Wednesday 1 July 2015

داستان ایمان فروشوں کی جلد دوم قسط نمبر 10 اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے؟ : ایڈمن شہزادی دستک پیج


وہاں کے ملازموں اور دوسرے لوگوں کی زبان پر یہی موضوع تھا کہ ایک مسلمان جاسوس پکڑا گیاہے۔ رضا بھی فرانسس کے روپ میں ان ملازموں میں شامل تھا۔ وہ بھی مسلمان کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور دوسروں کی طرح خواہش ظاہر کررہا تھا کہ جاسوس کو سرعام پھانسی دی جائے یا اسے گھوڑے کے پیچھے باندھ کر بھگا دیا جائے۔ رضا کو معلوم ہوچکا تھا کہ رحیم ابھی تک اسی کمرے میں ہے۔ سب حیران تھے کہ اسے قید خانے میں کیوں نہیں لے گئے اور جب باورچی خانے کے ایک ملازم نے انہیں بتایا کہ قیدی کے لیے افسروں کا سا کھانا گیا ہے اور وہ خود کھانا دے آیا تو سب حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ رضا باتوں باتوں میں باورچی خانے کے اس آدمی کو الگ لے گیا اور پوچھا… ''کیا تم مذاق کررہے ہو کہ مسلمان جاسوس کو اتنا اچھا کھانا دیا گیا ہے جو افسر کھاتے ہیں، پھر وہ جاسوس نہیں ہوگا''۔
        ''بڑا خطرناک جاسوس ہے''… ملازم نے کہا… ''جو افسر تفتیش کررہے ہیں، میں نے ان کی باتیں سنی ہیں۔ وہ ابھی اسے کھلا پلا کر اس سے باتیں پوچھیں گے، پھر وہ کسی لڑکی کی باتیں کررہے تھے جو اس قیدی کو پھانس کر اس سے باتیں اگلوائے گی''۔
رحیم کھانا کھا چکا تو اس کے کمرے میں ایلس داخل ہوئی، دونوں افسر چلے گئے تھے۔ انہوں نے ایلس کو بلا کر  اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور قیدی سے کیا پوچھنا ہے۔ ایلس کو دیکھ کر رحیم بہت حیران ہوا۔ اسے خواب کا دھوکہ ہوا ہوگا۔
        ''تم؟''… اس نے ایلس سے پوچھا… ''کیا تمہیں بھی گرفتار کرکے یہاں لایا گیا ہے؟''
        ''ہاں!''… ایلس نے کہا… ''میں کل رات سے قید میں ہوں''۔
        ''تم وہاں سے غائب کس طرح ہوئی تھی؟''… رحیم نے کہا… ''میں مان نہیں سکتا کہ تم خود بھاگ آئی تھی؟''
        ''میں کیوں کر بھاگ سکتی تھی''… ایلس نے کہا… ''میرا تو جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے، تم سوگئے تھے مگر مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ میں اٹھ کر ٹہلنے لگی اور کچھ دور نکل گئی۔ کسی نے پیچھے سے میرا منہ ہاتھ سے بند کردیا اور اٹھا کر گھوڑے پر ڈال لیا۔ وہ دو آدمی تھے۔ ایک نے ہمارا گھوڑا بھی لے لیا، میرا منہ بند تھا۔ تمہیں پکار نہیں سکتی تھی، وہ مجھے یہاں لے آئے''۔
        ''انہیں کس نے بتایا ہے کہ میں ایلی مور نہیں، رحیم ہوں؟''… رحیم نے پوچھا… ''اور جنہوں نے تمہیں وہاں جاپکڑا تھا وہ مجھے بھی کیوں نہ پکڑ لائے؟ انہوں نے مجھے قتل کیوں نہ کردیا؟''
        ''میں ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکتی''… ایلس نے کہا… ''میں خود مجرم ہوں''۔
        ''تم جھوٹ بول رہی ہوایلس''… رحیم نے کہا… ''تمہیں دھمکا کر میرے متعلق پوچھا گیا ہے اور تم نے ڈر کے مارے بتا دیا ہے کہ میں کون ہوں۔ مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں، میں کبھی برداشت نہیں کرسکتا کہ تمہیں کوئی تکلیف ہو''۔
        ''اگر تمہیں میری تکلیف کا خیال ہے تو یہ لوگ تم سے جو کچھ پوچھتے ہیں، وہ انہیں بتا دو''… ایلس نے کہا… ''انہوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ تمہیں رہا کردیں گے''۔
        ''بات پوری کرو ایلس''… رحیم نے طنزیہ لہجے میں کہا… ''یہ بھی کہو کہ میں سب کچھ بتا دوں تو مجھے رہا کردیں گے اور تم میرے ساتھ شادی کرلوگی''۔
        ''شادی بھی ہوسکتی ہے''… ایلس نے کہا… ''بشرطیکہ تم عیسائی ہوجائو''۔
        ''کیا تم یہ امید لے کے آئی ہو کہ میں رہائی کی خاطر اپنا مذہب چھوڑ دوں گا؟''… رحیم نے کہا… ''ایلس! میں فوج کا معمولی سا سپاہی نہیں، جاسوس ہوں۔ عقل رکھتا ہوں، میں اس گناہ کی سزا بھگت رہا ہوں کہ عقل پر تمہاری محبت کو سوار کرلیا تھا۔ تم جھوٹ بول رہی ہو، جس صلیب کی تم قسمیں کھا رہی ہو، وہ گلے میں ڈال کر جھوٹ بول رہی ہو۔ کیا یہ غلط ہے کہ تم خود وہاں سے بھاگی ہو؟ کیونکہ تمہارے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی ہے۔ تمہیں مجھ پر اعتماد نہ رہا اور مجھے سوتا چھوڑ کر بھاگ آئیں۔ یہاں آکر تم نے اپنے بوڑھے منگیتر کو میرے پیچھے بھیج دیا۔ میرے دل میں بھی تمہاری قوم کے خلاف نفرت ہے۔ میں تمہارے قوم کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں۔ میں نے اپنی جان تمہاری قوم کو تباہ کرنے کے لیے دائو پر لگائی ہے لیکن تمہاری محبت، محبت ہی رہے گی۔ اس پر نفرت غالب نہیں آسکے گی۔ میں نے تمہاری خاطر اپنا فرض فراموش کیا۔ اپنا مستقبل تباہ کیا مگر تم نے ناگن کی طرح ڈنگ مارا''۔
وہ ایسے انداز سے بول رہا تھا کہ ایلس کی زبان بند ہوگئی۔ اس کے دل میں رحیم کی محبت موجود تھی۔ رحیم نے جب اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھیمے اور پر اثر انداز میں باتیں کیں تو یہ جوان لڑکی اپنے سینے سے اٹھتے ہوئے جذبات کے بگولے کی لپیٹ میں آگئی۔ پہلے تو اس کے آنسو پھوٹے پھر اس نے بیتابی سے رحیم کے دونوں ہاتھ تھام لیے اور روتے ہوئے کہا… ''مجھے تم سے نفرت نہیں۔ تم اپنا فرض بھول گئے تھے، میں نہ بھول سکی۔ میں مجرم ہوں، میں نے
تمہیں پکڑوایا ہے۔ اس جرم کی سزا مجھے سخت ملے گی۔ مجھے چند دنوں میں اس بوڑھے کمانڈر کی بیوی بنا دیا جائے گا جو وحشی ہے اور شراب پی کر درندہ بن جاتا ہے۔ مجھے کچھ نہ بتائو ایلی مور''۔
        ''میںایلی مور نہیں ہوں''… رحیم نے کہا… ''میں رحیم ہوں''۔
٭      ٭      ٭
تفتیش کرنے والے دونوں افسر کہیںاور بیٹھے شراب پی رہے تھے۔ وہ مطمئن تھے کہ یہ خوبصورت لڑکی رحیم کو موم کرلے گی اور صبح سے پہلے پہلے ہمارا کام پورا کردے گی۔ وہاں صرف ایک پہرہ دار تھا جو برآمدے میں بیٹھ گیا تھا۔ کمرے کے پچھواڑے اندھیرا تھا اور اس اندھیرے میں ایک سایہ اتنی آہستہ آہستہ آگے کو سرک رہا تھا جیسے ہوا کا جھونکا رک رک کر آگے بڑھ رہا ہو۔ ادھر عمران گرجے سے ملحق اپنے کمرے میں جاگ رہا تھا۔ ذرا سی آہٹ سنائی دیتی تھی تو وہ اٹھ کر دروازے میں آجاتا تھا۔ اسے ہر آہٹ رضا کی آہٹ لگتی تھی۔ اس نے کمال ہوشیاری سے تین گھوڑے منتخب کرلیے تھے جو آٹھ گھوڑوں کے ساتھ بندھے تھے۔ اس کے زینیں بھی چوری چھپے الگ کرلی تھیں۔ اسے امید تھی کہ رضا اور رحیم آجائیں گے مگر جوں جوں رات گزرتی جارہی تھی۔ امید بھی تاریک ہوتی جارہی تھی۔ یہ حقیقت نکھرتی آرہی تھی کہ اس نے رضا کو یہ اجازت دے کر کہ رحیم کو آزاد کرائے، سخت غلطی کی تھی۔ یہ ناممکن تھا۔ وہ اب سوچ رہا تھا کہ ایک گھوڑے کھولے اور نکل جائے مگر اسے رضا کا خیال آجاتا تھا۔ رضا نے اسے کہا تھا کہ وہ رات کو آئے گا ضرور خواہ اکیلا آئے۔
اس وقت رضا موت کے منہ میں جاچکا تھا۔ وہ ایک سیاہ سایہ بن کر اس کمرے کے ایک دریچے کے پاس پہنچ گیا، جس میں رحیم بند تھا۔ اس نے کان لگا کر اندر کی باتیں سنیں۔ اسے کسی کے یہ الفاظ سنائی دئیے۔ میں تمہیں رہا نہیں کراسکتی۔ یہ لوگ جو کچھ پوچھتے ہیں، وہ بتا دو پھر میں اپنے باپ سے کہہ کر تمہارے لیے کچھ کرسکتی ہوں۔ مجھے اسی مقصد کے لیے تمہارے پاس لایا گیا ہے کہ میری محبت تم سے راز اگلوائے گی۔
دریچے کے کواڑ پر نہایت آہستہ سے کسی نے تین بار دستک دی۔ رحیم اس اشارے کو سمجھتا تھا۔ وہ حیران ہوا کہ یہ اس کا کون سا ساتھی ہوسکتا ہے۔ ایلس کچھ نہ سمجھ سکی۔ رحیم ٹہلتے ٹہلتے دریچے تک گیا اور کواڑ کھول دیا۔ رضا باہر کھڑا تھا، کود کر اندر آگیا۔ اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ اس نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ایلس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور خنجر اس کے دل میں اتار دیا۔ اسے قتل کرنا ضروری تھا، ورنہ وہ شور مچا کر انہیں پکڑا سکتی تھی۔ رضا اور رحیم دریچے سے کود کر باہر گئے اور اندھیرے سے بھاگ اٹھے۔ رضا اس جگہ سے واقف تھا۔ اس نے راستہ تو اچھا اختیار کیا تھا لیکن برآمدے میں جو پہرہ دار تھا، اس نے کسی طرف سے دو سائے بھاگتے دیکھ لیے۔ اس کے شور پر دوسرے سنتری ہوشیار ہوگئے۔ جانے کہاں سے ایک تیر آیا جو رحیم کے پہلو میں اتر گیا۔ وہ جوان اور توانا آدمی تھا، گرا نہیں۔ رضا کے ساتھ بھاگتا چلا گیا مگر زیادہ دور تک نہ جاسکا۔ اس کے قدم ڈگمگانے لگے تو رضا نے اسے اپنی پیٹھ پر ڈال لیا۔ تیر پہلو سے نکالنا ممکن نہیں تھا۔
رحیم رضا سے کہنے لگا کہ وہ اسے وہین پھینک کر بھاگ جائے۔ وہ اب زندہ نہیں رہ سکتا تھا لیکن رضا اپنے دوست کو اس وقت تک اپنے آپ سے جدا نہیں کرنا چاہتا تھا، جب تک وہ زندہ تھا۔ اس نے رحیم کی ایک نہ سنی اور تاریک راستوں میں چھپتا چھپاتا چلتا گیا۔ اسے خیال آگیا کہ وہ اس جگہ سے گزر رہا ہے۔ جہاں تمام مکان مسلمانوں کے ہیں۔ اسے دور دور بھاگ دوڑ اور شور شرابہ سنائی دے رہا تھا۔ ان کا تعاقب کرنے والے کہیں اور تھے۔ رضا کو معلوم تھا کہ عکرہ کے مسلمان کیڑوں مکوڑوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں اور صلیبیوں کی نگاہ میں ہر مسلمان جاسوس اور مشتبہ ہے۔ ذرا سے شک پر کسی بھی مسلمان کو قید خانے میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کے گھر کی تلاشی توہین آمیز طریقے سے لی جاتی تھی۔ رضا کسی مسلمان کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا مگر وہ رحیم کے بوجھ تلے شل ہوچکا تھا اور اسے یہ امید بھی تھی کہ شاید رحیم کی زندگی بچانے کا کوئی بندوبست ہوجائے۔
اس نے ایک دروازے پر دستک دی۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا۔ رضا تیزی سے اندر چلا گیا جس نے دروازہ کھولا تھا، گھبرا گیا۔ رضا نے مختصر الفاظ میں اپنا تعارف کرایا وہاں تو صرف یہ کہہ دینا ہی کافی تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔ رضا کو پناہ مل گئی مگر رحیم شہید ہوچکا تھا۔ رضا کے کپڑے خون سے لتھڑ گئے تھے۔ اس نے گھر والوں کو سارا واقعہ سنایا اور عمران کے متعلق بھی بتایا۔ گھر میں تین مرد تھے، وہ جوش میں آگئے۔ انہوں نے رضا کے کپڑے تبدیل کردئیے۔ رحیم کی لاش کے متعلق فیصلہ ہوا کہ اسے گھر کے کسی کمرے میں دفن کردیا جائے گا۔ رضا عمران کو بلانے کے لیے چلا گیا۔
٭      ٭      ٭
رات کے اس وقت جب دنیائے اسلام گہری نیند سوئی ہوئی تھی، قوم کے غدار دشمن کی بھیجی ہوئی عورتوں اور شراب میں بدمست پڑے تھے، ان سے دور، بہت دور ایک مسلمان اسلام کی ناموس پر اپنی جان پر کھیل گیا تھا اور دو جان کی بازی لگا کر اس راز کے ساتھ عکرہ سے نکل کر قاہرہ پہنچنے کی کوشش کررہے تھے، جس پر مصر کی عزت اور اسلام کی آبرو کا دارومدار تھا۔ اس راز کو وہ خدا کی امانت سمجھتے تھے، وہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا کہ وہ اپنا فرض ادا کرتے ہیں یا عیش کررہے ہیں لیکن انہیں یہ احساس تھا کہ انہیں خدا دیکھ رہا ہے اور وہ خدا کے حکم کی تعمیل کررہے ہیں۔
عمران کا سر اس تذبذب اور اضطراب میں دکھنے لگا تھا کہ رحیم آجائے گا یا نہیں، رضا آجائے گا یا نہیں؟؟ قاہرہ تک یہ خبر پہنچا سکے گا یا نہیں کہ مصر پر حملے کے لیے بحیرۂ روم میں صلیبیوں کا بہت بڑا بیڑہ آرہا ہے۔ عمران اس لیے بھی قاہرہ یا کم از کم کرک جلدی پہنچنا چاہتا تھا کہ نورالدین زنگی یا سلطان ایوبی یا دونوں کسی اور طرف حملے یا پیش قدمی کی سکیم نہ بنا لیں۔ ایسی صورت میں انہیں روکنا تھا، اگر ان کی فوج کسی اور طرف نکل گئی تو مصر کا خدا ہی حافظ تھا۔ عمران کو ان سوچوں نے اس قدر پریشان کیا کہ اس نے دروازہ اندر سے بند کرکے نفل پڑھنے شروع کردئیے۔ اس شہر کی خاموشی میں کوئی سرگرمی سنائی دے رہی تھی۔ کچھ بھاگ دوڑ سی تھی۔ یہ اس کی پریشانی میں اضافہ کررہی تھی۔ اس نے دو چار نفل پڑھ کر ہاتھ خدا کے حضور پھیلا دئیے اور گڑگڑایا… ''یا خدا! مجھے اپنے فرض کی تکمیل تک زندگی عطا کر۔ میں یہ امانت ٹھکانے پر پہنچا دوں تو مجھے میرے خاندان سمیت ختم کردینا''۔
اس کے دروازے پر ویسی ہی دستک ہوئی جیسی رحیم کے دریچے پر ہوئی تھی۔ عمران نے دروازہ کھولا۔ رضا کھڑا تھا۔ اسے اندر بلا کر عمران نے دروازہ بند کردیا۔ رضا ہانپ رہا تھا۔ اس نے عمران کو بتایا کہ اس پر کیا گزری ہے اور رحیم شہید ہوچکا ہے۔ عمران نے جب یہ سنا کہ رحیم کی لاش ایک مسلمان گھرانے میں ہے جو اسے گھر میں دفن کردیں گے تو عمران پریشان ہوگیا۔ وہ عکرہ کے کسی مسلمان کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ رضا نے اسے بتایا کہ اس گھر میں تین مرد اور باقی عورتیں ہیں۔ انہوں نے فوراً ایک کمرے کے کونے میں کھدائی شروع کردی تھی۔ عمران اس گھر جانا چاہتا تھا تاکہ دیکھ لے کہ ان کے پکڑے جانے کا کوئی خطرہ تو نہیں۔ رضا نے اسے یقین دلایا کہ وہ ہوشیار لوگ معلوم ہوتے ہیں، سنبھال لیں گے۔
عکرہ سے نکلنا دشوار ہوگیا تھا۔ شہر کی ناکہ بندی کرلی گئی تھی۔ ایک لڑکی کا قتل اور ایک جاسوس کا فرار معمولی سی واردات نہیں تھی۔ نکلنا رات کو ہی تھا۔ ان دونوں نے یہ طے کیا کہ اکٹھے نکلیں گے اور دونوں میں سے کوئی پکڑا گیا یا دونوں پکڑے گئے تو اور جو کچھ بھی کہیں، یہ نہیں بتائیں گے کہ رحیم کی لاش کہاں ہے یا وہ مارا گیا ہے۔ اگلہ مسئلہ گھوڑوں کا تھا۔ عمران رضا کو اس جگہ لے گیا جہاں آٹھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے مگر دور سے دیکھا کہ محافظوں میں سے ایک وہاں ٹہل رہا تھا۔ عمران رضا کو ایک جگہ چھپا کر آگے گیا اور اس سنتری کے پاس چلا گیا۔ اس سے پوچھا کہ آج اسے پہرہ دینے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے۔ سنتری عمران کو جان گنتھر کے نام سے اچھی طرح جانتا تھا اور بڑے پادری کے خصوصی خادم کی حیثیت سے اس کا احترام بھی کرتا تھا۔ اس نے عمران کو بتایا کہ آج ایک مسلمان جاسوس کو پکڑا گیا تھا۔ وہ کسی لڑکی کو قتل کرکے فرار ہوگیا ہے۔ اس لیے حکم آیا ہے کہ ہوشیار رہا جائے۔
اس سنتری کی موجودگی میں گھوڑے کھولنا ممکن نہیں تھا۔ عمران نے اسے باتوں میں لگا لیا اور پیچھے ہوکر اس کی گردن بازو کے گھیرے میں لے لی۔ سنتری کا دم گھٹنے لگا۔ عمران نے اس کے پہلو سے خنجر نما تلوار کھینچ لی اور اس کے پیٹ میں گھونپ دی۔ مرنے تک اس کی گردن بازو کے شکنجے میں دبائے رکھی۔ اسے مار کر عمران نے رضا کو بلایا۔ دو گھوڑوں پر زینیں ڈالیں اور سوار ہوگئے۔ گرجے کے باقی محافظ کمرے میں کہیں سوئے ہوئے تھے۔ عمران اور رضا چل پڑے۔ شہر سے نکلنے کے کئی راستے تھے۔ وہ ایک طرف چل پڑے اور شہر سے نکل گئے۔ اچانک وہ گھیرے میں آگئے اور انہیں للکارا گیا۔
                ''ہم شہری ہیں دوستو!''… عمران نے کہا… ''ہم بھی تمہاری طرح ڈیوٹی دے رہے ہیں''۔
تین چار مشعلیں جل اٹھیں جن کی روشنی میں انہوں نے دیکھا کہ وہاں گھوڑ سواروں کا ایک دستہ تھا جو ادھر ادھر پھیلا ہوا تھا تب انہیں احساس ہوا کہ شہر کی ناکہ بندی ہوچکی ہے۔ عمران نے اپنے کپڑے نہیں دیکھے تھے۔ اس کے کپڑوں پر سنتری کا خون تھا۔ مشعل کی روشنی میں یہ خون صلیبی سواروں کو نظر آگیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ خون کس کا ہے تو عمران نے لگام کو جھٹکا دے کر گھوڑے کو ایڑی لگادی۔ رضا نے بھی ایسا ہی کیا مگر اس نے ذرا دیر کردی۔ عمران نکل گیا۔ رضا گھیرے میں آگیا۔ عمران کے پیچھے بھی تین سوار گئے۔ اسے رضا کی بلند پکار سنائی دینے لگی… ''عمران رکنا نہیں، نکل جائو۔ خدا حافظ''… عمران بہت دور تک یہ پکار سنتا رہا۔ پتا چلتا تھا جیسے وہ گھیرے سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ عمران کا گھوڑا بڑا اچھا تھا۔ اس کے دائیں بائیں سے تیر گزرنے لگے لیکن وہ تعاقب کرنے والوں کو پیچھے ہی پیچھے چھوڑتا چلا گیا۔ وہ راستے سے واقف تھا۔ اس نے کرک کا رخ کرلیا۔ گھوڑا بدلنے کی ضرورت تھی۔
جب صبح کی روشنی سفید ہورہی تھی، اس کا گھوڑا دوڑنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس نے پانی کی تلاش کرنے کی کوشش ہی نہ کی۔ آگے ریتلی چٹانوں کا علاقہ آگیا۔ وہ اس میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس کے سامنے چٹان میں دو تیرلگے جس کا مطلب تھا کہ رک جائو۔ وہ رک گیا اور یہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی کہ اسے روکنے والے اس کی اپنی فوج کے آدمی تھے۔ اسے اپنے کمانڈر کے پاس لے گئے۔ کمانڈر نے اس کی بات سن کر اسے تازہ دم گھوڑا دیا اور دو سپاہی اس کے ساتھ کرکے اسے کرک کے راستے پر ڈال دیا۔ اس نے خود ہی کہا تھا کہ وہ نورالدین زنگی سے مل کر قاہرہ جائے گا۔ عکرہ سے جو خبر لایا تھا وہ زنگی تک بھی پہنچنی چاہیے تھی۔
٭      ٭      ٭
عمران جب کرک کے قلعے میں نورالدین زنگی کے سامنے بیٹھا اپنی کہانی سنا رہا تھا۔ زنگی اسے ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے اس خوبرو جوان کو دل میں بٹھا لینا چاہتا ہو۔ اس نے اٹھ کر بیتابی سے عمران کو سینے سے لگا لیا اور اس کے دونوں گال چوم کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور پھر نیام میں ڈال کر نیام کو چوما۔ اسے دونوں ہاتھ پر رکھ کر عمران سے کہا… ''اس وقت جب صلیب ایک خوفناک گدھ کی طرح چاند ستارے پر منڈلا رہی ہے، ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو تلوار سے بڑھ کر اور کوئی تحفہ نہیں دے سکتا۔ تم بغداد میں کہو، دمشق میں کہو، کہیں بھی کہو، میں تمہیں ایک محل دے سکتا ہوں۔ تم نے جو کارنامہ کر دکھایا ہے۔ اس کے صلے میں تم دولت کے انبار کے حق دار ہو لیکن میرے عزیز دوست! میں تمہارے لیے محل کھڑا نہیں کروں گا۔ تمہیں دولت کی شکل میں صلہ نہیں دوں گا کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو اندھا اور اپاہج کردیا ہے۔ یہ قبول کرو، میری تلوار! اور یاد رکھو اس تلوار نے بڑے بڑے جابر صلیبیوں کا خون پیا ہے۔ اس تلوار نے بہت سے قلعوں پر اسلام کا جھنڈا لہرایا ہے اور یہ تلوار اسلام کی پاسبان ہے''۔
عمران نورالدین زنگی کے آگے دوزانو بیٹھ گیا اور اس کے ہاتھوں سے تلوار لے کر چومی، آنکھوں سے لگائی اور کمر سے باندھ لی۔ وہ کچھ کہہ نہ سکا۔ اس پر رقت طاری ہوگئی تھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
         ''اور اپنی قدروقیمت جان لو میرے دوست!''… زنگی نے کہا… ''ایک جاسوس دشمن کے لشکر کو شکست دے سکتا ہے اور ایک غدار اپنی پوری قوم کو شکست کی ذلت میں ڈال سکتا ہے۔ تم نے دشمن کو شکست دے دی ہے۔ تم جو خبر لائے ہو یہ دشمن کی شکست کی خبر ہے۔ صلیبی انشاء اللہ مصر اور فلسطین کے ساحل سے آگے نہیں آسکیں گے اور ان کا بحری بیڑہ واپس نہیں جاسکے گا۔ یہ تمہاری فتح ہوگی اور اس کا صلہ تمہیں خدا دے گا''۔
         ''مجھے قاہرہ کے لیے جلدی روانہ ہوجانا چاہیے''… عمران نے کہا… ''دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ امیر مصر کو بہت دن پہلے اطلاع جانی چاہیے''۔
         ''تم ابھی روانہ ہوجائو''… نورالدین زنگی نے کہا… ''میں تمہیں بڑی اچھی نسل کا گھوڑا دے رہا ہوں''۔ اس نے عمران کو قاہرہ تک کا وہ راستہ بتا دیا جس پر کئی چوکیاں تھیں۔ ان پر قاصدوں کے گھوڑے بدلنے کا انتظام تھا… ''اور صلاح الدین ایوبی سے پہلی بات یہ کہنا کہ رحیم اور رضا کے خاندانوں کو اپنے خاندان میں جذب کرلو۔ ان کے خاندانوں کی کفالت کا انتظام بیت المال سے کرو''… اس نے عمران سو پوچھا… ''تم صرف جاسوسی کرسکتے ہو یا جنگ کو بھی سمجھ سکتے ہو؟''
         ''کچھ سوجھ بوجھ رکھتا ہوں''… عمران نے جواب دیا… ''آپ حکم دیں''۔
         ''پیغام لکھنے کا وقت نہیں''… زنگی نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی سے کہہ دینا کہ مجھے کرک تمہارے حوالے کرکے بغداد جلدی واپس جانا تھا۔ اطلاع مل رہی ہیں کہ ان علاقوں میں صلیبیوں کی تخریب کاری بڑھتی جارہی ہے اور ہمارے چھوٹے چھوٹے حکمران ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں لیکن اس تازہ خبر نے مجھے رکنے پر مجبور کردیا ہے۔ چار پانچ سال پہلے تم نے بحیرۂ روم میں صلیبیوں کا بیڑہ غرق کیا تھا۔ وہ تمہارے پھندے میں آگئے تھے۔ اب وہ محتاط ہوکر آئیں گے۔ اسی لیے انہوں نے سکندریہ کے شمالی ساحل کو منتخب کیا ہے۔ اگر تم ان سے سمندر میں براہ راست ٹکر لینے کا فیصلہ کرو تو یہ تمہاری غلطی ہوگی۔ تمہارے پاس صلیبیوں جتنی بحری طاقت نہیں ہے۔ ان کے جہاز بڑے ہیں اور ہر جہاز میں بادبانوں کے علاوہ بے شمار چپو ہیں۔ چپو چلانے کے لیے ان کے پاس غلاموں کی بے انداز تعداد ہے۔ تم اتنی تعداد سے محروم ہو۔ تمہارے جہازوں کے چپو چلانے والے ملاح ہیں اور سپاہی بھی۔ سمندری جنگ میں وہ دونوں کام نہیں کرسکیں گے۔ صلیبیوں کو ساحل پر آنے دو۔ سکندریہ کو بحری لوگوں کا خطرہ ہوگا۔ آتشیں گولے شہر کو آگ لگا دیں گے۔ اس کا کوئی انتظام کرلینا''۔
         ''اگر دشمن نے اسی انداز سے حملہ کیا جیسا کہ عمران خبر لایا ہے تو میں دشمن کے پہلو پر ہوں گا۔ یہ اس کا بایاں پہلو ہوگا۔ تم دائیں پہلو کو سنبھالو گے اور تمہارے ذمے ایک کام یہ ہوگا کہ صلیبیوں کا کوئی جہازواپس نہ جائے۔ آگ لگا دینا اگر تمہارے پاس سمندری چھاپہ مار ہوں تو تم جانتے ہو کہ ان سے کیا کام لیا جاسکتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سوڈان کی طرف سے چوکنا رہنا۔ وہ سرحد خالی نہ رہے۔ مجھے احساس ہے کہ تمہارے پاس فوج کم ہے۔ میں یہ کمی پوری کرنے کی کوشش کروں گا۔ سب سے بڑی ضرورت راز داری کی ہے۔ راز داری کی خاطر میں پیغام تحریری نہیں بھیج رہا۔ فتح کی صورت میں، میں کرک فوج کے حوالے کرکے بغداد چلا جائوں گا''۔
یہ پیغام ذہن نشین کرکے عمران قاہرہ روانہ ہوگیا۔
صلیبیوں کے سن ١١٧٤ء کے ابتدائی دن تھے جب علی بن سفیان نے صلاح الدین ایوبی کو اطلاع دی کہ عکرہ میں ایک جاسوس شہید ہوگیا ہے اور دوسرا پکڑا گیا اور ان کا کمانڈر عمران واپس آگیاہے تو جان لینے کے باوجود کہ عمران بڑا ہی قیمتی راز لایا ہے، سلطان ایوبی بجھ سا گیا۔ اس نے علی بن سفیان کے ساتھ چندایک باتیں کرکے عمران کو اندر بلایا اور آٹھ کر اسے گلے لگا لیا، پھر کہا… ''پہلے مجھے یہ بتائو کہ تمہارا ایک ساتھی شہید کس طرح ہوا اور دوسرا پکڑا کس طرح گیا ہے؟''
عمران نے پوری تفصیل سے ساری کہانی بیان کردی اور جب اس نے وہ راز بیان کیا جو وہ عکرہ سے لایا ہے تو سلطان ایوبی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ عمران نے یہ بھی بتایا کہ وہ نورالدین زنگی کو اطلاع دے آیا ہے۔ اس نے سلطان ایوبی کو زنگی کا پیغام سنایا۔ اس سے سلطان ایوبی کا بہت سا وقت بچ گیا تھا۔ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ رحیم اوررضا کے خاندانوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا اور ان خاندانوں کے متعلق معلومات پیش کرنے کا کہا تاکہ اس کے مطابق ان کی مزید مدد کی جائے۔ اس کے بعد اس نے عمران سے بہت سی باتیں پوچھیں۔ عمران نے اسے بتایا کہ صلیبیوں کا بحری بیڑہ چار پانچ سال پہلے کی نسبت زیادہ ہوگا۔ حملہ ایک ماہ کے اندر اندر ہوگا۔ یورپ سے تازہ دم فوج لائی جائے گی جسے سکندریہ کے شمال میں اترنے والی فوج سکندریہ پر قبضہ کرکے اسے اڈہ اور رسد گاہ بنائے گی اور شمال کی طرف سے مصر پر حملہ آورہوگی۔ عمران کے کہنے کے مطابق صلیبیوں کی یہ توقع ہے کہ وہ سلطان ایوبی کو بے خبری میں جالیں گے اور نورالدین زنگی اسے مدد اور کمک نہیں دے سکے گا کیونکہ راستے میں صلیبیوں کی بیت المقدس والی فوج حائل ہوگی۔
یہ ایسا طوفان تھا جو بے خبری میں آجاتا تو مصر پر صلیبیوں کا قبضہ یقینی تھا۔ سلطان ایوبی نے اسی وقت اپنے تمام سینئر کمانڈروں کو بلا لیا۔ علی بن سفیان کو اس نے یہ ہدایت دی کہ وہ دشمن کے جاسوسوں کے خلاف اپنی سرگرمیاں اور تیز کردے تاکہ اپنی فوجوں کی نقل وحرکت کے متعلق کوئی خبر باہر نہ جاسکے۔ سکندریہ کے متعلق اس نے خصوصی ہدایات دیں۔
٭      ٭      ٭
برطانیہ ابھی اس جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہتا تھا۔ انگریزوں کو غالباً یہ توقع تھی کہ کسی وقت وہ اکیلے ہی مسلمانوں کو شکست دے کر ان کے علاقوں پر قابض ہوجائیں گے لیکن پوپ (سب سے بڑے پادری) کے کہنے پر انگریزوں نے صلیبیوں کو اپنے کچھ جنگی جہاز دئیے تھے۔ سپین کا تمام بیڑہ اس حملے میں شرکت کے لیے تیار تھا، فرانس، جرمنی اور بلجیم کے جہاز بھی آگئے تھے اور اس متحدہ بیڑے میں یونان اور سسلی کی جنگی کشتیاں بھی شامل تھیں۔ رسد اور اسلحہ کے لیے ماہی گیروں سے بادبانی کشتیاں لے لی گئی تھیں۔ ان میں بعض خاصی بڑی تھیں۔ اس بیڑے میں ان تمام ممالک سے تازہ دم فوج آرہی تھی جس سے صلیب پر حلف لیا گیا تھا کہ فتح حاصل کیے بغیر واپس نہیں آئے گی۔
         ''اگر صلاح الدین ایوبی نے ہمارا مقابلہ اپنے بحری بیڑے سے کیا تو اس کی اسے مصر جتنی قیمت دینی پڑے گی''۔
فرانسیسی بحریہ کے کمانڈر نے کہا… ''ہم جانتے ہیں کہ اس کے بحری بیڑے کی کتنی کچھ طاقت ہے''… وہ بحیرۂ روم کے دوسرے کنارے پر ایک کانفرنس میں بیٹھا کہہ رہا تھا… ''صلاح الدین ایوبی اور نورالدین خشکی پر لڑنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں یہ توقع رکھنی چاہیے کہ اس حملے کی خبر مسلمانوں کو قبل از وقت نہیں ہوگی اورصلاح الدین ایوبی کو اس وقت خبر ہوگی جس وقت ہم قاہرہ کو محاصرے میں لے چکے ہوں گے۔ نورالدین زنگی اس کی مدد کے لیے نہیں پہنچ سکے گا اور ہمارا یہ حملہ فیصلہ کن ہوگا''۔
         ''میں ایک بارپھر کہتا ہوں کہ سوڈانیوں کا استعمال کرنا ضروری ہے''… رینالٹ نے کہا… ''رینالٹ ایک مشہور صلیبی حکمران اور جنگجو تھا۔ اسے بیت المقدس کی طرف سے خشکی پر آنا اور حملہ کرنا تھا۔ وہ شروع سے زور دے رہا تھا کہ وہ مصر پر شمال اورمشرق سے حملہ کریں تو جنوب سے سوڈانی بھی مصر پر حملہ کردیں گے۔''
         ''آپ پچھلے تجربوں کو بھول جاتے ہیں''… اسلام کے سب سے بڑے دشمن فلپ آگسٹس نے کہا… ''١١٦٩ء میں ہم نے سوڈان کو بے دریغ مدد دی تھی اور اس توقع پر ہم نے سمندر سے حملہ کیاتھا کہ سوڈانی جنوب سے حملہ کریں گے اور صلاح الدین ایوبی کی فوج میں جو سوڈانی ہیں و ہ بغاوت کردیں گے مگر انہو ںنے کچھ بھی نہ کیا۔ دو سال بعد پھر انہیں مدد دی گئی۔ انہوں نے یہ بھی ضائع کردی۔ اب کے پھر انہوں نے ہمیں مایوس کیا، ہم کیوں انہیں اپنے منصوبے میں شریک کریں؟ اگر مصر ہم نے اپنی طاقت سے لے لیا تو سوڈانی ہم سے حصہ مانگیں گے۔ آپ یہ بھول رہے ہیں کہ سوڈانیوں میں مسلمانوں کی تعداد کم نہیں۔ مسلمان پر بھروسہ کرنا غلطی ہے۔ اگر آپ سچے دل سے اسلام کا نام ونشان مٹانا چاہتے ہیں تو کسی مسلمان کو اپنا دوست نہ سمجھیں۔ انہیں خرید کر اپنا دوست ضرور بنائیں لیکن دل میں اس کی دشمنی قائم رکھیں''۔
         ''آپ ٹھیک کہتے ہیں''… ایک اور صلیبی بادشاہ نے کہا… ''آپ لوگوں نے فاطمیوں کو دوست بنایا۔ وہ صلاح الدین ایوبی کے دشمن ہوتے ہوئے بھی اسے ابھی تک قتل نہیں کرسکے۔ ہم نے انہیں بڑے بڑے قابل جاسوس اور تخریب کار دئیے جو انہوں نے اپنی غلطیوں سے پکڑوا کر مروا دئیے۔ اب ہم کسی پربھروسہ نہیں کریں گے، ہمیں اپنی جنگی طاقت پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اب ہم کامیاب ہوں گے''۔
ان کی جنگی طاقت اتنی زیادہ تھی کہ وہ اس سے زیادہ تکبر کرنے میں حق بجانب بیڑے کا تو کوئی حساب ہی نہ تھا۔ بیت المقدس کی طرف سے جو فوج آرہی تھی۔ وہ سمندر کی طرف سے آنے والی نفری سے دگنی تھی۔ یورپی مورخوں میں تعداد کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے تو اس حملے کا صلیبی جنگوں میں ذکر ہی نہیں کیا، جیسے اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ اس حملے میں کم و بیش صلیبیوں کی چھ بادشاہیاں شامل تھیں۔ کچھ چھوٹے چھوٹے حکمران بھی تھے، جو اپنی فوجیں لے آئے تھے۔ ان میں خامی یہ تھی کہ انکی کمان متحدہ نہیں تھی، تاہم یہ لشکر نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کو آسانی سے شکست دے سکتا تھا۔ سلطان ایوبی کی کمزوری یہ تھی کہ اس کی فوج کم تھی۔ اس کے علاوہ مصر میں غداروں نے بدامنی پھیلا رکھی تھی اورسب سے بڑا خطرہ یہ کہ سوڈانی بھی حملہ کرسکتے تھے۔ نورالدین زنگی کو بھی کچھ ایسی ہی دشواریوں کا سامنا تھا۔ دنیائے اسلامچھوٹی چھوٹی ریاستوں می بٹی ہوئی تھیں اور یہ حکمران عیش وعشرت کے عادی ہوچکے تھے۔ صلیبیوں نے انہیں اپنے زیراثر لے رکھاتھا۔ وہ آپس میں پھٹے ہوئے تھے اور انہیں اسلام کی ناموس کا ذرہ بھر احساس نہ تھا۔
سلطان ایوبی نے اپنے سینئرکمانڈروں کو بلا کر اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک حصے کو اس نے سوڈان کی سرحد پر چلے جانے کو کہا۔ اس کے کمانڈر کو یہ ہدایت دی کہ وہ سرحد سے خاصا پیچھے خیمہ زن رہے لیکن فوج کو مختلف جگہوں پر اس طرح متحرک رکھے کہ گرد اڑتی رہے اور یہ ظاہر ہو کہ فوج کی تعداد بے حساب ہے۔ سلطان ایوبی نے خصوصی
حکم دیا کہ کسی بھی وقت فوج آرام کی حالت میں نہ رہے۔ دوسرے حصے کو سکندریہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن اس ہدایت کے ساتھ کہ کوچ رات کو ہوگا اور تمام پڑائو دن کے وقت ہوںگے۔ اس کے کمانڈر کو بتایا گیا کہ اسے یہ حکم بعد میں ملے گا کہ اس کی منزل کیا ہے اور آخری خیمہ گاہ کہاں ہوگی۔ تیسرے حصے کو سلطان ایوبی نے اپنے ہاتھ میں رکھا۔ اس نے کسی بھی کمانڈرکو نہ بتایا کہ یہ احکام کیوں دیئے جارہے ہیں۔ یہ سب نے دیکھا کہ تمام تر منجنیقیں اس فوج کو دی گئی تھیں جو سکندریہ کی طرف جارہی تھیں۔
اس کے ساتھ آٹھ روز بعد سلطان ایوبی قاہرہ میں نہیں تھااور نورالدین زنگی کرک میں نہیں تھا۔ وہ دونوں سکندریہ کے مشرق میں گھوم پھر رہے تھے مگر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ دونوں کسی ملک کے حکمران اور فوجوں کے کمانڈر ہیں اور یہ وہ انسان ہیں جو صلیبیوں کے لیے سراپا دہشت بنے ہوئے ہیں۔ وہ غریب سے دوشتربان تھے جو معلوم نہیں کہاں سے آئے تھے اور کہاں جارہے تھے۔ انہوں نے ساحل پر جاکر بحیرۂ روم کی وسعت کو نظروں سے بھانپا اور ناپا۔ وہ تین چار دن میں دور دور گھوم گئے۔ سلطان ایوبی سکندریہ اور نورالدین زنگی کرک چلاگیا۔ سلطان ایوبی نے اپنے امیر البحر کو کچھ احکام دئیے اور وہ چلا گیا۔
٭      ٭      ٭
صلیبیوں کا بیڑہ مکمل خاموشی اور راز داری سے آیا۔ بیت المقدس سے صلیبیوں کی فوج چل پڑی۔ دونوں کی روانگی کے اوقات میں مطابقت تھی۔ صلیبیوں نے بڑے اچھے موسم کا انتخاب کیاتھا۔ اس موسم میں سمندر خاموش رہتا ہے۔ تلاطم اور طوفان کا خطرہ نہیں ہوتا۔ صلیبی جہازوں کے کپتانوں کو مصر کا ساحل نظر آنے لگا لیکن انہیں سلطان ایوبی کا کوئی جہازنظر نہیں آرہا تھا۔ سب سے اگلے جہاز کے کپتان نے سمندر میں ماہی گیروں کی ایک کشتی دیکھی۔ اس نے جہاز ان کے قریب کرکے اوپر سے جھک کر پوچھا… ''جنگی جہاز کہاں ہیں؟ اگر غلط بتائو گے تو تمہیں ڈبو کر مار ڈالیں گے''۔
ماہی گیروں نے کہا… ''مصر کے جہاز اس طرح نہیں رکھے جاتے۔ یہاں سے بہت دور ہیں''۔
جہاز روک کر رسہ پھینکا گیا۔ دو ماہی گیر رسے کے ذریعے جہاز پر چلے گئے۔ انہوں نے کپتان کو مصر کے جنگی جہازوں کے متعلق جو معلومات دیں، وہ یہ تھیں کہ کئی جہاز مرمت ہورہے ہیں۔ جو جہاز اچھی حالت میں ہیں وہ اتنی دور ہیں کہ سکندریہ تک پہنچتے دو دن لگیںگے کیونکہ بادبانوں اور چپوئوں کے لحاظ سے وہ کمزور اور کم رفتار ہیں۔ ماہی گیر نے جو سب سے زیادہ قیمتی بات بتائی، وہ یہ تھی کہ چونکہ سلطان ایوبی بحریہ کی طرف توجہ نہیں دیتا، اس لیے جنگی ملاح عیش وعشرت میں پڑے رہتے ہیں۔ ساحل کے ساتھ جو دیہات ہیں، وہاں چلے جاتے ہیں۔ ماہی گیروں سے مچھلیاں چھین لیتے ہیں۔
صلیبی بحریہ کے رہنما کے لیے یہ معلومات خوشخبری سے کم نہ تھیں۔ اس نے اپنا جہازروک لیا اور ایک کشتی کے ذریعے اس بیڑے کے کمانڈر کے جہاز تک گیا۔ اسے اس نے یہ معلومات دیں جو اس نے دو ماہی گیروں سے لی تھیں۔ا ن کے لیے میدان صاف تھا۔ کمانڈر نے بیڑے کو وہیں روک لیا۔ وہ شام کے بعد اندھیرے میں ساحل تک پہنچنا چاہتاتھا۔ اسے وہ جگہ بتا دی گئی تھی جہاں ساحل کے ساتھ پانی اتنا گہرا تھا کہ جہاز ریت میں پھنسے بغیر ساحل تک آسکتے تھے۔ وہاں فوج کو آسانی سے اتارا جاسکتا تھا… سکندریہ کی بندرگاہ سے ایک کشتی کھلے سمندر کی طرف چلی گئی جو بظاہر ماہی گیروں کی تھی۔ ابھی سور ج غروب نہیں ہوا تھا جب یہ کشتی بیڑے تک پہنچ گئی۔ کم وبیش اڑھائی سو جنگی جہاز سمندر میں دور دور تک بکھرے ہوئے تھے۔ ماہی گیر اپنی کشتی کو بیڑے کے درمیان لے گئے اور پوچھ کر کمانڈر کے جہاز تک پہنچ گئے۔ انہوں نے کمانڈر کو بتایا کہ سکندریہ کے اندر کوئی فوج نہیں ہے۔ صرف شہری آبادی ہے اور مصری بیڑے کے جنگی جہاز یہاں سے بہت دور ہیں… یہ ماہی گیر مسلمانوں کے جاسوس تھے۔
رات کا پہلا پہر تھا۔ جب اگلی صف کے جنگی جہاز ساحل کی طرف بڑھے اور کسی دشواری کے بغیر ساحل پر لنگر انداز ہوگئے۔ پچھلی صف کے جہاز ان کے قریب، عقب میں آئے اور لنگر ڈال دئیے۔ تیسری صف بھی قریب آگئی۔ فوج اتارنے کا انتظام غالباً یہ تھا کہ ہر ایک جہاز کو ساحل پر نہیں آنا تھا بلکہ تمام جہازوں کو ساتھ ملا کر ان میں سے فوج کو گزر کر اترنا تھا۔ سکندریہ پر خاموشی سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اطلاع کے مطابق وہاں چونکہ فوج نہیں تھی، اس لیے قبضہ مشکل نہ تھا۔ اگلے جہازوں سے جو فوج اتری، اسے سکندریہ میں داخل ہونے کا حکم دے دیاگیا اور سپاہیوں کو بتایا گیا کہ شہر ان کا اپنا ہے، کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔ سپاہی دوڑ پڑے۔ انہیں شہر کو لوٹنا تھا اور ان کی نظر عورتوں پر بھی تھی۔
جونہی سپاہیوں کا یہ ہجوم شہر کے قریب آیا، شہر کے باہر دائیں اور بائیں سے شعلے اٹھے جن سے رات روشن ہوگئی۔ یہ گھاس، لکڑیوں اور کپڑوں کے انبار تھے جن پر تیل ڈالا گیا تھا۔ ان سے روشنی کا کام لینا تھا۔ شہر کی گلیوں میں بھی مشعلیں جل اٹھیں اور مکانوں کی چھتوں سے تیروں کا مینہ برسنے لگا۔ صلیبی پیچھے کو بھاگے تو دائیں اور بائیں سے ان پر تیر برسنے لگے۔ ان کے لیے سنبھلنا مشکل ہوگیا۔ زخمیوں کی چیخ وپکار سے رات لرزنے لگی۔ ان صلیبیوں کی تعداد کم وبیش دو ہزار تھی۔ ان میں سے شاید ہی کوئی زندہ پیچھے گیا ہوگا۔ صلیبی فوج جو ابھی جہازوں میں تھی، اسے آگے آنے کا حکم ملا۔ جہازوں میں صلیبیوں کی منجنیقیں آتشیں گولے پھینکنے لگیں اور دور مار تیر بھی آنے لگے۔
سب سے پیچھے والے دو تین جنگی جہازوں میں سے شعلے اٹھے۔ صلیبی کپتانوں نے پیچھے دیکھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سمندر سے آگے کے گولے اٹھتے ہیں اور ان کے جہازوں میں آکر گرتے ہیں۔ صلیبیوں نے خوش فہمیوں میں مبتلا ہوکر جہازوں کو ہجوم کی صورت میں اکٹھا کردیا تھا اور وہ سلطان ایوبی کے پھندے میں آگئے تھے۔ دن کے وقت اگلے جہاز کو جو ماہی گیر ملے تھے، وہ علی بن سفیان کے محکمے کے آدمی تھے۔ یہ قدرتی سی بات تھی کہ سمندر میں ماہی گیر ملے تو صلیبی کپتان نے ان سے معلومات حاصل کیں۔ ماہی گیروں نے غلط معلومات دیں۔ انہوں نے صرف یہ بات ٹھیک بتائی تھی کہ مصری بیڑہ یہاں سے دور ہے۔ وہ واقعی دور تھا۔ سلطان ایوبی نے اپنے امیر البحر کو بتا دیا تھا کہ وہ سمندر پر نظر رکھے۔ کسی بھی وقت حملہ آجائے گا۔ امیر البحر نے دیکھ بھال کا اچھا انتظام کررکھا تھا۔ اسے قبل از وقت پتا چل گیا تھا کہ صلیبی بیڑہ سمندر کے وسط تک آگیا ہے۔ چنانچہ امیر البحر اپنے چند ایک جنگی جہاز جن میں آتشیں گولے پھینکنے والی منجنیقیں تھیں، ایک طرف دور لے گیا تھا۔ اس نے بادبان بھی اتار لیے تھے اور مستول بھی، تاکہ دور سے جہاز نظر نہ آسکیں۔ ان کے بجائے اس نے ایک ایک چپو پر دو دو آدمی لگا دئیے تاکہ رفتار تیزرہے۔
شام کے بعد جب صلیبی بیڑہ ساحل کے قریب گیا تو امیر البحر نے مستول بھی چڑھا دئیے اور بادبان بھی اور چپوئوںکی رفتار بھی تیز رکھی اور اس طرح وہ صلیبی بیڑے کے عقب میں عین اس وقت پہنچ گیا جب صلیبیوں نے اپنے جہاز ایک دوسرے کے ساتھ ملا دئیے تھے۔ صلیبیوں کو د وسرا دھوکہ ان ''ماہی گیروں'' نے دیا تھا جو سکندریہ سے روانہ ہوئے تھے۔ انہوں نے صلیبی کمانڈر سے کہا تھا کہ وہا ں کے جاسوس ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ سکندریہ میں کوئی فوج نہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ شہر کے ان مکانوں میں جو سمندر کی طرف تھے، وہاں صرف فوج تھی۔ شہریوں کو محفوظ حصے میں بھیج دیا گیا تھا۔
سلطان ایوبی کا امیر البحر بہت تھوڑے جہاز لے کر گیا تھا۔ انہوں نے نقصان تو بہت کیا لیکن دشمن کے کئی ایک جہاز بچ کر نکل گئے۔ دوسروں نے مقابلہ کیا۔ جلتے جہازوں نے رات کو دن بنا دیا تھا۔ اس روشنی میں سلطان ایوبی کے جہاز بھی نظر آنے لگے تھے۔ ان میں سے ایک جہاز صلیبیوں کی منجنیقوں کی زد میں آگیا۔ امیر البحر نے اپنے جہازوں کو پیچھے ہٹانا شروع کردیا کیونکہ دشمن جہازوں کی افراط کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گھیرا ڈالنے کی کوشش کررہا تھا۔ سکندریہ میں سلطان ایوبی کے جانبازوں نے جوش میں آکر ساحل پرہلہ بول دیا اور جہازوں پر آتشیں تیر پھینکنے لگے۔ یہ جانباز مصر کی فوج کے اس تیسرے حصے کے تھے جسے سلطان ایوبی نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا۔ انہیں غیر فوجی لباس میں سکندریہ میں مکانوں میں مورچہ بند کیا گیا تھا اور نہایت خاموشی سے شہریوں کو دوسرے مکانوں میں منقل کردیاگیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی عقل اور دھوکے کی جنگ لڑ رہا تھا اور کم سے کم طاقت استعمال کررہا تھا۔ اس نے ابھی خاصی نفری اپنے زیر کمان ریزرو میں رکھی ہوئی تھی۔
رات بھر یہ جنگ جاری رہی۔ سمندر میں کئی جہاز جل رہے تھے، وہاں قیامت کا منظر بنا ہوا تھا۔ صلیبی بیڑہ چونکہ زیادہ تھا بلکہ سلطان ایوبی کے جہازوں کی نسبت بہت ہی زیادہ اس لیے صلیبی جہاز تباہی سے نکل کر مسلمانوں کے جہازوں کو گھیرنے کی کوشش کررہے تھے۔ صورت گھیرے والی بن گئی تھی۔ رات کو پتا نہیں چلتا تھا کہ اپنے جہازوں کی کیفیت کیا ہے۔سلطان ا یوبی وہاں موجود تھا۔ اس نے اپنے ان جہازوں کو جنہیں اس نے محفوظہ کے طور پر رکھا ہوا تھا، حکم بھیج دیا کہ صلیبی جہازوں کو دور کا چکر کاٹ کر الجھائیں۔ رات کے پچھلے پہر باقی جہاز بھی معرکے میں شریک ہوگئے۔ اس میں بہادری تو ان ملاحوں کی تھی جو چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں اپنے جہازوں کو تیر، آتش گیر مادہ اور گولے پہنچا رہے تھے۔ اپنے جہازوں کو ڈھونڈنا بہت ہی مشکل کام تھا۔
صبح طلوع ہورہی تھی۔ جب امیر البحر ایک کشتی میں ساحل پر آیا۔ اس کے ساتھ چند ایک بحری سپاہی تھے۔ امیر البحر کے کپڑے خون سے لال تھے اور اس کی ایک ٹانگ جھلسی ہوئی تھی۔ اس کا جہاز نذرآتش ہوگیا تھا اور وہ چند ایک جوانوں کو سمندر سے نکال لایا تھا۔ اس نے سلطان ایوبی کو بڑی عجلت میں معرکے کی صورتحال بتائی جو مختصر یہ تھی کہ اس کے آدھے جہاز تباہ ہوچکے تھے لیکن صلیبیوں کو اتنا زیادہ نقصان پہنچایا جاچکا تھا کہ وہ زیادہ دیر لڑنے کے قابل نہیں تھے۔ سلطان ایوبی نے اسے بتایا کہ باقی جہازوں کو بھی بھیج دیا گیا ہے۔ یہ اقدام امیر البحر کی خواہش اور ضرورت کے عین مطابق تھا۔ اس نے سلطان ایوبی سے کہا… ''صلیبیوں کو سب سے زیادہ نقصان وہ بوجھ دے رہا ہے جو انہوں نے جہازوں میں لاد رکھا ہے۔ رسد کے علاوہ ان کے جہازوں میں فوج بھی ہے اور بعض جہازوں میں گھوڑے ہیں۔ اس بوجھ کی وجہ سے ان کے جہاز رفتار میں نہیں آتے اور گھومنے میں دیر لگاتے ہیں۔ میرے جہاز خالی ہیں''۔
امیر البحر اتنا زیادہ زخمی تھا کہ اس کا سر ڈول رہا تھا۔ سلطان ایوبی نے اپنے طبیب اور جراح کو بلایا مگر امیر البحر نے پروانہ کی۔ سلطان ایوبی کا ہیڈکوارٹر ساحل کے چٹانی علاقے میں تھا۔ وہ ایک اونچی چٹان پر کھڑے تھے۔ سورج کی پہلی کرنوں نے سمندر اور ساحل کا جومنظر دکھایا وہ ہیبت ناک تھا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی، سمندر میں جہازمست سانڈوں کی طرح سمندر کو چیر رہے تھے۔ بہت سے جہاز جل رہے تھے۔ بعض مستول ٹوٹ جانے اور بادبان بے کار ہوجانے سے ایک ہی جگہ کھڑے ہچکولے کھا رہے تھے۔سمندر میں بہت سے انسان تیرتے نظر آرہے تھے اور موجیں لاشوں کو ساحل پر پٹخ رہی تھیں، اپنے جہازوں کا کچھ پتا نہیں چلتا تھا۔ دور مغرب کی طرف سمندر سے مستولوں کے بالائی حصے ابھرے، پھر بادبان نظرا ئے۔ جہاز ایک صف میں ایک دوسرے سے دور دور معرکے کی طرف بڑھے آرہے تھے۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''تمہارے جہاز آرہے ہیں''… اس نے ادھر دیکھا، وہاں امیر البحر نہیں تھا۔
امیر البحر اپنے جہازوں کو آتا دیکھ کر سلطان کو بتائے بغیر چٹان سے اتر گیا تھا۔ سلطان ایوبی کو وہ اس وقت نظر آیا جب وہ ایک کشتی میں بیٹھ چکا تھا اور کشتی کا بادبان کھل چکا تھا۔ یہ دس چپوئوں کی کشتی تھی۔ سلطان ایوبی نے چلا کر اسے پکارا… ''سعدی! تم واپس آجائو۔ میں نے تمہاری جگہ ابوفرید کو بھیج دیا ہے''۔
امیر البحر دور نکل گیا تھا۔ اس نے بلند آواز سے کہا… ''یہ میری جنگ ہے۔ خدا حافظ''… اور اس کی کشتی دور ہی دور ہٹتی گئی پھر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
قاصد نے سلطان ایوبی کو اطلاع دی کہ سکندریہ سے شمال مشرق کی طرف تین میل دور صلیبیوں کی کچھ فوج اتر آئی ہے اور وہاں خون ریز معرکہ لڑا جارہا ہے۔ سلطان ایوبی نے وہاں جانے کے بجائے کچھ احکام جاری کردئیے اور سمندری جنگ کو دیکھتا رہا… اور اس نے یہ منظر بھی دیکھا کہ صلیبیوں کا ایک جہاز ساحل کے ذرا قریب آگیا تھا۔ سلطان ایوبی کے بیڑے کا ایک جہاز اس کے قریب آنے کی کوشش کررہا تھا۔ صلیبیوں نے تیروں کی بوچھاڑ ماری لیکن مسلمان ملاحوں نے پرواہ نہ کی۔ وہ اپنے جہاز کو صلیبی جہاز کے اتنا قریب لے آئے کہ کود کر اس میں چلے گئے اور دست بدست لڑ کر جہاز پر قبضہ کرلیا مگر یہ معرکہ اتنا سہل نہ تھا۔ جیسا بیان کیا گیا ہے۔ مسلمان بحریہ کے سرفروشوں نے خون اور جان کی بے دریغ قربانی دی۔ وہ تین تین چار چار جہازوں کے گھیرے میں لڑے۔ دشمن کے جہازوں میں کود کود کر لڑے۔ تیروں سے چھلنی ہوئے مگر اس طرح معرکے میں سے نکلنے کی نہ سوچی، جس طرح صلیبی اپنے جہاز نکالنے کی کوشش کررہے تھے۔
صلیبیوں کی کمر رات کو ہی ٹوٹ گئی تھی۔ ان کے کمانڈر صلیب کا حلف پورا کررہے تھے اور انہیں صبح تک یہ امید لڑاتی رہی کہ وہ سلطان ایوبی کی قلیل سی بحری قوت پر قابو پالیں گے لیکن اگلے دن کے پچھلے پہر تک ان کی کیفیت اتنی بگڑ چکی تھی کہ جہاز بکھر کر ادھر کو ہی جارہے تھے، جدھر سے آئے تھے۔ وہ اپنی زیادہ تر قوت مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ کرگئے تھے اور ان کی جو تھوڑی سی فوج ساحل پر اتری تھی، وہ سکندریہ سے تین چار میل دور شمال مشرق میں کچھ کٹ گئی تھی، باقی نے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ سلطان ایوبی کی فوج کا دوسرا حصہ ابھی جنگ میں شریک ہی نہیں ہوا تھا۔ سلطان ایوبی کے پاس قاصد آرہے تھے، جارہے تھے اور جب اسے یقین ہوگیا کہ صلیبی ناکام ہوگئے ہیں تو اس نے فوج کے دوسرے حصے کو ایک اور محاذ دے دیا۔ عمران کی اطلاع کے مطابق بیت المقدس کی طرف سے بھی صلیبی فوج کو آنا تھا۔ اس کے لیے نورالدین زنگی گھات میں تھا، تاہم پیش بندی کے طور پر سلطان ایوبی نے دفاع مضبوط کرلیا۔ تیسرے حصے کو جو اس نے اپنے زیرکمان ریزرو میں رکھا تھا، ان صلیبیوں کو پکڑنے پر لگا دیا جو سمندر سے نکل رہے تھے۔
سورج کی آخری کرنوں نے سلطان ایوبی کو یہ منظر دکھایا کہ صلیبیوں کے وہی جہاز نظر آرہے تھے جو جل چکے تھے اور ابھی ڈوبے نہیں تھے یا وہ جنہیں پکڑ لیا گیا تھا یا ان جہازوں کے بادبان نظر آرہے تھے جو واپس جاتے ہوئے دور ہی دور ہٹتے جارہے تھے۔ اس کی اپنی بحریہ کے جہاز جو بچ گئے تھے، ساحل کی طرف آرہے تھے۔ دیکھنے والوں نے اندازہ لگایا کہ سلطان کی آدھی بحریہ مصر پر قربان ہوگئی تھی۔ کشتیاں ساحل پر آرہی تھیں۔ ان میں اپنے بحری سپاہی آتے تھے جو زخمی تھے یا سمندر سے نکالے گئے تھے۔ ان کے جہاز تباہ ہوگئے تھے۔ ایک کشتی اس چٹان کے قریب آکے ساحل سے لگی جس پر سلطان ایوبی کھڑا تھا۔ اس میں کسی کی لاش تھی۔ سلطان ایوبی نے بلند آواز سے پوچھا… ''یہ کس کی لاش ہے؟''
         ''امیرالبحر سعدی بن سعد کی''۔ ایک ملاح نے جواب دیا۔
سلطان ایوبی دوڑ کر نیچے اترا۔ لاش سے کپڑا ہٹایا۔ اس کے امیر البحر کی لاش خون سے لال ہوچکی تھی۔ ملاحوں نے بتایا کہ امیر البحر نے ایک جہاز تک پہنچ کر بحریہ کی کمان لے لی تھی اور جنگ لڑاتے رہے۔ انہوں نے اس جہاز پر اپنی کمان کا جھنڈا چڑھا دیا تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ صلیبیوں کے چار جہازوں نے انہیں گھیر لیا۔ا ن میں سے دو تباہ ہوئے اور امیرالبحر کا جہاز بھی تباہ ہوگیا۔ اس وقت تک معرکہ ختم ہوچکا تھا… سلطان ایوبی نے امیرالبحر کی لاش کا ہاتھ چوما اور کہا… ''تم سمندر کے فاتح ہو، میں کچھ بھی نہیں''۔
اس نے جہاں یہ حکم دیا کہ دشمن کے جو جہاز پیچھے رہ گئے ہیں، ان سے سامان نکالا جائے، وہاں جذباتی لہجے میں کہا… ''تمام کشتیاں سمندر میں ڈال دو اور کسی شہید کی لاش سمندر میں نہ رہنے دو۔ انہیں یہیں دفن کرنا جہاں بحیرۂ روم کی ہوائیں ان کی قبروں کو ٹھنڈی رکھیں''۔
بحری شہیدوں کی تعداد کم نہیں تھی۔
٭      ٭      ٭
بیت المقدس سے صلیبیوں کی فوج کوچ کرچکی تھی اور آدھا راستہ طے کرآئی تھی۔ انہیں کچھ خبر نہیں تھی کہ ان کی بحریہ اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ اس کے قلب میں صلیبیوں کا مشہور جنگجو حکمران ریجنالٹ تھا۔ اس فوج کے بھی تین حصے تھے۔ ایک آگے تھا، دوسرا کچھ دور پیچھے درمیان میں اور تیسرا بہت دائیں کو ہٹ کر آرہا تھا۔ اس کی متحدہ کمان ریجنالٹ کے پاس تھی اور اسے یہ توقع تھی کہ وہ سلطان ایوبی کو بے خبری میں جالے گا۔ تصوروں میں اسے قاہرہ نظر آرہا تھا۔ گھوڑا گاڑیوں کے قافلے، رسد بھی ساتھ لا رہے تھے۔ سکندریہ سے بہت دور شمال مشرق میں ایک وسیع خطہ ریت اور مٹی کے ٹیلوں اور نشیب وفراز کا ہوا کرتا تھا۔ آٹھ صدیوں نے اس خطے کو اب ویسا نہیں رہنے دیا۔ اس کے قریب باقی علاقہ صحرا تھا اور اس صحرا میں پانی بھی تھا۔ ریجنالٹ نے ایک پڑائو وہاں کیا۔ اس کی فوج کا اگلاحصہ آگے نکل گیا تھا۔ دائیں طرف والا حصہ دور تھا۔ آدھی رات کا وقت ہوگا۔ ریجنالٹ کے کیمپ میں قیامت بپا ہوگئی۔ اس کے کچھ بھی پلے نہ پڑا کہ یہ قیامت آسمان سے ٹوٹی ہے یا اس کی اپنی فوج نے بغاوت کردی ہے۔
اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ نورالدین زنگی کی گھات میں آگیا ہے۔ زنگی نے کئی دنوں سے اپنی فوج کو ٹیلوں اور نشیب وفراز کے اس علاقے میں لاکے بٹھا رکھا تھا۔ اس نے یہ سوچا تھا کہ یہاں پانی قریب ہے، اس لیے صلیبی یہاں پڑائو کریں گے۔ صلیبی فوج کا اگلا حصہ آگے نکل گیا تو زنگی کے کمانڈروں کو مایوسی ہوئی۔ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ رات کو پڑائو پر حملہ کرنا ہے۔ وہاں پڑائو نہ ہوا۔ بہت دیر بعد انہیں دور سے گرد کے بادل نظر آئے تو وہ سمجھے کہ آندھی آرہی ہے۔ صحرائی آندھی بڑی خوفناک ہوا کرتی ہے لیکن یہ آندھی نہیں صلیبی فوج کا درمیانی حصہ تھا جو اسی جگہ آکر رک گیا، جہاں نورالدین زنگی کو توقع تھی۔ صلیبیوں نے خیمے نہ لگائے کیونکہ انہیں صبح کوچ کرنا تھا۔ جانوروں کو الگ باندھ دیا گیا اور پھر سورج ڈوب گیا۔
آدھی رات کو زنگی کے دستے جو گھات میں تھے، باہر آئے، یہ سب سوار تھے۔ انہوں نے پہلے تو اندھیرے میں تیروں کا مینہ برسایا اور جب سوئے ہوئے سپاہیوں میں بھگدڑ مچی تو سواروں نے گھوڑے سرپٹ دوڑا دئیے۔ وہ اندھا دھند برچھیاں اور تلواریں چلاتے گئے اور آگے نکل گئے۔ صلیبی سنبھلنے نہ پائے تھے کہ سواروں نے پھر ہلہ بول دیا۔ صلیبیوں کے بندھے ہوئے گھوڑوں کی رسیاں کھول دی گئیں۔ یہ سب بھاگ اٹھے۔ ریجنالٹ وہاں سے بھاگ گیا اور دائیں حصے والی فوج میں جاپہنچا۔ یہ حصہ کہیں دور پڑائو کیے ہوئے تھا۔ نورالدین زنگی اسی طرف تھا۔ اس ساری فوج کی رسد پیچھے آرہی تھی۔ زنگی نے اس کے لیے الگ دستے مقرر کررکھے تھے۔ انہوں نے صبح تک رسد پر قبضہ کرلیا۔ دائیں والا حصہ رات کو ہوشیار ہوگیا تھا۔ ریجنالٹ اسے اپنے حصے کی طرف لانے لگا کیونکہ وہ اسی جگہ کو میدان جنگ سمجھتا تھا۔ صبح کے دھندلکے میں یہ فوج چل پڑی۔ نورالدین زنگی نے عقب سے اس کے پہلو پر حملہ کردیا۔ اس کے بعد اس فوج کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ اس پر کس طرف سے حملے ہورہے ہیں۔ سلطان ایوبی کی طرح زنگی بھی جم کر نہیں لڑتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے دستوں سے حملے کراکے صلیبیوں کو بکھیرتا جارہا تھا۔
اس نے رات کو سلطان ایوبی کی طرف قاصد بھیج دیا تھا۔ ان دونوں نے سکیم پہلے ہی بنا رکھی تھی۔ زنگی کا ہر عمل اور اقدام اور دشمن کا ردعمل ان کی سکیم کے عین مطابق تھا۔ ریجنالٹ نے اپنی فوج کے اگلے حصے کو پیچھے آنے کا پیغام بھیجا۔ چار روز ریجنالٹ اور زنگی میں لامحدود وسعت میں معرکے ہوتے رہے۔زنگی نے صلیبیوں کو بکھیر لیا تھا اور ''ضرب لگائو اور بھاگو'' کے اصول پر لڑ رہا تھا۔ صلیبیوں کی فوج کا آگے والا حصہ واپس ہوا تو رات کو اس کے عقب پر حملہ ہوا۔ یہ سلطان ایوبی کے چھاپہ مار تھے۔ انہوں نے دو تین شب خون مارے اور غائب ہوگئے۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ صلیبی آمنے سامنے کی جنگ لڑنے کی کوشش کررہے تھے لیکن سلطان ایوبی انہیں کامیاب نہیں ہونے دے رہا تھا۔ یہ طریقہ آسان نہیں تھا۔ چھاپہ مار اگر ایک سو کی تعداد میں جاتے تھے تو بمشکل ساٹھ واپس آتے تھے۔ اس کے لیے خصوصی مہارت، دلیری اور تیزی کی ضرورت تھی جو سلطان ایوبی نے اپنے چھاپہ مار دستوں میں پیدا کررکھی تھی۔
جنگ بہت دور دور تک پھیل گئی۔ صلیبی فوج میں نہ جمعیت رہی، نہ مرکزیت۔ انکی رسد زنگی کے قبضے میں آگئی تھی۔ میدان جنگ میں نہ کوئی سامنا، نہ عقب۔ صلیبی اس جنگ کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے تھے جو مسلمان لڑ رہے تھے۔ پھر کیفیت یہ ہوگئی کہ جو صلیبی سپاہی بھاگ سکے، بھاگ گئے اور جن میں تاب نہ رہی، وہ ہتھیار ڈالنے لگے۔ ریجنالٹ ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے کسی اور جگہ کچھ فوج اکٹھی کرلی اور اسے یہ بھی پتا چل گیا کہ زنگی کہاں ہے۔ اس نے نہایت اچھی سکیم سے وہاں حملہ کردیا۔ یہ ایک بڑاہی سخت معرکہ تھا۔ صلیبی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔ ریجنالٹ کی چالیں اور اپنی فوج پر کنٹرول بہت اچھا تھا مگر چوتھی پانچویں رات زنگی کے شب خون مارنے والے ایک دستے کے چند ایک جانبازوں نے جان کی بازی لگا دی اور ریجنالٹ کی ذاتی خیمہ گاہ پر جا شب خون مارا۔ یہ زنگی کی سکیم کے تحت اقدام کیا گیا تھا۔ زنگی نے چھاپہ ماروں کی للکار پر حملہ کردیا۔ اس دور میں رات کے وقت لڑائی نہیں لڑی جاتی تھی۔ یہ طرح مسلمانوں نے ڈالی تھی کہ رات کو بھی حملے جاری رکھتے تھے۔
صبح طلوع ہوئی تو صلیبیوں کا سپریم کمانڈر ریجنالٹ قیدی کی حیثیت سے نورالدین زنگی کے سامنے کھڑا تھا اور زنگی اسے اپنی شرائط بتا رہا تھا۔ یہ صلیبی کمانڈر ہر شرط ماننے پر آمادہ تھا لیکن بات جب بیت المقدس پر آئی تو ریجنالٹ نے انکار کردیا۔ زنگی نے اسے کہا تھا کہ بیت المقدس ہمارے حوالے کردو اور آزاد ہوجائو… شام تک سلطان ایوبی بھی آگیا۔ ریجنالٹ کو پورے احترام کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ سلطان ایوبی اسے بغل گیر ہوکر ملا۔
         ''آپ عظیم سپاہی ہیں''۔ ریجنالٹ نے سلطان ایوبی سے کہا۔
         ''یوں کہو کہ اسلام عظیم مذہب ہے''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا… ''سپاہی وہی عظیم ہوتے ہیں جن کا مذہب عظیم ہوتا ہے''۔
         ''محترم ریجنالٹ نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ان کا بحری بیڑہ نہیں آیا تھا؟'' نورالدین زنگی نے سلطان ایوبی سے کہا… ''انہیں صحیح جواب تم ہی دے سکتے ہو۔ میں تو یہاں تھا''۔
         ''آپ کا بحری بیڑہ پورے طمطراق سے آیا تھا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اور واپس بھی چلا گیا ہے۔ آپ کے بہت سے جہاز سمندر کی تہہ میں ہوں گے اور جو ڈوبے نہیں، ان کے جلے ہوئے ڈھانچے سمندر پر تیر رہے ہیں جو فوج جہازوں سے اتر آئی تھی، وہ واپس نہیں جاسکی۔ ہم نے آپ کی تمام لاشیں پورے احترام سے دفن کردی ہیں''… سلطان ایوبی اسے جنگ کی صورتحال سنا رہا تھا کہ ریجنالٹ کی آنکھیں اور منہ کھلتا جارہا تھا۔ اسے یقین بھی نہیں آرہا تھا کہ یہ روئیداد سچی ہے۔
         ''اگریہ سچ ہے تو آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہوا؟''… ریجنالٹ نے پوچھا۔
         ''یہ راز اس روز آپ پر فاش کروں گا جس روز فلسطین سے صلیب کا آخری سپاہی بھی نکل جائے گا''… نورالدین زنگی نے کہا… ''آپ کی یہ شکست آخری نہیں، کیونکہ آپ اس سرزمین سے نکلنے پر آمادہ نظر نہیں آتے''۔
         ''میں آپ کو اپنے علاقے دے دوں گا''۔ ریجنالٹ نے کہا… ''مجھے رہا کردیں۔ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ بھی کروں گا۔ آپ کی سلطنت بہت وسیع ہوجائے گی''۔
         ''ہمیں اپنی سلطنت کی ضرورت نہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''ہمیں خدا کی سلطنت قائم کرنی ہے۔ اسلام کی سلطنت جس کی وسعت کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ آپ کا مقصود اسلام کی بیخ کنی ہے جو ممکن نہیں۔ آپ نے فوجیں استعمال کردیکھی ہیں۔ بحری بیڑہ بھی آزمالیا ہے۔ اپنی بیٹیوں کو استعمال کردیکھا ہے۔ آپ نے ہماری قوم میں غدار بھی پیدا کیے ہیں۔ گزشتہ ایک صدی میں آپ نے کتنی کامیابی حاصل کی ہے؟''
         ''کیا یہ میں آپ کو یاد دلائوں کہ ہم نے اسلام کو کہاں کہاں سے نکالا ہے؟'' ریجنالٹ نے کہا… ''اسلام تو بحیرۂ روم کے پاس پہنچ گیاتھا۔ سپین سے اسلام کی پسپائی کیوں ہوئی؟ روم آپ کے ہاتھ سے کیوں نکلا؟ سوڈان آپ کا کیوں دشمن ہوا؟ صرف اس لیے کہ ہم نے تمہارے اسلام کے محافظوں کو خرید لیا تھا۔ آج بھی تمہارے حکمران بھائی ہمارے زر خرید غلام ہیں۔ ان کی ریاستوں میں مسلمان رہ گئے ہیں، اسلام ختم ہوگیا ہے''۔
         ''ہم وہاں اسلام کو زندہ کریں گے دوست!''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔
         ''آپ خواب دیکھ رہے ہیں، صلاح الدین ایوبی!'' ریجنالٹ نے کہا… ''آپ دونوں کب تک زندہ رہیں گے؟ کب تک لڑنے کے قابل رہیں گے؟ اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے؟ میں آپ دونوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ سچے دل سے اپنے مذہب کے پاسبان اور بہی خواہ ہیں لیکن آپ کی قوم میں مذہب کو نیلام کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اورہم خریدار ہیں۔ اگر آپ ہمارے ساتھ جنگ وجدل کے بجائے اپنی قوم کو زرپرستی، لذت پرستی اور تعیش پسندی سے بچانے کی مہم چلائیں تو ہم یہاں ایک دن نہ ٹھہر سکیں گے مگر میرے دوستو! آپ اس مہم میں کامیاب نہیں ہوں گے جس کی وجہ یہ ہے کہ عیاشی آپ کی قوم میں نہیں آئی بلکہ قوم کے سربراہ اورحکمران عیاش ہوگئے ہیں۔ اس حقیقت سے آپ چشم پوشی نہ کریں کہ جو برائی حکمرانوں کی طرف سے شروع ہوتی ہے وہ قوم میں رواج کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ اسی لیے ہم نے آپ کے حکمرانوں کو اپن یجال میں پھانسا ہے اور میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کے مجھے قتل کردیں۔ مجھ جیسے چند اور صلیبی حاکموں کو قتل کردیں، اسلام کو بہرحال ختم ہونا ہے۔ ہم نے جس مرض کا زہر آپ کی قوم کی رگوں میں ڈال دیا ہے، وہ بڑھے گا، کم نہیں ہوگا''۔
وہ ایسی حقیقت بیان کررہا تھا جس سے نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی انکار نہیں کرسکتے تھے۔ تاہم وہ صلیبیوں پر بہت بڑی فتح حاصل کرچکے تھے اور ایک صلیبی بادشاہ جو صلیبیوں کا سپریم کمانڈر تھا، ان کے پاس جنگی قیدی تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے قیدی ہاتھ آئے تھے۔ یہ صرف ایک جاسوس کا کارنامہ تھا جو عکرہ سے اس حملے کی خبر بروقت لے آیا تھا۔
٭      ٭      ٭
ریجنالٹ اور دوسرے تمام جنگی قیدیوں کو نورالدین زنگی کرک لے گیا اور سلطان ایوبی اس سے رخصت ہوکر قاہرہ چلا گیا۔ اس نے سوچا تک نہ تھا کہ وہ ا ب نورالدین زنگی سے کبھی نہیں مل سکے گا۔ وہ اس مسرت کے ساتھ قاہرہ گیا کہ زنگی ریجنالٹ جیسے قیمتی قیدی کو بڑی سخت شرائط منوائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ نورالدین زنگی نے بھی ذہن میں کچھ منصوبے بنائے ہوں گے مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مارچ ١١٧٤ء کے ابتدائی دن تھے کہ بغداد کے کسی علاقے میں شدید زلزلہ آیا جس نے چھ سات دیہات کو تباہ کردیا۔ بغداد میں بھی نقصان ہوا۔ مورخوں نے اسے تاریخ کا سب سے زیادہ تباہ کن زلزلہ کہا ہے۔ نورالدین زنگی کے دل میں اپنے عوام کے ساتھ اتنی محبت تھی کہ ان کی امداد کے احکام جاری کرنے کے بجائے خود کرک سے چل پڑا۔ وہ ان کی دستگیری اپنی نگرانی میں کرنا چاہتا تھا، ویسے بھی اسے کرک سے جانا تھا۔ بغداد اور اردگرد کے حالات اچھے نہیں تھے۔ وہ کرک سے ریجنالٹ اور دوسرے صلیبی قیدیوں کو بھی ساتھ لیتا گیا۔
بغداد پہنچ کر اس نے سب سے پہلے زلزلے کا شکار ہونے والے لوگوں کی طرف توجہ دی۔ دارالخلافے سے باہر رہنے لگا۔ وہ دل وجان سے اپنے لوگوں کی مدد کرتا رہا۔ جہاں رات آتی وہیں رک جاتا۔ اس نے کھانے کی پروا نہ کی کہ کیسا ملتا ہے اور کس کے ہاتھ کا پکا ہوتا ہے۔ اسے تباہ حال لوگوں کی خوش حالی کا غم کھائے جارہا تھا۔ اپریل کے آخر تک اس نے تمام متاثرین کو آباد کردیا۔ جب ذرا فرصت ملی تو اس نے اپنے طبیب کو بتایا کہ وہ اپنے گلے کے اندر درد محسوس کرتا ہے۔ طبیب نے دوا دارو کیا لیکن حلق میں سوزش بڑھتی گئی۔ طبیبوں نے بہت علاج کیا لیکن مرض کا یہ عالم ہوگیا کہ وہ بات کرنے سے بھی معذور ہوگیا اور مئی ١١٧٤ کے پہلے ہفتے میں خاموشی سے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔
یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ زنگی کو خناق کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا لیکن بعض مورخوں نے وثوق سے لکھا ہے کہ زنگی کو حسن بن صباح کے فدائیوں نے زہر دیا تھا۔ ان دنوں جب زنگی زلزلے سے تباہ کیے ہوئے دیہات میں بھاگتا دوڑتا رہتا اور اس کے کھانے کے اوقات اور پکانے کے طورطریقے بے قاعدہ ہوگئے تھے۔فدائیوں نے اسے کھانے میں ایسا زہر دینا شروع کردیا تھا جس کا ذائقہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ یہ زہر حلق کی ایسی سوزش کا باعث بنا، جسے طبیب سمجھ ہی نہ سکے۔ جنرل محمد اکبر خان (رنگروٹ) نے اپنی انگریزی کتاب ''گوریلا وارفیئر'' میں کئی بڑے بڑے اور مستند مورخوں کے حوالے سے اسی کی تصدیق کی ہے کہ نورالدین زنگی فدائیوں کا شکار ہوا تھا۔
زنگی کوئی وصیت نہ کرسکا۔ سلطان ایوبی کو کوئی پیغام نہ بھیج سکا۔ سلطان ایوبی کو اس وقت اطلاع پہنچی جب زنگی دفن ہوچکا تھا۔ دوسرے ہی دن بغداد سے ایک اور قاصد یہ اطلاع لے کے آیا کہ نورالدین زنگی کی وفات کے ساتھ ہی موصل، حلب اور دمشق کے امراء نے خودمختاری کا اعلان کردیا ہے ا ور سلطان ایوبی کو یہ اطلاع بھی ملی کہ بغداد کے امراء وزاء نے نورالدین زنگی کے بیٹے الملک الصالح کو جس کی عمر صرف گیارہ سال تھی، سلطنت اسلامیہ کا خلیفہ مقرر کردیاہے۔ سلطان ایوبی سمجھ گیا کہ یہ امراء نابالغ خلیفہ کو کس راستے پر ڈالیں گے اور وہکیا گل کھلائیں گے۔
سلطان ایوبی نے علی بن سفیان کو بلایا اور کہا… ''تم نے پانچ مہینے گزرے، مجھے اطلاع دی تھی کہ عکرہ میں اپنا ایک جاسوس شہید ہوگیا اور دوسرا پکڑا گیا ہے تو میرا دل بیٹھ گیا تھا اور مجھے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے صلیبیوں کا یہ سال دنیائے اسلام کے لیے اچھا نہیں ہوگا… بیٹھ جائو۔ میری باتیں غورسے سنو۔ اب ہمیں اپنے بھائیوں کے خلاف لڑنا پڑے گا''۔

No comments:

Post a Comment