتھ جب ٹیلے کے سامنے اتنے لمبے لمبے پردے ہلتے تھے تو یہ لگتا تھا جیسے رات فضا اور ماحول پر وجد طاری ہوگیا ہو۔
لوگ پوری طرح مسحور ہوگئے تو کہیں سے گونج دار آواز اٹھی… ''وہ آگیا ہے، جسے خدا نے آسمان سے اتارا ہے۔ اپنے دل اور دماغ خیالوں سے خالی کردو۔ وہ تمہارے دلوں اور دماغوں میں خدا کی سچی باتیں اتار دے گا''۔
پردوں میں جنبش ہوئی۔ پردوں میں سے ایک انسان نمودار ہوا۔ وہ تھا تو انسان ہی لیکن اس مترنم اورمرعوب ماحول میں ان روشنیوں میں وہ کسی بلندوبالا جہان کی مخلوق لگتا تھا۔ اس کے سر کے بال بھورے ریشمی اور لمبے تھے جو اس کے شانوں پر پڑتے تھے۔ بالوں میں چمک تھی۔ چہرہ بھرا بھرا اور سرخ وسپید، داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی تھی۔ یہ بھی بھورے رنگ کی تھی۔ جسم گٹھا ہوا اور اس پر سبز چغہ تھا۔ چغے پر پردوں کی طرح ستارے تھے جو روشنیوں میں چمکتے تھے۔ ایسی ہی چمک اس کی آنکھوں میں تھی۔ اس کے سراپا میں ایسا تاثر تھا جس نے لوگوں کو مبہوت کردیا۔ اس کے ساتھ سازوں کا گونج دار ترنم اور بہت سی آوازوں کے گنگنانے کی کونج مگر جس نے لوگوں کو دم بخود کیا تھا وہ ان کی کہانیوں کا اثر تھا جو وہ کبھی سے سن رہے تھے۔ ان معجزاتی کہانیوں کی سنسنی خیزی نے ان کی سوچوں پر غلبہ پا رکھا تھا۔ اس رات اسے اپنے سامنے دیکھ کر انہوں نے پہلے تو سرجھکائے پھر ہاتھ اس طرح پیٹ پر باندھ لیے جس طرح نماز میں باندھے جاتے ہیں۔
اس نے پردوں کے سامنے کھڑے ہوکر بازو اوپر کو پھیلائے اور کہا… ''تم پر اس خدا کی رحمت نازل ہو جس نے تمہیں دنیا میں اتارا جس نے تمہیں آنکھیں دیں تاکہ تم دیکھ سکو جس نے تمہیں کان دئیے تاکہ تم سن سکو۔ جس نے تمہیں دماغ دیا کہ تم سوچ سکو جس نے تمہیں زبان دی تاکہ تم بول سکو، تم ہی جیسے انسانوں نے جن کی آنکھیں تمہاری طرح ہیں، زبانیں تمہاری طرح ہیں، تمہیں غلام بنا کر خدا کی نعمتوں سے اور دنیا کی آسائشوں سے محروم کردیا ہے۔ اس تمہارا یہ حال ہے کہ تمہاری آنکھیں دیکھ سکتی ہیں مگر تمہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ تمہارے کان سن سکتے ہیں مگر یہ سچ بات نہیں سنتے۔ تمہارا دماغ سوچ سکتا ہے مگر اس میں وہم اور جھوٹے قصے بھرے ہوئے ہیں۔ تمہاری زبانیں بول سکتی ہیں مگر ان کے خلاف ایک کلمہ نہیں کہہ سکتیں جنہوں نے تمہیں غلام بنا لیا ہے۔ انہوں نے تمہیں تمہارے گھوڑے اور اونٹوں کو اور تمہارے جوان بیٹوں کو خرید لیا ہے۔ وہ تمہارے بیٹوں کو اس طرح لڑاتے ہیں جس طرح کتوں کو لڑایا جاتا ہے۔ وہ تمہارے گھوڑوں اور اونٹوں کو تیروں اور برچھیوں سے چھلنی کروا کر مرواتے ہیں۔ تمہارے بیٹوں کو مروا کر ریگستانوں میں پھینک دیتے ہیں جہاں انہیں مردے کھانے والے پرندے اور درندے کھا جاتے ہیں… میں وہ آنکھ ہوں جو آنے والے وقت کو دیکھ سکتی ہے اور دیکھ سکتی ہے کہ انسانوں کے دلوں میں کیا ہے۔ میں وہ کان ہوں جو خدا کی آواز سن سکتا ہے، میں وہ دماغ ہوں جو بنی نوع انسان کی بھلائی کی سوچتا ہے اور میں وہ زبان ہوں جو خدا کا پیغام سناتی ہے۔ میں خدا کی زبان ہوں''۔
         ''تم آزمالو''… اس نے کہا… ''میرے سینے میں تیر مارو''
اس کی آواز میں اور انداز میں جادو کا اثر تھا۔ اس نے پھر کہا… ''یہاں کوئی تیر انداز ہے تو میرے سینے پر تیر چلائے''… ہجوم پر سناٹا طاری ہوچکا تھا۔ اس نے غصیلی اور بلند آواز سے کہا… ''میں حکم دیتا ہوں کہ یہاں جس کسی کے پاس تیروکمان ہے وہ سامنے آجائے''۔
چار تیرانداز جو سعدیہ کے گائوں کے رہنے والے نہیں تھے، آہستہ آہستہ آگے آئے۔ وہ ڈرے سہمے ہوئے تھے… اس نے کہا… ''تیس قدم گن کر چاروں میرے سامنے کھڑے ہوجائو''… انہوں نے تیس قدم گنے اور اس کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوگئے۔
         ''کمانوں میں تیر ڈالو''۔
چاروں نے ترکشوں میں سے ایک ایک تیر نکال کر کمانوں میں ڈال لیا۔
         ''میرے دل کا نشانہ لے لو''۔
انہوں نے کمانیں سیدھی کرکے نشانہ لے لیا۔
         ''یہ سوچے بغیر کہ میں مرجائوں گا، پوری طاقت سے کمانیں کھینچو اور تیر چلا دو''۔
انہوں نے کمانیں جھکالیں، انہوں نے یہی سوچا تھا کہ وہ مرجائے گا۔
         ''میرے دل کا نشانہ لے کر تیر چلائو''… اس نے گرج کرکہا… ''ورنہ جہاں کھڑے ہو وہیں شعلے بن کر بھسم ہوجائو گے''۔
تیر اندازوں نے اپنی موت کے ڈر سے فوراً کمانیں اوپر کرلیں اور اس کے دل کا نشانہ لیا۔ دیکھنے والا ہجوم اس طرح خاموش تھا جیسے وہاں کوئی بھی زندہ نہیں تھا۔ سازوں کا ترنم اس سکوت پر کچھ زیادہ ہی سحر آگیں اور پرسوز ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ ایسے انسانوں کی مترنم گونج پھر ابھری جو نظر نہیں آتے تھے… اس سحر آگیں موسیقی میں چار کمانوں کی ''پنگ، پنگ'' کی آوازیں بڑی صاف سنائی دیں۔ چار تیر اس مقدس انسان کے دل کے مقام میں پیوست ہوگئے۔ وہ کھڑا رہا۔ اس کے بازو اوپر اور کچھ دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
         ''چار خنجروں والے آگے آجائیں''… اس نے کہا… ''تیر انداز چلے جائیں''
تیر انداز حیران وپریشان چلے گئے اور چار آدمی ایک طرف سے سامنے آئے۔ اس حکم پر کہ خنجر ہاتھ میں لے لو اور مجھ سے پندرہ قدم گن کر میرے سامنے کھڑے ہوجائو۔ وہ اس سے پندرہ قدم دور جاکر کھڑے ہوئے اس نے پوچھا… ''تم نشانے پر خنجر پھینکنا جانتے ہو؟''… چاروں نے جواب دیا کہ وہ جانتے ہیں۔ اس نے کہا… ''چاروں اکٹھے میرے سینے میں خنجر مارو''۔
چاروں نے پوری طاقت سے خنجر اس پر پھینکے۔ چاروں خنجر اس کے سینے میں لگے اور وہیں رہے۔ خنجروں کی نوکیں اس کے سینے میں اتری ہوئی تھیں اور وہ کھڑا مسکرا رہا تھا۔ ہجوم سے آوازیں سنائی دینے لگیں…''آفریں… اس کے قبضے میں موت کے فرشتے ہیں''۔
         ''کیا اسے جواب مل گیا ہے جس نے پوچھا کہ میں لافانی ہوں؟''… اس نے پوچھا۔
ایک آدمی جو صحرائی لباس میں تھا، دوڑتا ہوا گیا اور اس کے قدموں میں سجدہ ریز ہوگیا۔ ''اس'' نے جھک کر اسے اٹھایا اور کہا… ''جا تجھ پر خدا کی رحمت ہو''۔
         ''تو پھر تو مردے میں بھی جان ڈال سکتا ہے'' … ایک بوڑھے دیہاتی نے آگے آکر کہا… ''خدا نے مجھے ایک ہی بیٹا دیا تھا وہ جوانی میں مر گیا ہے۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ تو مرے ہوئوں کو زندہ کردیتا ہے۔ میں اپنے بیٹے کی لاش اٹھا کر بہت دور سے آیا ہوں۔ میرے بڑھاپے پر رحم کر اسے زندہ کردے''… بوڑھا دھاڑیں مار کر رونے لگا۔
چار آدمی کفن میں لپٹی ہوئی ایک لاش آگے لائے۔ لاش درخت کی ٹیڑھی ٹہنیوں کے بنے ہوئے سٹریچر پر پڑی تھی۔ انہوں نے لاش اس کے آگے رکھ دی۔ اس نے کہا… ''ایک مشعل لو، لاش کو اٹھائو اور تمام لوگوں کو دکھائو۔ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ پہلے ہی زندہ تھا''۔
لاش سب کے سامنے سے گزاری گئی۔ اس کے منہ سے کفن ہٹا دیا گیا تھا۔ ایک آدمی ہاتھ میں مشعل لیے ساتھ ساتھ تھا۔ سب نے دیکھا کہ اس کا چہرہ لاش کی طرح سفید تھا۔ آنکھیں آدھی کھلی ہوئیں اور منہ بھی آدھا کھلا ہوا تھا۔ سب نے لاش دیکھ لی تو اسے اس مقدس انسان کے سامنے رکھ دیا گیا۔ موسیقی کی لے بدل گئی اور پہلے سے زیادہ پرسوز ہوگئی۔ ''اس''نے بازو آسمان کی طرف کیے اور بلند آواز سے پکارا… ''زندگی اور موت تیرے ہاتھ میں ہے، میں تیرے بیٹے کا بیٹا ہوں تو نے اپنے بیٹے کو سولی سے اتارا اور مجھے صلیب کا تقدس عطا کیا تھا اگر تیرا بیٹا اور اس کی صلیب سچی ہے تو مجھے قوت دے کہ میں اس بدنصیب بوڑھے کے بیٹے کو زندگی دے سکوں''… اس نے جھک کر لاش کے کفن پر ہاتھ پھیرا، منہ سے کچھ بڑبڑایا، پھر لاش کے اوپر ہوا میں اس طرح دونوں ہاتھ پھیرے کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ کفن پھڑپھڑانے لگا۔ مقدس انسان ہوا میں اس پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ کفن اور زور سے پھڑپھڑایا۔ بعض لوگ اس قدر ڈر گئے کہ ایک دوسرے کے قریب ہوگئے۔ عورتوں میں سے کسی عورت کی چیخ بھی سنائی دی۔ یہ منظر اس لیے بھی بھیانک بن گیا تھا کہ مردے کو زندہ کرنے والے کے سینے میں چار تیر اور چار خنجر اترے ہوئے تھے۔
کفن میں کچھ اور ہی حرکت ہوئی۔ لاش بیٹھ گئی۔ اس نے ہاتھ کفن سے باہر نکالے۔ ہاتھوں سے کفن میں سے چہرہ ننگا کیا اور آنکھیں مل کر کہا… ''کیا میں عالم پاک میں پہنچ گیا ہوں؟''
         ''نہیں!'' اسے زندہ کرنے والے نے سہارا دے کر اٹھایا اور کہا… ''تم اسی دنیا میں ہو جہاں تم پیدا ہوئے تھے جائو اپنے باپ کے سینے سے لگ جائو''۔
باپ نے دوڑ کر اپنے بیٹے کو بازوئوں میں لے لیا۔ بیتابی سے اس کا منہ چوم چوم کر اس نے زندہ کرنے والے کے آگے سجدہ کیا۔ لوگ جو بیٹھے ہوئے تھے اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ آپس میں کھسر پھسر کررہے تھے۔ ان کے سامنے کفن میں لپٹی ہوئی لاش اپنے پائوں پر چل رہی تھی۔ مردہ زندہ ہوگیا تھا۔ باپ نے اسے سارے ہجوم کے سامنے سے گزارا تاکہ سب دیکھ لیں کہ وہ زندہ ہوگیا ہے۔
         ''لیکن میں اور کسی مردہ کو زندہ نہیں کروں گا''۔ اس نے کہا… ''زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، تم لوگوں کو صرف یہ دکھانے کے لیے کہ میں خدا کا ایلچی بن کر آیا ہوں ابھی ابھی خدا سے اجازت لی ہے کہ تھوڑی سی دیر کے لیے مجھے طاقت دے دے کہ میں مرے ہوئے انسان میں جان ڈال سکوں۔ خدا نے مجھے طاقت دے دی''۔
         ''کیا تم جنگ میں مرے ہوئے سپاہی کو زندہ کرسکتے ہو؟''… مجمع میں سے کسی نے پوچھا۔
         ''نہیں''۔ اس نے جواب دیا… ''جنگ میں مرنے والوں سے خدا اتنا زیادہ ناراض ہوتا ہے کہ انہیں دوسری زندگی نہیں دیتا۔ اگلے جہان وہ انہیں دوزخ کی آگ میں پھینک دیتا ہے۔ ہر مرد کسی کو قتل کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ جس طرح اسے ایک باپ نے پیدا کیا ہے اسی طرح وہ بھی کسی کا باپ بنے۔ اسی لیے  تمہیں کہا گیا ہے کہ چارچار بیویاں رکھو۔ مرد اور عورت کا یہی کام ہے کہ بچے پیدا کریں اور جب بچے بڑے ہوجائیں تو ان سے بچے پیدا کریں۔ یہی عبادت ہے''۔
٭      ٭       ٭
جس وقت وہ معجزے دکھا رہا تھا اس وقت دو آدمی ٹیلے کے پیچھے اس جگہ چھپے ہوئے تھے جہاں رنگ برنگ خیمے نصب تھے۔ کسی خیمے میں سے لڑکیوں کی باتیں اور ہنسی سنائی دے رہی تھی۔ یہ دو آدمی امام اور محمود بن احمد تھے۔ محمود کو یقین تھا کہ سعدیہ یہیں کہیں ہے۔ محمود میں اتنی مذہبی سوجھ بوجھ نہیں تھی۔ وہ خدا کے اس ایلچی کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے کے قابل نہیں تھا۔ امام نے کہا تھا کہ کوئی انسان مرے ہوئے کو زندہ نہیں کرسکتا۔ اس نے توجہ ہی نہیں دی تھی کہ پراسرار آدمی لوگوں کو کیا کچھ کرکے دکھا رہا ہے۔ اس نے اس سے یہ فائدہ اٹھایا تھا کہ لوگ اس کی کرامات دیکھنے میں مگن ہیں اس لیے پیچھے جا کر یہ دیکھا جائے کہ اس میں راز کیا ہے۔ اس کی توجہ صرف سعدیہ پر تھی۔ محمود صرف سعدیہ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ خیموں کی جگہ اندھیرا تھا۔ صرف تین خیموں میں روشنی تھی۔ تینوں کے پردے دونوں طرف سے بند تھے۔ وہاں پہرے کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ دوتین مرد کہیں باتیں کررہے تھے۔ یہ خطرہ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ دونوں کسی کو نظر آگئے تو وہ زندہ نہیں رہیں گے۔ ٹیلے کی دوسری طرف سے ''اس'' کی آواز سنائی دے رہی تھی اور سازوں کا ترنم بھی سنائی دے رہا تھا لیکن یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ سازندے کہاں ہیں۔
امام اور محمود نے روشنی والے ایک خیمے کے قریب جاکر لڑکیوں کی باتیں سننے کی کوشش کی۔ ان کی باتوں نے ان کا حوصلہ بڑھا دیا۔ ایک نسوانی آواز کہہ رہی تھی… ''یہاں بھی تماشہ کامیاب رہا ہے''… ایک اور لڑکی نے کہا… ''بڑی ہی جاہل قوم ہے''۔
         ''مسلمان کو تباہ کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے شعبدے دکھا کر تو ہم پرست بنا دو''… یہ ایک اور عورت کی آواز تھی۔
         ''معلوم نہیں وہ کس حال میں ہے؟''
         ''نئی چڑیا!''… ایک لڑکی نے کہا… ''تم سب کو ماننا پڑے گا کہ وہ ہم سب سے زیادہ خوبصورت ہے''۔
         ''وہ آج دن کو بھی روتی رہی تھی''۔ کسی لڑکی نے کہا۔
         ''آج رات اس کا رونا بند ہوجائے گا''… ایک لڑکی نے کہا… ''اسے خدا کے بیٹے کے لیے تیار کیا جارہا ہے''۔
لڑکیوں کا قہقہہ سنائی دیا۔ ایک نے کہا… ''خدا بھی کیا یاد کرے گا کہ ہم نے اسے کیسا بیٹا دیا ہے۔ کمال انسان ہے''۔
اس کے بعد لڑکیوں نے آپس میں فحش باتیں شروع کردیں۔ امام اور محمود سمجھ گئے کہ نئی چڑیا سعدیہ ہی ہوسکتی ہے۔ انہیں بہرحال یقین ہوگیا کہ یہ سب شعبدہ بازی ہے اور یہ دھونگ پسماندہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے رچایا جارہا ہے۔ امام نے محمود کے کان میں کہا…''ان لڑکیوں کی عریاں باتیں اور شراب کی بو بتا رہی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور یہ کیا ہورہا ہے… ہم ویسے ہی نہیں بھٹک رہے''۔
وہ دونوں بڑے خیمے کے قریب چلے گئے۔ یہ خیمہ ایک ٹیلے کے ساتھ تھا اور یہ ٹیلا تقریباً عمودی تھا۔ ٹیلے اور خیمے کے پچھلے دروازے کے درمیان ایک آدھ گز فاصلہ تھا۔ انہوں نے اس جگہ جا کر دیکھا۔ خیمے کے پردے درمیان سے رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ ایک آنکھ سے اندر جھانکنے کی جگہ تھی۔ انہوں نے جھانکا تو ان کے شکوک رفع ہوگئے۔ اندر ایک لمبی مسند تھی جس پر خوش نما مسند پوش بچھا ہوا تھا۔ فرش پر قالین بچھا تھا اور دو قندیلیں جل رہی تھیں۔ ایک طرف شراب کی صراحی اور پیالے رکھے تھے۔ اندر کی سجاوٹ اور شانوشوکت سے پتا چلتا تھا کہ اس مشتبہ قافلے کے سردار کا خیمہ ہے۔ سعدیہ کے پاس ایک عورت اور ایک مرد تھا۔ سعدیہ کو دلہن کی طرح سجایا جارہا تھا۔
         ''آج سارا دن تم روتی رہی ہو''… عورت اسے کہہ رہی تھی… ''تھوڑی دیر بعد تم ہنسو گی اور اپنے آپ کو پہچان بھی نہیں سکو گی۔ تم خوش نصیب ہو کہ اس نے جو خدا کی طرف سے زمین پر اترا ہے، تمہیں پسند کیا ہے۔ وہ صرف تمہارے لیے یہاں آیا ہے۔ اس نے تمہیں بیس روز کی مسافت جتنی دور سے غیب کی آنکھ سے دیکھا تھا۔ تمہارے گائوں میں اسے خدا لایا ہے اگر یہ نہ آتا تو تم کسی صحرائی گڈرئیے کے ساتھ بیاہ دی جاتیں یا تمہیں بردہ فروشوں کے ہاتھ بیچ دیا جاتا''۔
سعدیہ پر ان باتوں کا جادو سوار ہوتا جارہا تھا۔ وہ خاموشی سے سن رہی تھی۔ محمود جوش میں آچلا تھا۔ امام نے اسے روک لیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سعدیہ کو کس کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ٹیلے کی دوسری طرف سے کسی نے اعلان کیا… ''وہ جو خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہے اور جس کے ہاتھ میں ہم سب کی زندگی اور موت ہے اور جس کی آنکھ غیب کے بھید دیکھ سکتی ہے، تاریک رات میں آسمان پر جارہا ہے جس کے ستارے خدا کی آنکھ کی طرح روشن ہیں۔ تم میں سے کوئی آدمی اس طرف نہ دیکھے جہاں خیمے لگے ہوئے ہیں۔ ٹیلوں کے اوپر کوئی نہ جائے جس کسی نے اس طرف جانے یا دیکھنے کی کوشش کی وہ ہمیشہ کے لیے اندھا ہوجائے گا۔ کل رات وہ تم سب کی مرادیں سنے گا''۔
امام اور محمود وہیں کھڑے رہے۔ خیمے کے اندر جو مرد عورت تھے، انہوں نے سعدیہ کو ایک بار پھر نصیحت کی کہ وہ آرہا ہے اس کے سامنے کوئی بدتمیزی نہ کرنا… وہ آگیا۔ وہ سامنے کی طرف سے خیمے میں داخل ہوا۔ امام اور محمود یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ''اس'' کے سینے میں چارتیر اور چار خنجر اترے ہوئے تھے۔ سعدیہ نے تیر اور خنجر دیکھے تو اس نے خوف سے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس کی ہلکی سی چیخ سنائی دی۔ مقدس انسان مسکرایا اور بولا… ''ڈر مت لڑکی! یہ معجزہ مجھے خدا نے دیا ہے کہ میں تیروں اور خنجروں سے مر نہیں سکتا''… وہ سعدیہ کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔
         ''میں نے یہ شعبدہ ایک بار قاہرہ میں دیکھا تھا''۔ امام نے محمود کے کان میں کہا… ''تم بھی ڈر نہ جانا میں جانتا ہوں تیر اور خنجر کہاں پھنسے ہوئے ہیں''۔
         ''وہ'' اٹھا اور خیمے کا پردہ رسیوں سے باندھ دیا۔ ادھر محمود اور امام نے اپنی طرف سے خیمے کا پردہ کھول دیا۔ انہوں نے نتائج کی پروا نہ کی۔ دبے پائوں اندر گئے جونہی وہ شخص مڑا وہ امام اور محمود کے شکنجے میں آچکا تھا۔ محمود نے دبی آواز میں سعدیہ سے کہا… ''جس پر تم بیٹھی ہو اس کا کپڑا اس کے اوپر ڈال دو''۔ سعدیہ تو جیسے سن ہوگئی تھی۔ اس نے مسند پوش اتار کر اس آدمی پر ڈال دیا۔ اس کا جسم طاقتور نظر آتا تھا مگر امام اور محمود نے اسے بری طرح جکڑ لیا تھا پھر اس کے اوپر کپڑا ڈال کر باندھ دیا۔ قندیلیں بجھا دی گئیں۔ امام کے کہنے پر پہلے سعدیہ باہر نکلی۔ اپنے قیدی کو محمود نے اپنے کندھوں پر پھینک لیا۔ امام ہاتھ میں خنجر لیے آگے آگے چلا۔ وہ سب جس طرف سے خیمے میں داخل ہوئے تھے اسی طرف سے باہر نکل گئے۔ پکڑے جانے کا خطرہ ہر قدم پر تھا لیکن انہوں نے ایسا راستہ اختیار کیا جو انہیں فوراً خطرے سے باہر لے گیا۔ اندھیرے نے اس کی بہت مدد کی۔
٭      ٭       ٭
انہیں دور کا چکر کاٹ کر گائوں میں داخل ہونا پڑا۔ وہ مسجد میں چلے گئے۔ حجرے میں لے جا کر شعبدہ باز کو کھولا گیا۔ ابھی تک تیر اور خنجر اس کے سینے میں اترے ہوئے تھے۔ اسے اٹھانے کی وجہ سے وہ ٹیڑے ہوگئے تھے۔ سعدیہ کو بھی انہوں نے حجرے میں ہی رکھا کیونکہ خطرہ تھا کہ لڑکی کی گمشدگی کا پتا چل گیا تو وہ لوگ اس کے باپ پر حملہ کرے گے۔ دراصل حملہ کرنے والے اب یہ دیکھنے کی حالت میں بھی نہیں تھے کہ ان کے ''خدا'' کا بیٹا کہاں ہے۔ وہ کامیاب جشن منا کر شراب اور بدکاری میں بدمست ہوگئے تھے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کا آقا مع نئی چڑیا کے اغوا بھی ہوسکتا ہے۔
امام اور محمود نے اسے چغہ اتارنے کو کہا۔ اس نے پہلے تیر اور خنجر کھینچ کر نکالے۔ چغہ اتارا پھر اس سے اندر والے کپڑے بھی اتروا لیے گئے۔ ان کپڑوں میں کارک کی طرح نرم لکڑی چھپی ہوئی تھی جس پر چمڑہ لگا ہوا تھا۔ یہ لکڑی کچھ دوہری ہوجاتی تھی اور اتنی لمبی چوڑی تھی جس سے اس کا سینہ ڈھک جاتا تھا۔ تیر اور خنجر اس میں اترے ہوئے تھے۔ اس نے امام اور محمود سے کہا… ''اپنی قیمت بتائو۔ سونے کی صورت میں گھوڑوں اور اونٹوں کی صورت میں، ابھی ادا کروں گا۔ مھے ابھی آزاد کردو''۔
         ''تم اب آزاد نہیں ہوسکو گے''۔ امام نے کہا… ''ہم بھی لوگوں کی طرح تمہارے انتظار میں بیٹھے تھے''۔ امام نے محمود سے کہا… ''تمہیں معلوم ہوگا کہ قریبی چوکی کہاں ہے، وہاں کے پورے دستے کو ساتھ لے آئو''… اس نے چوکی کا فاصلہ اور سمت بتائی اور وہ خفیہ الفاظ بھی بتائے جن سے امام سراغ رساں اور جاسوس کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ اپنے دو جاسوسوں کے نام اور ٹھکانہ بتا کر محمود سے کہا… ''انہیں میرے پاس بھیجتے جانا''۔
محمود نے امام کے گھوڑے پر زین ڈالی اور سوار ہوکر نکل گیا۔ اسے امام کے دونوں جاسوس مل گئے۔ انہیں مسجد میں جانے کو کہہ کر وہ چوکی کی سمت روانہ ہوگیا۔ گائوں سے کچھ دور جاکر اس نے گھوڑے کو ایڑی لگائی۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت تھی مگر وہ شش وپنج میں مبتلا تھا۔ وہ اس چوکی کے کمانڈر کو جانتا تھا۔ وہ لاپروا آدمی تھا۔ صلیبیوں اور سوڈانیوں نے اسے رشوت دے دے کر اپنے ساتھ ملا رکھا تھا۔ محمود نے قاہرہ کو اس کی رپورٹ بھیج دی تھی مگر ابھی تک اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔ محمود کویہی نظر آرہا تھا کہ وہ اپنے دستے کو اس کے ساتھ نہیں بھیجے گا یا وقت ضائع کرے گا تا کہ دشمن نکل جائے۔ محمود سوچ رہا تھا کہ اگر چوکی سے اسے دستہ نہ ملا تو وہ کیا کرے گا۔ صبح سے پہلے دستے کو گائوں میں پہنچنا ضروری تھا۔ دستہ نہ ملنے کی صورت میں امام اور ان کے جاسوسوں کی جانیں خطرے میں آسکتی تھیں کیونکہ اس شعبدہ باز کے ساتھ بہت سارے آدمی تھے۔ اس کے مریدوں کا ہجوم بھی اسی کا حامی تھا۔
امام کے پاس خنجر تھا۔ اس کے جاسوس بھی اس کے پاس آگئے تھے۔ وہ بھی خنجروں سے مسلح تھے۔ انہوں نے شعبدہ باز کو گرفتار کیے رکھا۔ وہ رہائی کی اتنی زیادہ قیمت پیش کررہا تھا جو امام اور اس کے جاسوس خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ امام نے اسے کہا… ''میں مسجد میں بیٹھا ہوں، یہ اسی خدا کا گھر ہے جس نے تمہیں سچا دین دے کر زمین پر اتارا ہے۔ کیا یہ ہے تمہارا سچا دین؟… دیکھو دوست! میں قاہرہ کی حکومت کا اہلکار ہوں، میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا اور میں ایمان بھی نہیں بیچ سکتا''۔
محمود بن احمد چوکی کے خیموں میں داخل ہوا تو کمانڈر کے خیمے میں اس نے روشنی دیکھی۔ گھوڑے کے قدموں کی آواز سن کر کمانڈر باہر آگیاہ محمود نے اپنا تعارف کرایا اور کمانڈر کے ساتھ خیمے میں چلا گیا۔ محمود کے لیے یہ کمانڈر اجنبی تھا۔ اسے کمانڈر نے بتایا کہ گزشتہ شام پرانے دستے کو یہاں سے بھیج دیا گیا ہے یہ دستہ نیا آیا ہے۔ یہ تبدیلی صلاح الدین ایوبی کے ساتھ محاذ سے آئی تھی۔ محمود نے کمانڈر کو تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے بہت بڑا شکار پکڑا ہے اور اس کے تمام گروہ کو پکڑنے کے لیے چوکی کے پورے دستے کی فوری طور پر ضرورت ہے، تاکہ ان لوگوں کو رات ہی رات میں گھیرے میں لے لیا جائے۔
کمانڈر نے فوراً پورے دستے کو جس کی تعداد پچاس سے زیادہ تھی، گھوڑوں پر سوار ہونے کا حکم دیا۔ ان کے پاس برچھیاں اور تلواریں تھیں اور ان میں تیرانداز بھی تھے۔ آٹھ دس سپاہیوں کو چوکی پر چھوڑ دیا گیا۔ یہ دستہ کرک کے محاصرے سے آیا تھا۔ جذبہ قائم تھا۔ کمانڈر نے سرپٹ گھوڑے دوڑا دئیے۔ مجرم خبر ہونے کی حالت میں نہیں تھے۔ شراب اور نیند نے انہیں بے ہوش کررکھا تھا۔ کمانڈر نے محمود کی رہنمائی میں گھیرا مکمل کرلیا اور کارروائی صبح تک ملتوی رہی۔ محمود نے امام کو اطلاع دے دی کہ دستہ آگیا ہے۔ سعدیہ ابھی امام کے حجرے میں ہی تھی۔ امام نے ایک جاسوس بھیج کر سعدیہ کے باپ کو بھی بلا لیا۔
٭      ٭       ٭
جو معتقد، مرید اور زائرین بڑی دور دور سے ''اس'' کی زیارت کو آئے تھے، وہ رات کے معجزے دیکھ کر کھلے آسمان تلے سو گئے تھے۔ ان کے مقدس انسان نے انہیں کہا تھا کہ اگلی رات وہ ان کی مرادیں سنے گا۔ یہ ہجوم صبح اس وقت جاگ اٹھا جب اجالا ابھی دھندلا تھا۔ اس دھندلکے میں انہیں بہت سے گھوڑے نظر آئے۔ ان پر سوار جو تھے وہ فوجی تھے۔ لوگ کچھ سمجھ نہ سکے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ جو مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے، وہ مسجد کے حجرے میں ہاتھ پائوں بندھے بیٹھا ہے۔ وہ اب مسلمانوں کے سچے خدا کی گرفت میں آچکا تھا۔ دستے کا کمانڈر دمشق کار رہنے والا رشد بن مسلم جس کا عہدہ معمولی تھا لیکن سرحد پر آکر اس نے اپنے دستے سے کہا تھا… ''ساری سلطنت صرف تمہارے بھروسے پر سوتی ہے۔ صلاح الدین ایوبی ہر وقت تمہارے ساتھ ہے۔ اگر وہ تمہیں نظر نہیں آتا تو اسے میری آنکھوں میں دیکھ لو۔ ہم سب سلطان صلاح الدین ایوبی ہیں مگر کسی نے یہاں پرانے دستے کے آدمیوں کی طرح ایمان فروخت کیا تو میں اس کے پائوں باندھ کر ریگستان میں زندہ پھینک دوں گا۔ میں اس سزا کا حکم قاہرہ سے نہیں لوں گا۔ میں خدا سے حکم لیا کرتا ہوں''۔
رشد بن مسلم نے صبح کے وقت دیکھا کہ خیموں کے اندر کوئی حرکت نہیں تھی۔ اندر والے اتنی جلدی اٹھنے والے نہیں تھے۔ رشد نے لوگوں سے کہا کہ وہ دور پیچھے ہٹ جائیں اور وہیں موجود رہیں۔ انہیں مقدس انسان قریب سے دکھایا جائے گا۔ لوگوں کو دور ہٹا کر رشد نے تین چار سوار مختلف ٹیلوں کے اوپر کھڑے کردیئے تاکہ مجرموں میں سے کوئی بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔ باقی سواروں کو اس نے گھوڑوں سے اتار کر چاروں طرف سے پیدل اندر جانے کو کہا اور حکم دیا کہ کوئی مزاحمت کرے تو اسے فوراً ہلاک کردو۔ کوئی بھاگے تو اسے تیر مار دو… وہاں بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ رشدنے ننگی تلوار کی نوک چبھو کر تینوں کو جگایا۔ جاگنے کے بجائے انہوں نے جگانے والے کو گالیاں دیں اور کروٹ بدل کر سوئے رہے۔ تلوار کی نوک اب کے ان کی کھال میں اتر گئی۔ تینوں ہڑبڑا کر اٹھے۔ انہیں باہر نکال لیا گیا۔ دوسرے خیموں میں بھی جو لڑکیاں اور مرد ملے وہ اسی حالت میں تھے۔ خیموں میں بے شمار سامان تھا۔ ایک خیمے میں بہت سے ساز پڑے تھے۔
سب کو باہر لے جا کر ان پر پہرہ کھڑا کردیا گیا۔ ان کے اونٹوں اور تمام تر سامان پر قبضہ کرلیا گیا۔ امام رشد بن مسلم کے ساتھ تھا۔ وہ اس آدمی کو اپنے حجرے میں سے لے آیا جو اپنے آپ کو خدا کے بیٹے کا بیٹا کہتا تھا۔ اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے تھے۔ اسے اسی جگہ کھڑا کیا گیا جہاں رات اس نے معجزے دکھائے تھے۔ پیچھے پردے لگے ہوئے تھے۔ اس کے گروہ کو اس کے سامنے بٹھا دیا گیا۔ ان سب کے ہاتھ پیچھے باندھ دیئے گئے۔ وہ ایک خیمے سے برآمد ہوئے تھے۔ امام نے لوگوں کو آگے آنے کو کہا۔ ہجوم آگے آیا تو امام نے کہا… ''اسے کہو کہ یہ خدا کا ایلچی ہے یا اس کا بیٹا ہے تو اپنے ہاتھ رسیوں سے آزاد کرلے۔ یہ مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے۔ میں اس کے گروہ کے ایک آدمی کو ہلاک کروں گا۔ تم اسے کہو کے اسے میرے ہاتھ سے چھڑالے یا وہ مرجائے تو اسے زندہ کردے''… امام نے اس کے گروہ کے ایک آدمی کو اٹھایا اور رشد کی تلوار لے کر اس کی طرف بڑھا تو وہ آدمی چلا اٹھا… ''مجھے بخش دو، یہ آدمی مجھے زندہ نہیں کرسکے گا۔ یہ بہت بڑا پاپی ہے۔ خدا کے لیے مجھے قتل نہ کرنا''۔
لوگوں نے یہ تماشا دیکھا مگر ان کے وہم ابھی دور نہیں ہوئے تھے۔ امام اس آدمی کا چغہ اور کپڑے بھی ساتھ لے آیا تھا۔ نرم لکڑی بھی ساتھ تھی۔ امام نے یہ کپڑے پہن لیے۔ کسی کو دکھائے بغیر لکڑی اندر رکھ لی۔ اوپر چغہ پہن لیا۔ اس نے رشد سے کہا کہ اپنے چار تیرانداز میرے سامنے لائو۔ تیر انداز آئے تو اس نے انہیں کہا… ''تیس قدم دور کھڑے ہوکر میرے دل کا نشانہ لو اور تیر چلائو''… تیر اندازوں نے رشد بن مسلم کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ رات کو محمود نے رشد کو تیروں اور خنجروں کے سینے میں اترنے کی حقیقت بتا دی تھی۔ رشد نے اپنے تیراندازوں کو حکم دیا کہ وہ تیر چلا دیں۔ انہوں نے نشانہ لے کر تیر چلا دئیے۔ چاروں تیر امام کے دل کے مقام میں پیوست ہوگئے۔ امام نے کہا… ''اب آگے آکر میرے سینے پر چار خنجر پوری طاقت سے پھینکو''… خنجر پھینکے گئے جو امام کے سینے میں جاکر اٹک گئے۔
امام نے تیر اندازوں سے کہا۔ ''ایک ایک تیر اور کمانوں میں ڈالو''… اس نے مقدس انسان کو ذرا آگے لیا اور لوگوں سے مخاطب ہوکر بلند آواز میں کہا… ''یہ شخص اپنے آپ کو لافانی کہتا ہے۔ میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ یہ اصل میں کیا ہے''… اس نے تیر اندازوں سے کہا… ''اس کے دل کا نشانہ لے کر تیر چلائو''۔
جونہی کمانیں اوپر اٹھیں، وہ آدمی دوڑ کر امام کے پیچھے ہوگیا۔ وہ موت کے ڈر سے تھرتھر کانپ رہا تھا اور بھکاریوں کی طرح جان کی بخشش مانگ رہا تھا۔ امام نے اسے کہا… ''آگے آئو اور لوگوں کو بتائو کہ تم صلیبیوں کے بھیجے ہوئے تخریب کار ہو اور تم شعبدہ باز ہو''… امام نے تلوار کی نوک اسے کے پہلو سے لگا دی۔
         ''لوگو!''… اس آدمی نے آگے جاکر بلند آواز سے کہا… ''میں لافانی نہیں ہوں، میں تمہاری طرح انسان ہوں۔ مجھے صلیبیوں نے بھیجا ہے کہ تمہارا ایمان خراب کردوں۔ اس کی مجھے اجرت ملتی ہے''۔
         ''اور شمعون کی بیٹی سعدیہ کو اسی نے اغوا کرایا تھا''۔ امام نے کہا۔ ''ہم نے لڑکی رہا کرالی ہے''۔
امام نے چغہ اتارا، اندر کے کپڑے اتارے۔ لکڑی الگ کی اور رشد کے ایک سپاہی کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ یہ تمام مجمعے میں گھما لائو۔ امام نے لوگوں سے کہا کہ تیر اور خنجر اس لکڑی میں لگتے ہیں… تمام لوگوں نے یہ بھید دیکھ لیا تو انہیں آگے بلا کر کہا گیا کہ ہر جگہ گھومو اور ہر ایک چیز دیکھو۔ لوگ ڈرتے ہوئے ہر جگہ پھیل گئے۔ پردوں کے پیچھے ایک غار بنایا گیا تھا۔ وہاں رات کو سازندے بیٹھ کر ساز بجاتے تھے… لوگ خیموں میں گئے تو وہاں شراب کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ ہر جگہ گھوم پھر چکے تھے تو انہیں ایک جگہ بٹھا کر بتایا گیا کہ یہ سب ڈھونگ کیا تھا۔ امام نے معلوم کرلیا تھا کہ جسے اس نے رات کو زندہ کیا تھا، وہ کون ہے، وہ اسی کے گروہ کا ایک آدمی تھا جو رسیوں میں بندھا ہوا قیدیوں میں بیٹھا تھا۔ اسے لوگوں کے سامنے کھڑا کیا گیا۔ ایک اور آدمی لوگوں کو دکھایا گیا جو رات کو بوڑھے کا بہروپ دھار کر اس آدمی کا باپ بنا تھا۔ چار تیر انداز بھی سامنے آگئے جنہوں نے رات تیر چلائے تھے۔ و ہ بھی اس گروہ کے آدمی تھے۔ غرض تمام تر ڈھونگ لوگوں کو دکھایا گیا۔
         ''اسلام کے بیٹو! غور سے سنو''۔ امام نے لوگوں سے کہا… ''یہ سب صلیب کے پجاری ہیں اور تمہارا ایمان خراب کرنے آئے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ کوئی انسان کسی انسان کو زندہ نہیں کرسکتا۔ خود خدا کسی مرے ہوئے کو زندہ نہیں کرتا کیونکہ خدائے ذوالجلال اپنے بنائے ہوئے قانون کا پابند ہے۔ اس کی ذات واحدہ لاشریک ہے۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں۔ یہ صلیبی اسلام کی آواز کو دبانے کے لیے یہ ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔ یہ باطل کے پجاری تمہارے ایمان اور جذبے سے اور تمہاری تلوار سے ڈرتے ہیں۔ تمہارا مقابلہ میدان میں نہیں کرسکتے اس لیے دلکش طریقے اختیار کرکے تمہارے دلوں میں وہم اور وسوسے ڈال رہے ہیں تاکہ تم اسلام کے تحفظ کے لیے صلیب کے خلاف تلوار نہ اٹھائو۔ اسی مصر میں فرعون نے اپنے آپ کو خدا کہا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی خدائی کو دریائے نیل میں ڈبو دیا تھا۔ اپنی عظمت کو پہچانوں میرے دوستو! اپنے دشمن کو بھی اچھی طرح پہچان لو''۔
لوگ جو سب کے سب مسلمان تھے، مشتعل ہوگئے۔ وہ چونکہ پسماندہ اور علم سے بے بہرہ تھے، اس لیے انتہا پسند تھے۔ انہوں نے گناہ گار انسان کی شعبدہ بازی دیکھ کر اسے ''خدا کا بیٹا'' تسلیم کرلیا اور جب اس کے خلاف باتیں سنیں تو ایسے مشتعل ہوگئے کہ غیض وغضب سے نعرے لگاتے اس آدمی پر اور اس کے گروہ پر ٹوٹ پڑے۔ امام ان مجرموں کو زندہ قاہرہ لے جانا چاہتا تھا لیکن اتنے بڑے ہجوم سے انہیں زندہ نکالنا ناممکن ہوگیا۔ رشد نے تشدد سے ہجوم پر قابو پانے کا مشورہ دیا جو امام نے تسلیم نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ تمہاری تلواروں سے یہ سیدھے سادے مسلمان کٹ جائیں گے۔ انہیں اپنے ہاتھوں ان لوگوں کو ہلاک کرنے دو تاکہ انہیں یقین ہوجائے کہ جس نے خدا کا ایلچی اور بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا ہے، وہ ایک گناہ گار انسان ہے جسے کوئی بھی انسان قتل کرسکتا ہے۔
امام، رشد بن مسلم اور محمود ایک طرف گئے، رشد نے ایک ٹیلے پر جاکر اپنے سپاہیوں کو للکارا اور کہا…''تم جہاں ہو وہیں رہو، ان لوگوں کو مت روکو''۔
تھوڑی ہی دیر بعد امام، محمود، رشد بن مسلم اور اس کے دستے کے سپاہی رہ گئے۔ تمام ہجوم غائب ہوچکا تھا۔ رات جہاں شعبدے دکھائے گئے تھے، وہاں شعبدہ باز اور اس کے گروہ کی لاشیں پڑی تھیں۔ لڑکیوں کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔ کوئی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی۔ سب قیمہ ہوچکی تھیں۔ لوگ خیمے، پردے اور تمام تر سامان لوٹ کر لے گئے تھے۔ مجرم گروہ کے اونٹ بھی کھول کر لے گئے اور رشد کے دستے کے نو گھوڑے بھی لاپتہ ہوگئے۔ ان کے سوار پیادہ تھے اور گھوڑوں سے دور تھے۔ لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ اپنی فوج کے گھوڑے ہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے آندھی آئی ہے اور سب کو اپنے ساتھ اڑا لے گئی ہے۔
         ''ہمیں اب قاہرہ چلنا پڑے گا''۔ امام نے رشد اور محمود سے کہا… ''یہ واقعہ حکومت کے سامنے رکھنا ہوگا''۔
٭      ٭       ٭
ان چند ہی دنوں میں صلاح الدین ایوبی نے جو احکام نافذ کیے اور جو اقدام کیے، وہ انقلابی تھے۔ اتنے انقلابی کہ اس کے قریبی دوست اور مرید بھی چونک اٹھے۔ اس نے سب سے پہلے ان افسروں کے گھروں پر چھاپے مروائے اور تلاشی لی جو علی بن سفیان اور غیاث بلبیس کی مشتبہ فہرست میں تھے۔ ان میں دو تین مرکزی کمان کے اعلیٰ حاکم تھے۔ ان کے گھروں پر زروجواہرات، دولت اور بڑی خوبصورت غیرملکی لڑکیاں برآمد ہوئیں۔ بعض کے گھروں میں ایسے ملازم تھے جو سوڈان کے تجربہ کار جاسوس تھے اور بھی کئی ایک ثبوت مل گئے۔ ان سب کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے عہدے اور رتبے کا لحاظ کیے بغیر غیرمعین مدت کے لیے قید خانے میں ڈال دیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ اخلاقی مجرموں جیسا سلوک کیا جائے۔ اس اقدام سے اس کی مرکزی کمان اور مجلس مشاورت کی چند ایک اہم آسامیاں خالی ہوگئیں۔ اس نے ذرہ بھر پروا نہ کی۔
سلطان ایوبی نے دوسرا حملہ اس گروہ پر کیا جو اپنے آپ کو مذہب کا اجارہ دار بنائے ہوئے تھا۔ سلطان ایوبی کو مشیروں نے خلوص نیت سے مشورہ دیا کہ مذہب ایک نازک معاملہ ہے۔ لوگ مسجدوں کے اماموں کے مرید ہیں، رائے عامہ خلاف ہوجائے گی۔ سلطان ایوبی نے پوچھا… ''ان میں کتنے ہیں جو مذہب کی روح کو سمجھتے ہیں؟ لوگ ان کے مرید صرف اس لیے بن گئے ہیں کہ ان کی ساری کوششیں اسی پر مرکوز ہیں کہ لوگ ان کے مرید بن جائیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ امام اپنی عظمت قائم کرنے کے لیے لوگوں کو اصل مذہب سے بے بہرہ رکھتے ہیں۔ قوم کی بہترین درس گاہ مسجد ہے۔ مسجد کی چاردیواری میں بٹھا کر کسی کے کان میں ڈالی ہوئی کوئی بات روح تک اتر جاتی ہے۔ یہ مسجد کے تقدس کا اثر ہے مگر یہاں مسجد کا استعمال غلط ہورہا ہے۔ مسجدوں میں امام پیر اور مرشد بنتے جارہے ہیں۔ اگر میں نے مسجدوں میں باعمل عالم نہ رکھے تو کچھ عرصے بعد لوگ اماموں، پیروں اور مرشدوں کی پرستش کرنے لگیں گے۔ یہ بے علم اور بے عمل عالم اپنے آپ کو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنا لیں گے اور اسلام کے زوال کا باعث بنیں گے''۔
سلطان ایوبی نے اپنے ایک مفکر اور باعمل عالم زین الدین علی نجاالواعظ کو مشورے کے لیے بلایا۔ اس عالم نے اپنا جاسوسی کا ایک ذاتی نظام قائم کرکھا تھا ور ایک بار اس نے صلیبیوں کی ایک بڑی ہی خطرناک سازش بے نقاب کرکے بہت سے آدمی گرفتار کرائے تھے۔ وہ مذہب کو اور مذہب میں جو تخریب کاری ہورہی ہے، اسے بہت اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس نے یہ کہہ کر سلطان ایوبی کا حوصلہ بڑھا دیا کہ اگر آج آپ مذہب کو تخریب کاری سے آزاد نہیں کریں گے تو کل آپ کو یہ حقیقت قبول کرنی پڑے گی کہ قوم آپ کی رہنمائی اور حکم کو قبول کرنے سے پہلے نام نہاد مذہبی پیشوائوں سے اجازت لیا کرے گی۔ اس وقت تک صلیبی مسلمانوں کے مذہبی نظریات میں توہم پرستی اور رسم ورواج کی ملاوٹ کرچکے ہیں… سلطان ایوبی نے فوری طور پر تحریری حکم نافذ کردیا کہ زین الدین علی بن نجاالواعظ کی زیرنگرانی ملک کی تمام مسجدوں کے اماموں کی علمی اور معاشرتی جانچ پڑتال ہوگی اور نئے امام مقرر کیے جائیں گے۔ نئے اماموں کے تقرر کے لیے سلطان ایوبی نے جو شرائط لکھیں، ان میں امام کا عالم ہونے کے علاوہ فوجی یا سابق فوجی یا عسکری تربیت یافتہ ہونا ضروری قرار دے دیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی فلسفۂ جہاد اور عسکری جذبے کو مذہب اور مسجد سے الگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اس نے ملک میں ایسے تمام کھیل تماشے اور تفریح کے ذرائع اور طریقے جرم قرار دے دئیے جن میں جوئے بازی اور تخریبی سکون کا پہلو نکلتا تھا۔ اس کے حکم سے علی بن سفیان کے محکمے نے تفریح گاہوں اور ان کے زیرزمین حصوں پر چھاپے مارے، جہاں سے اٹلی کے مصوروں کی بنائی ہوئی ننگی تصویریں برآمد ہوئیں۔ بہت سے لوگ گرفتار کیے گئے، جنہیں ملک دشمنی اور دشمن کا آلۂ کار بننے کے الزام میں تمام عمر کے لیے تہہ خانوں میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بجائے سلطان ایوبی نے تیغ زنی، تیر اندازی ، گھوڑ سواری، بغیر ہتھیار لڑائی، کشتی جسے پنجہ آزمائی کہتے تھے اور ایسے ہی چند ایک کھیلوں کے مقابلوں کا سرکاری انتظام کردیا۔ پہلے مقابلے میں خود گیا اور اول آنے والوں کو اعلیٰ نسل کے گھوڑے تک انعام میں دئیے۔ اس نے درس گاہوں اور مسجدوں میں تعلیمی مقابلوں کا اہتمام کیا۔
سرحدی دستوں پر اس نے زیادہ توجہ دی تھی۔ اسے معلوم ہوچکا تھا کہ شہروں اور دارالحکومت سے دور رہنے والے لوگ نظریاتی تخریب کاری کا شکار جلدی ہوتے ہیں اور وہی سب سے پہلے دشمن کے حملے یا سرحدی جھڑپوں کی زد میں آتے ہیں۔ ان لوگوں کے نظریاتی اور جسمانی تحفظ کے لیے اس نے خصوصی انتظام کیے۔ اس نے سرحدوں پر جو دستے بھیجے تھے، ان کے کمانڈروں کو اس نے خود ہدایات دیں اور بڑے ہی سخت احکام دئیے تھے۔ یہ تمام کمانڈر جذبے اور ذہانت کے لحاظ سے ساری فوج میں منتخب کیے گئے تھے۔ رشد بن مسلم انہی میں سے تھا، جسے محمود کا اشارہ ملا کہ ایک تخریب کار پکڑا ہے تو وہ پورے کا پورا دستہ لے کر اٹھ دوڑا تھا۔ اگر پرانا کمانڈر ہوتا تو اس وقت صلیبیوں یا سوڈانیوں کی دی ہوئی شراب میں بدمست ہوتا اور تخریب کار اپنے سرغنہ کی رہائی کے لیے گائوں میں تباہی پھیلا کر غائب ہوچکے ہوتے۔
اب رشد بن مسلم، محمود بن احمد اور امام جس کا نام یوسف بن آذر تھا۔ اس کے کمرے میں بیٹھے، اس شعبدہ باز کی کہانی سنا رہے تھے، جسے لوگ قتل کرچکے تھے۔ علی بن سفیان بھی موجود تھا۔ اس نے تینوں سے ساری واردات سن لی تھی اور سلطان ایوبی کے پاس لے گیا تھا۔ سلطان ایوبی خاموش تھا کہ اتنی خطرناک نظریاتی یلغار کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا ہے مگر علی بن سفیان نے کہا… ''صرف یلغار ختم ہوئی ہے، اس کے اثرات ختم کرنے کے لیے لمبا عرصہ درکارہے۔ مجھے جو تفصیل معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ سرحدی دیہات سے ہمیں فوجی بھرتی نہیں مل رہی۔ سرحد کے ساتھ ساتھ رہنے والے لوگ سوڈانیوں کے دوست بن گئے ہیں۔ وہ امارت مصر کے خلاف ہوگئے ہیں۔ جہاد کا جذبہ ختم ہوچکا ہے۔ وہ لوگ غلہ اور مویشی ہمیں نہیں دیتے۔ سوڈانیوں کو بخوشی دیتے ہیں۔ مسجدیں ویران ہوگئی ہیں، لوگ توہم پرست ہوکر شعبدہ بازوں پیروں وغیرہ کی پرستش کرنے لگے ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کے ذہنوں کو اپنے صحیح راستے پر لانے کے لیے باقاعدہ مہم شروع کرنی پڑے گی۔ اگر اس صلیبی شعبدہ باز اور اس کے گروہ کو لوگ قتل نہ کردیتے تو ہم اسے سارے علاقے میں گھماتے پھراتے ''۔
سلطان ایوبی نے اپنے انقلابی احکامات میں سرحدی علاقوں کو خاص طور پر شامل کررکھا تھا۔ اب اس نے اس طرف اور زیادہ توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے سب سے زیادہ شدید سردردی یہ تھی کہ تقی الدین اور اس کی فوج کو سوڈان سے نکالنا تھا۔ قاہرہ پہنچتے ہی وہ منصوبہ بندی میں مصروف ہوگیا تھا۔ راتوں کو سوتا بھی نہیں تھا۔ وہ خود سوڈان کے محاذ پر نہیں جاسکتا تھا کیونکہ مصر کے اندرونی حالات اس کی توجہ کے محتاج تھے۔ اس نے قاہرہ میں آکر تقی الدین کو یہ اطلاع دینے کے لیے کہ وہ قاہرہ آگیا ہے، ایک قاصد بھیج دیا تھا۔ قاصد واپس آچکا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ تقی الدین کا جانی نقصان خاصا ہوچکا ہے اور کچھ نفری دشمن کے جھانسے میں آکر یا جنگ کی صورتحال سے گھبرا کر ادھر ادھر بھاگ گئی ہے۔ قاصد نے بتایا کہ تقی الدین اپنی باقی مادہ فوج کو یکجا کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے مگر دشمن اس کے سر پر موجود رہتا ہے۔ تقی الدین کو جوابی حملہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اسے اتنی سی مدد کی ضرورت ہے کہ دشمن پر حملے کرنے کے لیے چند دستے مل جائیں تاکہ وہ اپنی فوج کو واپس لاسکے۔
سلطان ایوبی نے اسی وقت اپنے تین چار چھاپہ مار دستے اور چند ایک وہ دستے جنہیں جوابی حملہ کرنے اور گھوم پھر کر لڑنے کی خصوصی مشق کرائی گئی تھی، سوڈان بھیج دیئے تھے۔ وہ ہر حملہ دشمن کے عقب میں جاکر کرتے اور دشمن کا نقصان کرکے اور اسے بکھیر کر ادھر ادھر ہوجاتے تھے۔ چھاپہ ماروں نے دشمن کو زیادہ پریشان کیا۔ ان کا مقصد یہی تھا کہ دشمن کو تقی الدین کے تعاقب سے ہٹایا جائے۔ وہ خلاف توقع بہت جلدی کامیاب ہوگئے۔ ان کی اہلیت اور شجاعت کے علاوہ ان کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ دشمن کی فوج تھکی ہوئی تھی اور صحرا بڑا ہی دشوار اور گرم تھا۔ گھوڑے اور اونٹ جواب دے رہے تھے۔
سوڈان کا حملہ بری طرح ناکام ہوا۔ کامیابی صرف یہ ہوئی کہ تقی الدین کو، اس کی مرکزی کمان کے سالاروں وغیرہ اور دستوں کو اور بچی کھچی فوج کو ایسی تباہی سے بچا لیا گیا جو ان کی قسمت میں لکھ دی گئی تھی۔ تقی الدین جب مصر کی سرحد میں داخل ہوا تو اسے پتا چلا کہ وہ سوڈان میں آدھی فوج ضائع کرآیا ہے۔
٭      ٭       ٭
ادھر کرک جل رہا تھا، نورالدین زنگی کے کاریگروں نے ضرورت کے مطابق دور مار منجنیقیں بنا لی تھیں، جن سے قلعے کے اندر پتھر کم اور آگ زیادہ پھینکی جارہی تھی۔ صلاح الدین ایوبی اندر کے چند ایک ہدف بتا آیا تھا۔ ان میں رسد کا ذخیرہ بھی تھا۔ آگ کے پہلے گولے قلعے کی اس طرف پھینکے گئے جس طرف سے رسد کا ذخیرہ ذرا قریب تھا۔ خوش قسمتی سے گولے ٹھکانے پر گئے۔ اندر سے شعلے جو اٹھے انہوں نے زنگی کی فوج کا حوصلہ بڑھا دیا۔ مسلمانوں نے دور مار تیروکمان بھی تیار کرلیے تھے۔ انہیں استعمال کرنے کے لیے غیرمعمولی طور پر طاقتور سپاہی استعمال کیے جارہے تھے لیکن آٹھ دس تیر پھینک کر سپاہی بے ہوحال ہوجاتا تھا۔ زنگی نے ایک اور دلیرانہ کارروائی کی۔ اس نے نہایت دلیر سپاہی چن لیے اور انہیں حکم دیا کہ قلعے کے دروازے پر ٹوٹ پڑیں۔ انہیں دروازہ توڑنے کے موزوں اوزار دئیے گئے۔
جانبازوں کا یہ دستہ دروازے کی طرف دوڑا تو اوپر سے صلیبیوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا۔ کئی جانباز شہید اور زخمی ہوگئے۔ زنگی نے دور مار تیر اندازوں کو وہاں اکٹھا کیا اور عام تیر اندازوں کا بھی ایک ہجوم بلا لیا۔ ان سب کو مختلف زاویوں پر مورچہ بند کرکے دروازے کے اوپر والی دیوار کے حصے پر مسلسل تیر پھینکنے کا حکم دیا۔ حکم کی تعمیل شروع ہوئی تو اتنے تیر برسنے لگے جن کے پیچھے دیوار کا بالائی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔ جانبازوں کی ایک اور جماعت دروازے کی طرف دوڑی۔ زنگی نے تیروں کی بارش اور تیز کرادی۔ ذرا دیر بعد دیوار پر لکڑیوں سے بندھے ہوئے ڈرم نظر آئے۔ یہ جلتی لکڑیوں اور کوئلوں سے بھرے ہوئے تھے، جونہی انہیں باہر کو انڈیلنے والوں کے سر نظر آئے وہ سر تیروں کا نشانہ بن گئے۔ ایک دو ڈرم باہر کو گرے باقی دیوار پر ہی الٹے ہوگئے۔ وہاں سے شعلے اٹھے جن سے پتا چلتا تھا کہ آگ پھینکنے والے اپنی آگ میں جل رہے ہیں۔
زنگی کے کسی کمانڈر نے زنگی کے حملے کا یہ طریقہ دیکھ لیا۔ وہ گھوڑا سرپٹ دوڑا کر قلعے کے پچھلے دروازے کی طرف چلا گیا اور وہاں کے کمانڈر کو بتایا کہ سامنے والے دروازے پر کیا ہورہا ہے۔ ان دونوں کمانڈروں نے وہی طریقہ پچھلے دروازے پر آزمانا شروع کردیا۔ پہلے ہلے میں مجاہدین کا جانی نقصان زیادہ ہوا لیکن جوں جوں مجاہدین گرتے تھے، ان کے ساتھی قہر بن کر دروازے کی طرف دوڑتے تھے۔ تیر اندازوں نے صلیبیوں کو اوپر سے آگ نہ پھینکنے دی۔ زنگی نے حکم دیا کہ منجنیقیں قلعے کے اندر آگ پھینکیں۔ زنگی کی فوج نے دونوں دروازوں پر دلیرانہ حملے دیکھے تو فوج کسی کے حکم کے بغیر دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک حصہ قلعے کے سامنے چلا گیا اور دوسرا عقبی دروازے کی طرف۔ دونوں طرف دیوار پر تیروں کی ایسی بارش برسائی گئی کہ اوپر کی مزاحمت ختم ہوگئی۔ دونوں دروازے توڑ لیے گئے۔ زنگی کی فوج اندر چلی گئی۔ شہر میں خون ریز جنگ ہوئی، وہاں کے باشندوں میں بھگدڑ مچ گئی۔
اس بھگدڑ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبی حکمران اور کمانڈر قلعے سے نکل گئے۔ شام تک صلیبی فوج نے ہتھیار ڈال دئیے۔ زنگی نے قیدی مسلمانوں کو کھلے اور بند قید خانوں سے نکالا پھر صلیبی حکمرانوں کو سارے شہر میں تلاش کیا مگر کوئی ایک بھی نہ ملا۔
یہ ١١٧٣ء کی آخری سہ ماہی تھی، جب کرک کا مضبوط قلعہ سر کرلیا گیا اور مسلمانوں کو بیت المقدس نظر آنے لگا۔

No comments:

Post a Comment