Wednesday 1 July 2015

داستان ایمان فروشوں کی جلد اول قسط نمبر 4 ساتویں لڑکی جب سلطان کو قتل کرنے آی ایڈمن شہزادی :دستک پیج

ساتویں لڑکی
جب صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے آئی
         صلاح الدین ایوبی کے دور کے واقع نگاروں کی تحریروں میں ایک شخص سیف اللہ کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے کہ اگر کسی انسان نے سلطان ایوبی کی عبادت کی ہے تو وہ سیف اللہ تھا۔ سلطان ایوبی کے گہرے دوست اور دستِ راست بہائوالدین شداد کی اس ڈائری میں جو آج بھی عربی زبان میں محفوظ ہے ، سیف اللہ کا ذکر ذرا تفصیل ہے ملتا ہے ۔ یہ شخص جس کا نام کسی باقاعدہ تاریخ میں نہیں ملتا ، صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد سترہ سال زندہ رہا ۔واقع نگار لکھتے ہیں کہ ا س نے عمر کے یہ آخری سترہ سال سلطان ایوبی کی قبر کی مجاوری میں گزارے تھے۔ اس نے وصیت کی تھی کہ وہ مر جائے تو اسے سلطان کے ساتھ دفن کیا جائے ، مگر سیف اللہ کی کو ئی حیثیت نہیں تھی ۔ وہ ایک گمنام انسان تھا ، جسے عام قبرستان میں دفن کیا گیا اور وہ وقت جلدی ہی آگیا کہ اس قبرستان پر انسانوں نے بستی آباد کر لی اور قبرستان کا نام و نشان مٹا ڈالا ۔
         تاریخی لحاظ سے سیف اللہ کی اہمیت یہ تھی کہ وہ سمندر پار سے صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے آیا تھا ۔ اُس وقت اس کا نام میگناناماریوس تھا ۔ اُس نے اسلام کا صرف نام سنا تھا ۔ اسے کچھ علم نہیں تھا کہ اسلام کیسا مذہب ہے ۔ صلیبیوں پے پروپیگنڈے کے مطابق اسے یقین تھا کہ اسلام ایک قابلِ نفرت مذہب اور مسلمان ایک قابلِ نفرت فرقہ ہے جو عورتوں کا شیدائی اور انسانی گوشت کھانے کا عادی ہے ۔ لہٰذا میگناناماریوس جب کبھی مسلمان کا لفظ سنتا تھا تو وہ نفرت سے تھوک کر دیا کرتا تھا ۔ وہ بے مثال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب صلاح الدین ایوبی تک پہنچا تو میگناناماریوس قتل ہو گیا اور اس کے مُردہ وجود سے سیف اللہ نے جنم لیا ۔
         تاریخ میں ایسے حکمرانوں کی کمی نہیں، جنہیں قتل کیا گیا یا جن پر قاتلانہ حملے ہوئے ، لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی تاریخ کی اُن معدود ے چند شخصیتوں میں سے ہے ، جسے قتل کرنے کی کوششیں دشمنوں نے بھی کیں اور اپنوں نے بھی ، بلکہ اپنوں نے اسے قتل کرنے کی غیروں سے زیادہ سازشیں کیں۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ سلطان ایوبی کی داستانِ ایمان فروز کے ساتھ ساتھ ایمان فروشوں کی کہانی بھی چلتی ہے۔ اسی لیے صلاح الدین ایوبی نے بارہا کہا تھا ۔ '' تاریخ اسلام وہ وقت جلدی دیکھے گی ، جب مسلمان رہیں گے تو مسلمان ہی لیکن اپنا ایمان بیچ ڈالیں گے اور صلیبی ان پر حکومت کریں گے ''۔
         آج ہم وہ وقت دیکھ رہے ہیں ۔
         سیف اللہ کی کہانی اُس وقت سے شروع ہوتی ہے ، جب سلطان ایوبی نے صلیبیوں کا متحد بیڑہ بحیرئہ روم میں نذرِ آب و آتش کیا تھا۔ ان کے کچھ بحری جہاز بچ کر نکل گئے تھے ۔ سلطان ایوبی بحیرئہ روم کے ساحل پر اپنی فوج کے ساتھ موجود رہا اور سمندرمیں سے زندہ نکلنے والے صلیبیوں کو گرفتار کرتا رہا ۔ ان میں سات لڑکیاں بھی تھیں جن کا تفصیلی ذکر آپ پڑھ چکے ہیں ۔ مصر میں سلطان کی سوڈانی سپاہ نے بغاوت کر دی جسے سلطان نے دبا لیا ۔ اُسے سلطان زنگی کی بھیجی ہوئی کمک بھی مل گئی ۔ وہ اب صلیبیوں کے عزائم کو ختم کرنے کے منصوبے بنانے لگا۔
         بحیرئہ روم کے پار روم شہر کے مضافات میں صلیبی سربراہوں کی کانفرنس ہو رہی تھی ۔ ان میں شاہ آگسٹس تھا،شاہ ریمانڈ اور شہنشائی ہفتم کا بھائی رابرٹ بھی ۔ اس کانفرنس میں سب سے زیادہ قہر و غضب میں آیا ہوا ایک شخص تھا جس کا نام ایملرک تھا ۔ وہ صلیبیوں کے اس متحدہ بیڑے کا کمانڈر تھا جو مصر پر فوج کشی کے لیے گیا تھا مگر صلاح الدین ایوبی ان پر ناگہانی آفت کی طرح ٹوٹ پڑا اور اس بیڑے کے ایک بھی سپاہی کو مصر کے ساحل پر قدم نہ رکھنے دیا ۔ مصر کے ساحل پر جو صلیبی پہنچے ، وہ سلطان ایوبی کے ہاتھ میں جنگی قیدی تھے۔صلیبیوں کی کانفرنس میں ایملرک کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ اس کا بیڑہ غرق ہوئے پندرہ دِن گزر گئے تھے۔ وہ پندرہویں دن اٹلی کے ساحل پر پہنچا تھا ۔ سلطان ایوبی کے آتشیں تیر اندازوں نے اس کے جہاز کے بادبان اور مستول جلا ڈالے تھے۔ یہ تو اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے ملاحوں اور سپاہیوں نے آگ پر قابو پا لیا تھا اور وہ جہاز کو بچا لے گئے تھے مگر بادبانوں کے بغیر جہاز سمندر پر ڈولتا رہا۔ پھر طوفان آگیا۔اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں رہی تھی ۔ بہت سے کچے کھچے جہاز اور کشتیاں اس طوفان میں غرق ہوگئی تھیں ۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ ایملرک کا جہاز ڈولتا، بھٹکتا ، ڈوب ڈوب کر اُبھرتا اٹلی کے ساحل سے جا لگا ۔ اس میں اس کے ملاحوں کابھی کمال شامل تھا ۔ انہوں نے چپوئوں کے زور پر جہاز کو قابومیں رکھاتھا ۔
         ساحل پر پہنچتے ہی اس نے ان تمام ملاحوں اور سپاہیوں کے بے دریغ انعام دیا ۔ صلیبی سربراہ وہیں اس کے منتظر تھے۔ وہ اس پر غور کرنا چاہتے تھے کہ انہیں دھوکہ کس نے دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ شک سوڈانی سالار ناجی پر ہی ہو سکتا تھا ۔اسی کے خط کے مطابق انہوں نے حملے کے لیے بیڑہ روانہ کیا تھا مگر ان کے ساتھ ناجی کا تحریری رابطہ پہلے بھی موجود تھا ۔ انہوں نے ناجی کے اس خط کی تحریرپہلے دو خطوں سے ملائی تو انہیں شک ہوا کہ یہ کوئی گڑبڑ ہے ۔ انہوں نے قاہرہ میں جاسوس بھیج رکھے تھے مگر ان کی طرف سے بھی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی ۔ انہیں یہ بتانے والا کوئی نہ تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ناجی اور اس کے سازشی سالاروں کو خفیہ طریقے سے مروا دیا اور رات کی تاریکی میں گمنام قبروں میں دفن کر دیا تھا اور صلیبی سربراہوں اور بادشاہوں کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ جس خط پر انہوں نے بیڑہ روانہ کیا تھا ، وہ خط ناجی کا ہی تھا ، مگر حملے کی تاریخ سلطان ایوبی نے تبدیل کر کے لکھی تھی ۔ جاسوسوں کو ایسی معلومات کہیں سے بھی نہیں مل سکتی تھیں۔
         یہ کانفرنس کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی ۔ ایملرک کے منہ سے بات نہیں نکلتی تھی ۔ وہ شکست خوردہ تھا ۔ غصے میں بھی تھا اور تھکا ہوا بھی تھا ۔ کانفرنس اگلے روز کے لیے ملتوی کر دی گئی تھی ……رات کے وقت یہ تمام سربراہ شکست کا غم شراب میں ڈبو رہے تھے ۔ایک آدمی اس محفل میں آیا ۔ اسے صرف ریمانڈ جانتا تھا ۔ وہ ریمانڈ کا قابلِ اعتماد جاسوس تھا ۔ وہ حملے کی شام مصر کے ساحل پر اُترا تھا ۔ اس سے تھوڑی ہی دیر بعد صلیبیوں کا بیڑہ آیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے یہ بیڑہ سلطان ایوبی کی قلیل فوج کے ہاتھوں تباہ ہوا تھا ۔
         یہ جاسوس مصر کے ساحل پر رہا اور اس نے بہت سی معلومات مہیا کر لی تھیں ۔ ریمانڈ نے اس کا تعارف کرایا تو سب اس کے گرد جمع ہو گئے ۔ اس جاسوس کو معلوم تھا کہ صلیبی سربراہوں نے سلطان ایوبی کو قتل کرانے کیلئے رابن نام کا ایک ماہر جاسوس سمندر پار بھیجاتھا اور اس کی مدد کے لیے پانچ آدمی اور سات جوان اور خوبصورت لڑکیاں بھیجی گئی تھیں ۔ اس جاسوس نے بتایا کہ رابن زخمی ہونے کا بہانہ کر کے صلاح الدین ایوبی کے کمیپ میں پہنچ گیا تھا ۔اس کے پانچ آدمی تاجروں کے بھیس میں تھے۔ ان میں کرسٹوفر نام کے ایک آدمی نے ایوبی پر تیر چلایا مگر تیر خطا گیا ۔ پانچوں آدمی پکڑے گئے اور ساتوں لڑکیاں بھی پکڑی گئیں۔ انہوں نے کہانی تو اچھی گھڑلی تھی ۔ سلطان ایوبی نے لڑکیوں کو پناہ میں لے لیا اور پانچوں آدمی کو چھوڑ دیا تھا ، مگر ایوبی کا ماہر سراغ رساں جس کا نام علی بن سفیان ہے ،اچانک آگیا ۔ اس نے سب کو گرفتار کر لیا اور اور پانچ میں سے ایک آدمی کو سب کے سامنے قتل کر اکے دوسروں سے اقبالِ جرم کروالیا۔ جاسوس نے کہا ……'' میں نے اپنے متعلق بتایا تھا کہ ڈاکٹر ہوں، اس لیے سلطان نے مجھے زخمیوں کی مرہم پٹی کی ڈیوٹی دے دی ۔ وہیں مجھے یہ اطلاع ملی کہ سوڈانیوں نے بغاوت کی تھی جو دبالی گئی ہے اور سوڈانی افسروں اور لیڈروں کو ایوبی نے گرفتار کر لیا ہے ۔ رابن ، چارآدمی اور چھ لڑکیاں ایوبی کی قید میں ہیں ، لیکن ابھی تک ساحل پر ہیں ۔ ساتویں لڑکی جو سب سے زیادہ ہوشیار ہے ، لاپتہ ہے ۔ اُس کا نام موبینا ارتلاش ہے ، موبی کہلاتی ہے ۔ ایوبی بھی کیمپ میں نہیں ہے اورر اس کا سراغ رساں علی بن سفیان بھی وہاں نہیں ہے ۔میں بڑی مشکل سے نکل کر آیا ہوں ۔ بڑی زیادت اُجرت پر تیز رفتار کشتی مل گئی تھی ۔ میں یہ خبر دینے آیا ہوں کہ رابن ، اس کے آدمی اور لڑکیاں موت کے خطرے میں ہیں ۔ مردوںکا فکر ہمیں نہیں کرنا چاہیے ، لڑکیوں کا بچانا لازمی ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ سب جوان ہیں اور چنی ہوئی خوبصورت ہیں ۔ مسلمان ان جو حال کر رہے ہوں گے ، اس کا آپ تصور کر سکتے ہیں ''۔
         ''ہمیں یہ قربانی دینی پڑے گی ''……شاہ آگسٹس نے کہا۔
         '' اگر مجھے یقین دلا دیا جائے کہ لڑکیوں کو جان سے مار دیا جائے گا تو میں یہ قربانی ینے کیلئے تیاری ہوں ''…… ریمانڈ نے کہا…… '' مگر ایسا نہیں ہوگا، مسلمان اس کے ساتھ وحشیوں کا سلوک کر رہے ہوں گے ۔ لڑکیاں ہم پر لعنت بھیج رہی ہوں گی ، میں انہیں بچانے کی کوشش کروں گا ''۔
         ''یہ بھی ہو سکتا ہے ''……رابرٹ نے کہا …… '' کہ مسلمان ان لڑکیوں کے ساتھ اچھا سلوک کر کے ہمارے خلاف جاسوسی کیلئے استعمال کرنے لگیں ۔ بہر حال ہمارا یہ فرض ہے کہ انہیں قید سے آزاد کروائیں ۔ میں اس کے لیے آپنا آدھا خزانہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہوں ''۔
         '' یہ لڑکیاں صرف اس لیے قیمتی نہیں کہ یہ لڑکیاں ہیں ''…… جاسوس نے کہا…… '' وہ دراصل تربیت یافتہ ہیں ۔ اتنے خطرناک کام کے لیے ایسی لڑکیاں ملتی ہی کہاں ہیں ۔ آپ کسی جوان لڑکی کو ایسے کام کیلئے تیار نہیں کر سکتے کہ وہ دشمن کے پاس جا کر اپنا آ پ دشمن کے حوالے کر دے۔دشمن کی عیاشی کا ذریعہ بنے اور جاسوس اور تخریب کاری کرے ۔ اس کام میں عزت تو سب سے پہلے دینی پڑتی ہے اوریہ خطرہ توہروقت لگا رہتا ہے کہ جوں ہی دشمن کو پتہ چلے گا کہ یہ لڑکی جاسوس ہے تو اسے اذیتیں دی جائیں گی ،پھر اسے جان سے مار دیا جاگے گا ۔……ان لڑکیوں کو ہم نے زرِ کثیر صرف کرکے حاص کیا ۔ پھر ٹریننگ دی تھی اور انہیں بڑی محنت سے مصر اور عرب کی زبان سکھائی تھی ۔ ایک ہی بار تجربہ کار لڑکیوں کو ضائع کرنا عقل مندی نہیں ''۔
         '' کیا تم کہہ سکتے ہو کہ لڑکیوںکو ایوبی کے کیمپ سے نکالا جا سکتا ہے ؟'' ……آگسٹس نے پوچھا ۔
         '' جی ہاں !''…… جاسوس نے کہا…… '' نکالاجا سکتا ہے ؟''…… اس کے لیے غیر معمولی طور پر دلیر اور پختہ کار آدمیوں کی ضرورت ہے مگر یہ بھی وہ سکتا ہے کہ وہ ایک دو دنوں تک رابن ، اس کے چار آدمیوں اور لڑکیوں کے قاہرہ  جا ئیں ۔ وہاڈ سے نکلان۔وہاں سے نکالنا بہت ہی مشکل ہوگا ۔ اگر ہم وقت ضائع نہ کریں تو ہم انہیں کیمپ میں ہی لے جائیں گے ۔ آپ مجھے بیس آدمی دے دیں۔ میں ان کی رہنمائی کروں گا ، لیکن آدمی ایسے ہوں جو جان پر کھیلنا جانتے ہوں ''۔
         '' ہمیں ہر قیمت پر ان لڑکیوں کو واپس لانا ہے ''…… ایملرک نے گرج کر کہا ۔ اس پر بحیرئہ روم میں جو بیتی تھی ، اس کا وہ انتقام لینے کو پاگل ہوا جا رہا تھا ۔ وہ صلیبیوں کے متحدہ بیڑے اور اس بیڑے میں سوار لشکر کا سپریم کمانڈر بن کراس اُمید پر گیاتھا کہ مصر کی فتح کا سہرا اس کے سر بندھے گا ، مگر صلا ح الدین ایوبی نے اسے مصر کے ساحل کے قریب بھی نہ جانے دیا ۔ وہ جلتے ہوئے جہاز میں زندہ جل جانے سے بچا تو طوفان نے گھیر لیا ۔ اب بات کرتے اس کے ہونٹ کانپتے تھے اور وہ زیادہ تر باتیں میز پر مکے مار کر یا اپنی ران پرزورزور سے ہاتھ مار کر اپنے جذبات کااظہار کر رہا تھا ۔ اس نے کہا ……'' میں لڑکیوں کو بھی لائوں گا اور صلاح الدین ایوبی کو قتل بھی کروائوں گا ۔ میں انہی لڑکیوں کو مسلمانوں کی سلطنت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے استعمال کروں گا ''۔
         '' میں سچے دل سے آپ کی تائید کرتا ہوں شاہ ایملرک !''…… ریمانڈ نے کہا …… '' ہمیں تربیت یافتہ لڑکیوں کو اتنی آسانی سے ضائع نہیںکرنا چاہیے نہ ہم کریں گے۔ آپ سب کواچھی طرح معلوم ہے کہ شام کے حرموں میں ہم کتنی لڑکیاں داخل کر چکے ہیں ۔ کئی مسلمان گورنر اور امیر ان لڑکیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ بغداد میں یہ لڑکیاں اُمراء کے ہاتھوں ایسے متعدد افراد کو قتل کراچکی ہیں جو صلیب کے خلاف نعرہ لے کر اُٹھے تھے۔ مسلمانوں کی خلافت کو ہم نے عورت اور شراب سے تین حصوںمیں تقسیم کر دیا تھا ۔ ان میں اتحاد نہیں رہا۔ وہ عیش و عشرت میں غرق ہوتے جارہے ہیں ۔ صرف دو آدمی ہیں جو اگر زندہ رہے تھے ہمارے لیے مستقل خطرہ بنے رہیں گے ۔ ایک نورالدین زنگی اور دوسرا صلاح الدین ایوبی ۔ اگر ان دونوں میں سے ایک بھی زیادہ دیر تک زندہ رہا تو ہمارے لیے اسلام کہ ختم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر صلاح الدین ایوبی نے سوڈانیوں کی بغاوت دبالی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص اُس حد سے زیادہ خطرناک ہے ، جس حد تک ہم اسے سمجھتے رہے ہیں ۔ ہمیں میدانِ جنگ سے ہٹ کر تخریب کاری کا محاذ بھی کھولنا پڑے گا ۔ مسلمانوں میں تفرقہ اور بے اطمینانی پھیلانے کے لیے ہمیں ان لڑکیوں کی ضرورت ہے ''۔
         '' ہمیں اپنے کامیاب تجربوں سے فائدہ اُٹھانا چاہیے ''…… لوئی ہفتم کے بھائی رابرٹ نے کہا……'' عرب میں ہم مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا چکے ہیں ۔ مسلمان عورت، شراب اور دولت سے اندھا ہو جاتا ہے۔ مسلمان کو مارنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے مسلمان کے ہاتھوں مروائو۔ مسلمان کو ذہنی عیاشی کا سامان مہیا کردو تو وہ اپنے دین اور ایمان سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ تم مسلمان کا ایمان آسانی سے خرید سکتے ہو ''……اس نے عرب کے کئی امراء اور وزراء کی مثالیں دیں جنہیں صلیبیوں نے عورت، شراب اور دولت سے خرید لیا تھا اور انہیں اپنا درپردہ دوست بنا لیا تھا ۔
         کچھ دیر مسلمانوں کی کمزوریوں کے متعلق باتیں ہوئیں پھر لڑکیوں کو آزاد کرانے کے عملی پہلوئوں پر غور ہوا۔ آخریہ طے پا یا کہ بیس نہایت دلیر آدمی اس کام کے لیے روانہ کیے جائیں اور وہ اگلی شام تک روانہ ہوجائیں ۔ اسی وقت چار پانچ کمانڈروں کو بلا لیاگیا ۔ انہیں اصل مقصد او مہم بتا کر کہا گیاکہ بیس آدمی منتخب کریں۔ کمانڈروں نے تھوڑی دیر اس مہم کے خطروں کے متعلق بحث مباحثہ کیا ۔ ایک کمانڈر نے کہا …… '' ہم پہلے ہی ایک ایسی فورس تیار کر رہے ہیں جو مسلمانوں کے کیمپوں پر شب خون مارا کرے گی اور ان کی متحرک فوج پر بھی رات کو حملے کر کے پریشان کرتی رہے گی۔ اس فورس کے لیے ہم نے چند ایک آدمی منتخب کیے ہیں ''۔
         ' ' لیکن یہ آدمی سو فیصد قابلِ اعتماد ہونے چاہئیں ''… آگسٹس نے کہا ۔'' وہ ہماری تمہاری نظروں سے اوجھل ہو کر ہی کام کریں گے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ نہ کریں اور واپس آ کر کہیں کہ وہ بہت کچھ کر کے آئے ہیں ''۔
         '' آپ یہ سن کر حیران ہوں گے'' …… ایک کمانڈر نے کہا ……'' کہ ہماری فوج میں ایسے سپاہی بھی ہیں جنہیں ہم نے جیل خانوں سے حاصل کیا ہے ، یہ ڈاکو ،چور اور رہزن تھے۔ انہیں بڑی بڑی لمبی سزائیں دی گئی تھیں ۔ انہیں جیل خانوں میں ہی مرنا تھا ۔ ہم نے ان سے بات کی تو وہ جو ش و خروش سے فوج میں آگئے ۔ آپ کو شاید یہ معلوم کرکے بھی حیرت ہو کہ ناکام حملے میں ان سزایافتہ مجرموں نے بڑی بہادری سے کئی جہاز بچائے ہیں …… میں لڑکیوں کو مسلمانوں سے آزاد کرنے کی مہم میں ایسے تین آدمی بھیجوں گا ''۔
         مورخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں عیش و عشرت کا رحجان بڑھ گیا اور اتحاد ختم ہو رہا تھا ۔ عیسائیوں نے مسلمانوں کو اخلاقی تباہی تک پہنچانے میں ذہنی عیاشی کا ہر سامان مہیا کیا …… اب انہیں یہ توقع تھی کہ مسلمانوں کو ایک ہی حملے میں ختم کر دیں گے، چنانچہ ان کے خلاف عیسائی دُنیا میں نفرت کی طوفانی مہم چلائی گئی اور ہر کسی کو اسلام کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی ۔ اس کے جواب میں معاشرے کے ہر شعبے کے لوگ صلیبی لشکر میں شامل ہونے لگے۔ ان میں پادری بھی شامل ہوئے اور عادی مجرم بھی گناہوں سے توبہ کر کے مسلمانوں کے خلاف مسلح ہو گئے ۔ بعض ملکوں کے جیل خانوں میں جو مجرم لمبی قید کی سزائیں بھگت رہے تھے ، وہ بھی فوج میں بھرتی ہوگئے ۔ ان مجرموں کے متعلق عیسائیوں کا تجربہ غالباً اچھا تھا ، جس کے پیش نظر ایک کمانڈر نے لڑکیوں کو آزاد کرانے اور صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے کے لیے قیدی مجرموں کا انتخا ب کیا تھا ۔
         صبح تک بیس انتہائی دلیر اور ذہین آدمی چن لیے گئے ۔ ان میں میگناناماریوس بھی تھا جسے روم کے جیل خانے سے لایا گیا تھا ۔ اس جاسوس کوجو ڈاکٹر کے بہروپ میں سلطان ایوبی کے کیمپ رہا اور فرار ہو کر آیا تھا ، اس کمانڈو پارٹی کا کمانڈر اور گائیڈ مقرر کیا گیا ۔ ا س پارٹی کو یہ مشن دیاگیا کہ لڑکیوں کو مسلمانوں کی قید سے نکالنا ہے ۔ اگر رابن اور اس کے چار ساتھیوں کو بھی آزاد کرایا جا سکے تو کرالینا، ورنہ ان کے لیے کوئی خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں ۔ دوسرا مشن تھا ، صلا ح الدین ایوبی کا قتل۔ اس پارٹی کو کوئی عملی ٹریننگ نہ دی گئی ۔ صرف زبانی ہدایات اور ضروری ہتھیار دے کر اسی روز ایک بادبانی کشتی میں ماہی گیروں کے بھیس میں روانہ کر دیا گیا ۔
                                                               ٭         ٭         ٭
         جس وقت یہ کشتی اٹلی کے ساحل سے روانہ ہوئی۔صلاح الدین ایوبی سوڈانیوں کی بغاوت مکمل طور پر دبا چکا تھا ۔ سوڈانیوں کے بہت سے کماندار مارے گئے یا زخمی ہو گئے تھے اور بہت سے سلطان ایوبی کے دفترکے سامنے کھڑے تھے ۔ انہوں نے ہتھیار ڈال کر شکست اور سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کر لی تھی ۔ وہ سلطان کے حکم کے منتظر تھے۔ سلطان اندر بیٹھا اپنے سالاروں وغیرہ کو احکام دے رہا تھا۔علی بن سفیان بھی موجود تھا۔ اس فتح میں اس کا بہت عمل دخل تھا۔ صلیبیوں کو شکست دینے میں بھی اس کے نظامِ جاسوسی نے بہت کام کیا تھا ، بلکہ یہ دونوں کامیابیاں جاسوسی کے نظام کی ہی کامیابیاں تھیں۔ سلطان ایوبی کو جیسے اچانک کچھ یاد آگیا ہو۔ اس نے علی بن سفیان سے کہا ……''علی ! ہمیں ان جاسوس لڑکیوں اور اُن کے ساتھیوں کے متعلق سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا ۔ وہ ابھی تک ساحل پر قیدی کیمپ میں ہیں ۔ ان سب کو فوراً یہاں لانے کا بندوبست کرو اور تہ خانے میں ڈال دو ''۔
         '' میں ابھی پیغام بھجوا دیتا ہوں '' … علی بن سفیا ن نے کہا ……'' ان سب کہ یہاں پہرے میں بلوا لیتا ہوں …سلطان ! آپ شاید ساتویں لڑکی کو بھول گئے ہیں ۔ وہ سوڈانیوں کے ایک کماندار بالیان کے پاس تھی ۔ اسی لڑکی سے جاسوسوں اور بغاوت کا انکشاف ہوا تھا ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بالیان ان کمانداروں میں نہیں ہے جو باہر موجود ہیں اور وہ زخمیوں میں بھی نہیں ہے اور وہ مرے ہوئوںمیں بھی نہیں ہے ۔ مجھے شک ہے کہ ساتویں لڑکی جس کانام فخرالمصری نے موبی بتایا تھا ، بالیان کے ساتھ کہیں روپوش ہوگئی ہے ''۔
         '' اپنا شک رفع کروعلی ''… سلطان ایوبی نے کہا …'' یہاں مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ بالیان لاپتہ ہے تو وہ بحیرئہ روم کی طرف نکل گیا ہوگا ۔ صلیبیوں کے سوا اسے اور کون پناہ دے سکتا ہے ۔ بہر حال ان جاسوسوں کو تہہ خانوں میں ڈالو اور اپنے جاسوس فوراً تیار کرکے سمندر پار بھیج دو ''۔
         '' زیادہ ضرورت تہ یہ ہے کہ اپنے جاسوس اپنے ہی ملک میں پھیلا دئیے جائیں ''۔ یہ مشورہ دینے والا سلطان نورالدین زنگی کی بھیجی ہوئی فوج کا سپہ سالار تھا ۔ اس نے کہا … '' ہمیں صلیبیوں کی طرف سے اتنا خطرہ نہیں، جتنا اپنے مسلمان امراء سے ہے ۔ اپنے جاسوس ان کے حرموں میں داخل کر دئیے جائیں تو بہت سی سازشیں بے نقاب ہوں گی ''۔ اُس نے تفصیل سے بتایا کہ یہ خود ساختہ حکمران کس طرح صلیبیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ سلطان زنگی اکثر پریشان رہتے ہیں کہ باہر کے حملوں کو روکیں یا اپنے گھر کو اپنے ہی چراغ سے جلنے سے بچائیں ۔
         صلاح الدین ایوبی نے یہ روائیداد غور سے سنی اور کہا …'' اگر تم لوگ جن کے پاس ہتھیار ہیں ، دیانت دار اور اپنے مذہب سے مخلص رہے تو باہر کے حملے اور اندر کی سازشیں قوم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔ تم اپنی نظریں سرحدوں سے دور آگے لے جائو ۔ سلطنت اسلامیہ کی کوئی سر حد نہیں ۔ تم نے جس روز اپنے آپ کو اور خدا کے اس عظیم مذہبِ اسلام کو سرحدوں میں پابند کرلیا اور اس روز سے یوں سمجھو کہ تم اپنے ہی قید خانے میں قید ہوجائو گے ۔ پھر تمہاری سرحدیں سکڑنے لگیں گی۔ اپنی نظریں بحیرئہ روم سے آگے لے جائو۔ سمندر تمہارا راستہ نہیں روک سکتے ۔ گھر کے چراغوں سے نہ ڈرو، یہ تو ایک پھونک سے گل ہو جائیں گے ۔ ان کی جگہ ہم ایمان کے چراغ روشن کریں گے''۔
         '' ہمیں اُمید ہے کہ ہم ایمان فروشی روک لیں گے، سلطانِ محترم !''… سالار نے کہا … '' ہم مایوس نہیں ''۔
         '' صرف دو لعنتوں سے بچو میرے عزیز رفیقو!'' سلطان ایوبی نے کہا …'' مایوسی اور ذہنی عیاشی ۔ انسان پہلے مایوس ہوتا ہے ، پھر ذہنی عیاشی کے ذریعے راہِ فرار اختیار کرتا ہے ''۔
         اس دوران علی بن سفیان جا چکا تھا ۔ اس نے فوراً ایک قاصد بحیرئہ روم کے کیمپ کی طرف اس پیغام کے ساتھ روانہ کر دیا کہ رابن، اس کے چار ساتھیوں اور لڑکیوں کو گھوڑوں یا اونٹوں پر سوار کر کے بیس محافظوں کے پہرے میں دارالحکومت کو بھیج دو …قاصد کو روانہ کر کے اس نے اپنے ساتھ چھ سات سپاہی لیے اور کماندار بالیان کی تلاش میں نکل گیا ۔ ان نے ان سوڈانی کمانداروں سے جو باہر بیٹھے تھے، بالیان کے متعلق پوچھ لیا تھا ۔ سب نے کہا تھا کہ اسے لڑائی میں کہیں بھی نہیں دیکھا گیاتھا اور نہ ہی وہ اس فوج کے ساتھ گیا تھا جو بحیرئہ روم کی طرف سلطان کی فوج پر حملہ کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی ۔ علی بن سفیان بالیان کے گھر گیا تو وہاں اس کی بوڑھی خادمائوں کے سوا اور کوئی نہ تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ بالیان کے گھر میں پانچ لڑکیاں تھیں ۔ ان میں جس کی عمر ذرا زیادہ ہوجاتی تھی ، اسے وہ غائب کر دیتا اور اس کی جگہ جوان لڑکی لے آتا تھا ۔ ان خامائوں نے بتایا کہ بغاوت سے پہلے اس کے پاس ایک فرنگی لڑکی آئی تھی جو غیر معمولی طور پر خوبصورت اور ہوشیارتھی ۔ بالیان اس کا غلام ہو گیا تھا ۔ بغاوت کے ایک روز بعد جب سوڈانیوں نے ہتھیار ڈال دئیے تو بالیان رات کے وقت گھوڑے پر سوار ہوا، دوسرے گھوڑے پر اس فرنگی لڑکی کو سوار کیا اور معلوم نہیں دونوں کہاں روانہ ہوگئے ۔ ان کے ساتھ سات گھوڑ سوار تھے۔ حرم کی لڑکیوں کے متعلق بوڑھیوں نے بتایا کہ وہ گھر میں جو ہاتھ لگا اُٹھا کر چلی گئی ہیں ۔
         علی بن سفیان وہاں سے واپس ہوا توایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہوا آیا اور علی بن سفیان کے سامنے رُکا۔ اس پر فخرالمصری سوار تھا۔ کود کر گھوڑے سے اُترا اور ہانپتی کانپتی آواز میں بولا … '' میں آپ کے پیچھے آیا ہوں ۔ میں بھی اسی بدبخت بالیان اور اس کافر لڑکی کو ڈھونڈ رہا تھا ۔ میں ان سے انتقام لوں گا ۔ جب تک ان دونوں کو اپنے ہاتھوں قتل نہیں کرلوں گا ، مجھے چین نہیں آئے گا ۔ میں جانتا ہوں کہ وہ کدھر گئے ہیں ۔ میں نے ان کا پیچھا کیا ہے لیکن ان کے ساتھ سات مسلح محافظ تھے ، میں اکیلا تھا ۔ وہ بحیرئہ روم کی طرف جا رہے ہیں ، مگر عام راستے سے ہٹ کر جارہے ہیں ''… اس نے علی بن سفیان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ '' خدا کے لیے مجھے صرف چار سپاہی دے دیں ، میں ان کے تعاقت میں جائوں گا اور انہیں ختم کرکے آئوں گا ''۔
         علی بن سفیان نے اسے اس وعدے سے ٹھنڈا کیا کہ وہ اسے چار کی بجائے بیس سوار دے گا ۔ وہ ساحل سے آگے اتنی جلدی نہیں جا سکتے ۔ میرے ساتھ رہو۔ علی بن سفیان مطمئن ہوگیا کہ یہ تو پتہ چل گیاہے کہ وہ کسطرف گئے ہیں ۔
                                                               ٭         ٭         ٭
         اُس وقت بالیان اسی صلیبی لڑکی کے ساتھ جس کا نام موبی تھا، ساحل کی طرف جانے والے عام راستے سے ہٹ کر دور جا چکا تھا ۔ان علاقوں سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ سوڈانی فوج اور اس کے کمانداروں کو صلاح الدین ایوبی نے معافی دے دی ہے ۔ ایک تو وہ سلطان کے عتاب سے بھاگ رہا تھا اور دوسرے یہ کہ وہ موبی جیسی حسین لڑکی کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ دنیا کی حسین لڑکیاں صرف مصر اور سوڈان میں ہی ہیں مگر اٹلی کی اس لڑکی کے حسن اور دِل کشی نے انے اندھا کر دیا تھا ۔ اس کی خاطر وہ اپنا رُتبہ ، اپنا مذہب اور اپنا ملک ہی چھوڑ رہا تھا لیکن اُسے یہ معلوم نہیں تھا کہ موبی اس سے جان چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ وہ جس مقصد کے لیے آئی تھی ، وہ ختم ہو چکا تھا ۔ گو مقصد تباہ ہوگیا تھا ، تاہم موبی اپنا کام کر چکی تھی ۔ اس کے لیے اس نے اپنے جسم اور اپنی عزت کی قربانی دی تھی ۔ وہ ابھی تک اپنی عمر سے دُگنی عمر کے آدمی کی عیاشی کاذریعہ بنی ہوئی تھی ۔
         بالیان اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ موبی اسے بُری طرح چاہتی ہے مگر موبی اس سے نفرت کرتی تھی ۔ وہ چونکہ مجبور تھی ، اسی لیے اکیلی بھاگ نہیں سکتی تھی ۔ وہ اس مقصد کے لیے بالیان کو ساتھ لے ہوئے تھی کہ اسے اپنی حفاظت کی ضرورت تھی ۔ اسے بحیرئہ روم پار کرنا تھا یا رابن تک پہنچنا تھا ۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ رابن اور اس کے ساتھ جو تاجروں کے بھیس میں تھے ، پکڑے جا چکے ہیں ۔ اس مجبوری کے تحت وہ بالیان کے ہاتھ میں کھلونا بنی ہوئی تھی ۔ وہ کئی بار اسے کہہ چکی تھی کہ تیز چلو اور پڑائو کم کرورنہ پکڑے جائیں گے لیکن بالیان جہاں اچھی جگہ دیکھتا رُک جاتا ۔ اس نے شراب کا ذخیرہ اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔
         ایک رات موبی نے ایک ترکیب سوچی ۔ اس نے بالیان کو اتنی زیادہ پلادی کہ وہ بے سدھ ہوگیا ۔ ان کے ساتھ جو سات محافظ تھے ، وہ کچھ پر ہوے سو گئے تھے ۔ موبی نے دیکھا تھا کہ ان میں سے ایک ایسا ہے جو ان ہے اور سب پر چھایا رہتا ہے۔ بالیان زیادہ تر اسی کے ساتھ ہر بات کرتا تھا ۔ موبی نے اسے جگایا اور تھوڑی دور لے گئی ۔ اسے کہا …'' تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کون ہوں ، کہاں سے آئی ہوں اور یہاں کیوں آئی تھی ۔ میں تم لوگوں کے لیے مدد لائی تھی تا کہ تم صلاح الدین ایوبی جیسے غیر ملکیوں سے آزاد ہو سکو مگر تمہارا یہ کماندار بالیان اس قدر عیاش آدمی ہے کہ اس نے شراب پی کر بد مست ہو کر میرے جسم کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا ۔ بجائے اس کے کہ وہ عقل مندی سے بغاوت کا منصوبہ بناتا اور فتح حاصل کرتا ، اس نے مجھے اپنے حرم کی لونڈی بنا لیا اور اندھا دھند فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایسی لاپرواہی سے حملہ کروایا کہ ایک ہی رات میں تمہاری اتنی بڑی فوج ختم ہوگئی۔
         '' تمہاری شکست کا ذمہ دار یہ شخص ہے ۔ اب یہ میرے ساتھ صرف عیاشی کے لیے جا رہا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ میں اسے سمندر پار لے جائوں ، اسے اپنی فوج میں رُتبہ دلائوں اور اس کے ساتھ شادی کر لوں ، مگر مجھے اس شخص سے نفرت ہے ۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر مجھے شادی کرنی ہے اور اپنے ملک میں لے جا کر اسے فوج میں رُتبہ دلانا ہے تو مجھے ایسے آدمی کا انتخاب کرنا چاہیے جو میرے دل کو اچھ لگے ۔ وہ آدمی تم ہو ، تم جوان ہو، دلیر ہو، عقل مند ہو، میں نے جب سے تمہیں دیکھا ہے ، تمہیں چاہ رہی ہوں۔ مجھے اس بوڑھے سے بچائو۔ میں تمہاری ہوں۔ سمندر پار لے چلو ۔ فوج کا رُتبہ اورمال و دولت تمہارے قدموں میں ہوگا مگر اس آدمی کو یہیں ختم کر دو۔ وہ سویا ہوا ہے ، اسے قتل کردو اور آئو نکل چلیں ''۔
         اس نے محافظ کے گلے میں باہیں ڈال دیں ۔ محافظ اس کے حسن میں گرفتار ہوگیا ۔ اس نے دیوانہ وار لڑکی کو اپنے بازئوں میں جکڑ لیا۔ موبی اس جادوگری میں ماہر تھی ۔ وہ ذرا پرے ہٹ گئی۔ محافظ اس کی طرف بڑھا تو عقب سے ایک برچھی اس کی پیٹھ میں اُتر گئی۔ اس کے منہ سے ہائے نکلی اور وہ پہلو کے بل لڑھک گیا ۔ برچھی اس کی پیٹھ سے نکلی اور اسے آواز سنائی دی …''نمک حرام کو زندہ رہنے کا حق نہیں ''۔ لڑکی کی چیخ نکل گئی ۔ وہ اُٹھی اور اتنا ہی کہنے پائی تھی کہ تم نے اسے قتل کر دیا ہے کہ پیچھے سے ایک ہاتھ نے اس کے بازو کو جکڑ لیا اور جھٹکا دے کر اپنے ساتھ لے گیا ۔ اسے بالیان کے پاس پھینک کر کہا …'' ہم اس شخص کے پالے ہوئے دوست ہیں ۔ ہماری زندگی اسی کے ساتھ ہے ۔ تم ہم میں سے کسی کو اس کے خلاف گمراہ نہیں کر سکتی ۔ جو گمراہ ہوا اس نے سزا پا لی ہے ''۔
         بالیان شراب کے نشے میں بے ہوش پڑا تھا ۔
         '' تم لوگوں نے یہ بھی سوچا ہے کہ تم کہاں جا رہے ہو؟''…موبی نے پوچھا۔
         '' سمندر میں ڈوبنے ''… ایک نے جواب دیا …'' تمہارے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیںہے ، جہاں تک بالیان جائے گا ، ہم وہیں تک جائیں گے ''… اور وہ دونوں جا کر لیٹ گئے ۔
         دوسرے دن بالیان جاگا تو اسے رات کا واقعہ بتایا گیا ۔موبی نے کہا کہ وہ مجھے جان کی دھمکی دے کر اپنے ساتھ لے گیا تھا ۔ بالیان نے اپنے محافظوں کو شاباش دی ، مگر ان کی یہ بات سنی اَن سنی کر دی کہ یہ لڑکی اسے گمراہ کر کے لے گئی تھی اور انہوں نے اس کی باتیں سنی تھیں ۔ وہ موبی کے حسن اور شراب میں مدہوش ہو کر سب بھول گیا۔ موبی نے اسے ایک بار پھر کہا کہ تیز چلنا چاہیے مگر بالیان نے پروا نہ کی ۔ وہ اپنے آپ میں نہیں تھا۔ موبی اب آزاد نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ لوگ اپنے دوستوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
         علی بن سفیان نے نہ جانے کیا سوچ کر ان کا تعاقب نہ کیا ۔ بغاوت کے بعد کے حالات کو معمول پر لانے کے لیے وہ سلطان ایوبی کے ساتھ بہت مصروف ہو گیا تھا ۔
                                                               ٭         ٭         ٭
         ساحل کے کیمپ سے رابن ، اس کے چاروں ساتھیوں اور چھ لڑکیوں کو پندرہ محافظوں کی گارڈ میں قاہر ہ کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ قاصد ان سے پہلے روانہ ہو چکا تھا ۔ قیدی اونٹوں پر تھے اور گارڈ گھوڑوں پر۔ وہ معمول کی رفتار پر جارہے تھے اور معمول کے مطابق پڑائو کر رہے تھے ۔وہ بے خوف و خطر جا رہے تھے وہاں کسی دشمن کے حملے کا ڈر نہیں تھا۔ قیدی نہتے تھے اور ان میں چھ لڑکیاں تھیں ۔ کسی کے بھاگنے کا ڈر بھی نہیں تھا ، مگر وہ یہ بھول رہے تھے کہ یہ قیدی تربیت یافتہ جاسوس ہیں بلکہ لڑاکے جاسوس تھے۔ ان میں جو تاجروں کے بھی میں پکڑے گئے تھے وہ چنے ہوئے تیر انداز اور تیغ زن تھے اور لڑکیاں محض لڑکیاں نہیں تھیں جنہیں وہ کمزور عورت ذات سمجھ رہے تھے ۔ ان لڑکیوں کی جسمانی دِلکشی ، یورپی رنگت کی جاذبیت ، جوانی اور ان کی بے حیائی ایسے ہتھیار تھے جو اچھے اچھے جابر حکمرانوں سے ہتھیار ڈلوا لیتے تھے ۔
         محافظوں کا کمانڈر مصری تھا۔ اس نے دیکھا کہ ان میں چھ میں سے ایک لڑکی اس کی طرف دکھتی رہتی ہے اور وہ جب اسے دیکھتا ہے لڑکی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے ۔یہ مسکراہٹ اس مصری کو موم کر رہی تھی ۔ شام کے وقت انہوں پہلا پڑائو کیا تو سب کو کھانا دیا گیا ۔ اس لڑکی نے کھانا نہ کھایا ۔ کمانڈر کو بتایاگیا تو اس نے لڑکی کے ساتھ بات کی ۔ لڑکی اس کی زبان بولتی اور سمجھتی تھی ۔ لڑکی کے آنسو نکل آئے۔ اس نے کہا کہ وہ اس کے ساتھ علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہے ۔
         رات کو جب سو گئے تو کمانڈر اُٹھا۔ اس نے لڑکی کو جگایا اور الگ لے گیا ۔ لڑکی نے اسے بتایا کہ وہ ایک مظلوم لڑکی ہے ، اسے فوجیوں نے ایک گھر سے اغوا کیا اور اپنے ساتھ رکھا ۔پھر اسے جہاز میں اپنے ساتھ لائے جہاں وہ ایک افسر کی داشتہ بنی رہی ۔ دوسری لڑکیوں کے متعلق اس نے بتایا کہ ان کے ساتھ اس کی ملاقات جہاز میں ہوئی تھی ۔ انہیں بھی اغوا کرکے لایا گیا تھا ۔ اچانک جہازوں پر آگ برسنے لگی اور جہاز جلنے لگے۔ ان لڑکیوں کو ایک کشتی میں بٹھا کر سمندر میں ڈال دیا گیا ۔ کشتی انہیں ساحل پر لے آئی ، جہاں انہیں جاسوس سمجھ کر قید میں ڈال دیا گیا ۔
         یہ وہی کہانی تھی جو تاجروں کے بھیس میں جاسوسوں نے ان لڑکیوں کے متعلق صلاح الدین ایوبی کو سنائی تھی ۔ مصری گارڈ کمانڈر کو معلوم نہیں تھا ۔ وہ یہ کہانی پہلی بار سن رہا تھا ۔اسے تو حکم ملا تھا کہ یہ خطرناک جاسوس ہیں۔ انہیں قاہرہ لے جاکر سلطان کے ایک خفیہ محکمے کے حوالے کرنا ہے ۔ اس حکم کے پیش نظر وہ ان لڑکیوںکی یا اس لڑکی کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا ۔اس نے لڑکی کو اپنی مجبوری بتادی ۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ لڑکی کی ترکش میں ابھی بہت تیر باقی ہیں ۔ لڑکی نے کہا ۔ '' میں تم سے کوئی مدد نہیں مانگتی ، تم اگر میری مدد کر و گے تومیں تمہیں روک دوں گی ، کیونکہ تم مجھے اتنے  اچھے لگتے ہو کہ میں اپنی خاطر تمہیں کسی مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتی ۔ میرا کو غم خوار نہیں ۔ میں ان لڑکیوں کو بالکل نہیں جانتی اور ان آدمیوں کو بھی نہیں جانتی۔ تم مجھے رحم دِل بھی لگتے ہو اور میرے دِل کو بھی اچھے لگتے ہو، اس لیے تمہیں یہ باتیں بتا رہی ہوں ''۔
         اتنی خوبصورت لڑکی کے منہ سے اس قسم کی باتیں سن کر کون سا مرد اپنے آپ میں رہ سکتا ہے ۔ یہ لڑکی مجبور بھی تھی۔ رات کی تنہائی بھی تھی ۔ مصری کی مردانگی پگھلنے لگی۔ اس نے لڑکی کے ساتھ دوستانہ باتیں شروں کر دیں۔لڑکی نے ایک اور تیر چلایا اور صلاح الدین ایوبی کے کردار پر زہر اُگلنے لگی۔ اس نے کہا …'' میں نے تمہارے گورنر صلاح الدین ایوبی کو مظلومیت کی یہ کہانی سنائی تھی۔ مجھے اُمید تھی کہ وہ میرے حال پر رحم کرے گا ، مگر اس نے مجھے اپنے خیمے میں رکھ لیا اور شراب پی کر میرے ساتھ بدکاری کرتا رہا۔ اس وحشی نے میرا جسم توڑ دیا ہے ۔ شراب پی کر وہ اتنا وحشی بن جاتا ہے کہ اس میں انسانیت رہتی ہی نہیں ''۔
         مصر کی کا خون خولنے لگا ۔ اس نے بدک کر کہا …'' ہمیں کہا گیا تھا کہ صلاح الدین ایوبی مومن ہے ، فرشتہ ہے ، شراب اور عورت سے نفرت کرتا ہے ''۔
         '' مجھے اب اسی کے پاس لے جایا جا رہا ہے ''… لڑکی نے کہا … '' اگر تمہیں یقین نہ آئے تو رات کو دیکھ لینا کہ میں کہاں رہوں گی ۔ وہ مجھے قید خانے میں نہیں ڈالے گا ، اپنے حرم میں رکھ لے گا ۔ مجھے اس آدمی سے ڈر آتا ہے ' …اس قسم کی بہت سے باتوں سے لڑکی نے اس مصری کے دل میں صلاح الدین ایوبی کے خلاف نفرت پیدا کر دی اور وہ پوری طرح مصری پر چھا گئی۔ اس کے دل اور دماغ پر قبضہ کر لیا ۔ مصری کو معلوم نہیں تھا کہ یہی ان لڑکیوں کا ہتھیار ہے ۔ لڑکی نے آخر میں کہا … '' اگر تم مجھے اس ذلیل زندگی سے نجات دلا دو تو میں ہمیشہ کیلئے تمہاری ہو جائو ں گی اور میرا باپ تمہیں سونے کی اشرفیوں سے مالا مال کر دے گا ''۔ اُس نے اس کا طریقہ یہ بتایا …'' میرے ساتھ سمندر پار بھاگ چلو۔ کشتیوں کی کمی نہیں ۔ میرا باپ بہت امیر آدمی ہے ۔ میں تمہارے ساتھ شادی کر لوں گی اور میرا باپ تمہیں نہایت اچھا مکان اور بہت سی دولت دے گا ۔ تم تجارت کر سکتے ہو ''۔
         مصری کہ یہ یادر رہ گیا کہ وہ مسلمان ہے۔ اس نے کہا کہ وہ اپنا مذہب ترک نہیں کر سکتا ۔ لڑکی نے ذرا سوچ کر کہا …'' میں تمہارے لیے اپنا مذہب چھوڑ دوں گی ''… اس کے بعد وہ فرار اور شادی کا پروگرام بنانے لگے ۔ لڑکی نے اسے کہا … '' میں تم پر زور نہیں دیتی ، اچھی طرح سوچ لو ۔ میں صرف جاننا چاہتی ہوں کہ میرے دل میں تمہاری جو محبت پیدا ہوگئی ہے ، اتنی تمہارے دل میںبھی پیدا ہوئی ہے یا نہیں۔ اگر تم مجھے قبول کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہو تو سوچ لو اور کوشش کرو کہ قاہر ہ تک ہمارا سفر لمبا ہوجائے۔ ہم ایک بار وہاں پہنچ گئے تو پھر تم میری بو بھی نہیں سونگھ سکو گے ''۔
         لڑکی کا مقصد صرف اتنا سا تھا کہ سفر لمبا ہو جائے اور تین دنوں کی بجائے چھ دن راستے میں ہی گزر جائیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رابن اور اس کے ساتھی فرار کی ترکیبیں سوچ رہے تھے۔ وہ اس کوشش میں تھے کہ رات کو سوئے ہوئے محافظوں کے ہتھیار اُٹھا کر انہیں قتل کیا جائے ۔ جو نا ممکن سا کام تھا یا اُن کے گھوڑچرا کر بھاگا جائے۔ ابھی تو پہلا ہی پڑائو تھا۔ اُن کی ضرورت یہ تھی کہ سفر لمبا ہو جائے تا کہ اطمینان سے سوچ سکیں اور عمل کر سکیں ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اس لڑکی کو استعمال کیا ، وہ محافظوں کے کمانڈر کو قبضے میں لے لے ۔ لڑکی نے پہلی ملاقات میں ہی یہ مقصد حاصل کر لیا اورمصری کو منہ مانگی قیمت دے دی ۔ مصری کو ایسا بڑا رُتبے والا آدمی نہیں تھا ۔ معمولی سا عہدے دار تھا۔ اس نے کبھی خواب میں بھی اتنی حسین لڑکی نہیں دیکھی تھی ۔ کہاں ایک جیتی جاگتی لڑکی جو اس کے تصوروں سے بھی زیادہ خوبصورت تھی ، اس کی لونڈی بن گئی تھی ۔ وہ اپنا آپ، اپنا فرض اور اپنا مذہب ہی بھول گیا ۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی لڑکی سے الگ نہیں ہونا چاہتا تھا۔
         اس پاگل پن میں اُس نے صبح کے وقت پہلا حکم یہ دیا کہ جانور بہت تھکے ہوئے ہیں ، لہٰذا آج سفر نہیں ہوگا ۔ محافظوں اور شتربانوں کو اس حکم سے بہت خوشی ہوئی ۔ وہ محاذ کی سختیوں سے اُکتائے ہوئے تھے۔ انہیں منزل تک پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی ۔ وہ دن بھر آرام کرتے رہے۔گپ شپ لگاتے رہے اور انکاکمانڈر اس لڑکی کے پاس بیٹھا بدمست ہوتا رہا۔ دن گزر گیا ، رات آئی اور جب سب سو گئے تو مصر ی لڑکی کو ساتھ لیے دُور چلا گیا ۔ لڑکی نے اُسے آسمان پر پہنچا دیا ۔
         صبح جب یہ قافلہ چلنے لگا تو مصری کمانڈر نے راستہ بدل دیا ۔ اپنے دستے سے اس نے کہا کہ اس طرف اگلے پڑائو کے لیے بہت خوبصورت جگہ ہے ۔ قریب ایک گائوں بھی ہے جہاں مرغیاں اور انڈے مل جائیں گے۔ اس کا دستہ اس پر بھی خوش ہوا کہ کمانڈر انہیں عیش کرا رہا ہے ۔ البتہ اس دستے میں دو عسکری ایسے بھی تھے جوکمانڈر کی ان حرکتوں سے خوش نہیں تھے ۔ انہوں نے اسے کہا کہ ہمارے پاس خطرناک قیدی ہیں ۔ یہ سب جاسوس ہیں ۔ انہیں بہت جلدی حکومت کے حوالے کر دینا چاہیے ۔ بلاوجہ سفر لمبا کرنا ٹھیک نہیں ۔ مصری نے انہیں یہ کہہ کر چپ کروادیا کہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ جلدی پہنچوں یا دیر سے۔ جواب طلبی ہوئی تو مجھ سے ہوگی۔ دونوں خاموش ہوگئے ، لیکن وہ الگ جا کر آپس میں کھسر پسر کرتے رہے ۔
                                                               ٭         ٭         ٭
         دوپہر کے بعد انہیں دُور آگے بہت سے گدھ اُڑتے اور اُترتے نظر آئے ۔ یہ اس کی نشانی تھی کہ وہاںکوئی مُردار ہے۔وہ علاقہ مٹی اور ریت کے ٹیلوں کا تھا۔ صحرائی درخت بھی تھے۔ چلتے چلتے وہ ان ٹیلوں میں داخل ہوگئے ۔ راستہ اوپر ہوتا گیا اور ایک بلند جگہ سے انہیں ایک میدان نظر آیا جہاں گِد ھوں کے غول اُترتے ہوئے شور برپا کر رہے تھے ۔ ذرا اور آگے گئے تو نظر آیا کو لاشیں ہیں ، بدبو بھی تھی ۔ یہ اُن سوڈانیوں کی لاشیں تھیں جو بحیرئہ روم کے ساحل پر مقیم سلطان ایوبی کی فوج پر حملہ کرنے چلے تھے۔سلطان ایوبی کے جانباز سواروں نے راتوں کے ان کے عقبی حصے پر حملے کر کے یہ کشت و خون کیا اور سوڈانی فوج کو تتر بتر کر دیا تھا۔یہاں سے آگے میلوں وسعت پر لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔ سوڈانیوں کو اپنی لاشیں اُٹھانے کی مہلت نہیں ملی تھی ۔ قیدیوں اور محافظوں کا قافلہ چلتا رہا اور ذرا سا رُخ بدل کر لاشوں اور گدھوں سے ہٹ گیا ۔
         قافلہ جب وہاں سے گزر رہا تھا تو انہوں نے دیکھا کہ لاشوں کے اردگرد اُن کے ہتھیار بھی بکھرے ہوئے تھے ۔ ان میں کمانیں اور ترکش تھے۔ بر چھیاں ، تلواریں اور ڈھالیں بھی تھیں ۔ قیدیوں نے یہ ہتھیار دیکھ لیے ۔ انہوں نے آپس میںباتیں کیں اور رابن نے اس لڑکی سے کچھ کہا جس نے مصری کمانڈر پر قبضہ کر رکھا تھا ۔ لاشیں اور ہتھیار دُور دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ دائیں طرف ٹیلوں کے قریب سر سبز جگہ تھی ۔ پانی بھی نظر آرہا تھا ۔ سبزہ ٹیلوں کے اوپر تک گیا ہوا تھا ۔ لڑکی نے کمانڈر کو اشارہ کیا تو وہ اس کے قریب چلا گیا ۔ لڑکی نے کہا …'' یہ جگہ بہت اچھی ہے ۔ یہیں رُک جاتے ہیں ''…مصری نے قافلے کا رُخ پھیر دیا اور سر سبز ٹیلے کے قریب پانی کے چشمے پر جا روکا۔ رات یہیں بسر کرنی تھی ۔سب گھوڑوں اور اونٹوں سے اُترے ، جانور پانی پر ٹوٹ پڑے۔ رات گزارنے کے لیے اچھی جگہ دیکھی جانے لگی ۔ دو ٹیلوں کے درمیان جگہ کشادہ بھی تھی اور وہاںسبزہ بھی تھا ۔ یہی جگہ منتخب کر لی گئی ۔
         جب رات کا اندھیرا گہرا ہوا تو سب سو گئے ۔ مصری جگ رہا تھا اور لڑکی بھی جاگ رہی تھی ۔اس رات اسے خاص طور پر جاگنا اور مصری کمانڈر کو پوری طرح مدہوش کرنا تھا ۔ اسے جب خراٹوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں تو وہ مصری کے پاس چلی گئی ۔ اسی لڑکی کی خاطر وہ سب سے الگ اور دُور ہٹ کر لیٹا تھا ۔ لڑکی اسے ٹیلے کی اوٹ میں لے گئی اورر وہاں سے اور زیادہ دُور جانے کی خواہش ظاہر کی ۔ مصری اس کی خواہشوں کا غلام ہو گیا ۔ اسے احساس تک نہ ہوا کہ آج رات لڑکی اُسے ایک خاص مقصد کے لیے دور لے جارہی ہے ۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور لڑکی اسے تین ٹیلوں سے بھی پرے لے گئی ۔ وہ رُکی اور مصری کو بانہوں میں لے لیا ۔ مصری بے خود ہو گیا ۔
         اُدھر رابن نے جب دیکھا کہ کمانڈر جا چکا ہے اور دوسرے محافظ گہری نیند سوئے ہوئے ہیں تو اس نے لیٹے لیٹے اپنے ایک ساتھی کو جگا یا۔ اس نے ساتھ والے کو جگایا ۔ اس طرح رابن کے چاروں ساتھی جاگ اُٹھے … محافظ اُن سے ذرا دُور سوئے ہوئے تھے ۔ مصری کمانڈر کو لڑکی نے اتنا بے پروا کر دیا تھا کہ رات کو وہ سنتری کھڑا نہیں کرتا تھا ۔ پہلے رابن پیٹ کے بل رینگتا ہوا محافظوں سے دور چلا گیا ۔ اس کے بعد اس کے چاروں ساتھی بھی چلے گئے ۔ ٹیلے کی اوٹ میں ہو کر وہ تیز تیز چلنے لگے اور لاشوں تک پہنچ گئے ۔ ٹٹول ٹٹول کر انہوںنے تین کمانیں اور ترکش اُٹھائے اور ایک ایک برچھی اُٹھالی ۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے لڑکی سے کہا تھا کہ وہ کمانڈر سے یہی کہے کہ یہاں پڑائو کیا جائے ۔ وہ ہتھیار لے کر واپس ہوئے ، اب وہ اکٹھے تھے ۔
         وہ سوئے ہوئے محافظوں کے قریب جا کھڑے ہوئے ۔ رابن نے ایک محافظ کے سینے میں برچھی مارنے کے لیے برچھی ذرا اُوپر اُٹھائی ۔ باقی چاربھی ایک ایک محافظ کے سر پر کھڑے تھے ۔ یہ نہایت کامیاب چال تھی۔ وہ بیک وقت چار محافظوں کو ختم کر سکتے تھے اور باقی گیارہ کے سنبھلنے تک انہیں بھی ختم کرنا مشکل نہیں تھا۔ پیچھے تین شتربان تھے اور مصری کمانڈر ۔ وہ آسان شکار تھے ۔ رابن نے جونہی برچھی اُوپر اُٹھائی ، زناٹہ سا سنائی دیا اور ایک تیر رابن کے سینے میں اُتر گیا ۔ اس کے ساتھ ہی ایک تیر رابن کے ساتھی کے سینے میں لگا ، وہ ڈولے ۔ ان کے تین ساتھی ابھی دیکھ ہی رہے تھے کہ یہ کیا ہوا ہے کہ دو تیر اور آئے اور دو اور قیدی اوندھے ہوگئے ۔ آخری قیدی بھاگنے کے لیے پیچھے کو مُڑا تو ایک تیر اس کے پہلو میں اُترگیا ۔ یہ کام اتنی خاموشی سے ہوگیا کہ ان محافظوں میں سے کسی کی آنکھ ہی نہ کھلی جن کے سروں پر موت آن کھڑی ہوئی تھی ۔تیر انداز آگے آگئے ۔انہوں نے مشعلیں روشن کیں۔ یہ دو محافظ تھے جنہوں نے اپنے کمانڈر سے کہا تھا کہ انہیں منزل پر پہنچنا چاہیے۔وہ دیانت دار تھے ۔وہ سوئے ہوئے تھے ، جب چاروں قیدی ان کے قریب سے گزرے تو اُن میں سے ایک کی آنکھ کھل گئی تھی ۔ اس نے اپنے ساتھی کو جگایا اور قیدیوں کا تعاقب دبے پائوں کیا ۔ انہوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ اگر قیدیوں نے بھاگنے کی کوشش کی تو انہیں تیروں سے ختم کر دیں گے ، مگر اس سے پہلے وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ یہ کیا کرتے ہیں ۔ اندھیرے میں انہیں جو کچھ نظر آتا رہا ، وہ دیکھتے رہے ۔ قیدی ہتھیار اُٹھا کر واپس آئے تو دونوں محافظ آکر ٹیلے کے ساتھ چھپ کر بیٹھ گئے ۔ جونہیں قیدیوں نے محافظوں کو برچھیاں مارنے کے لیے برچھیاں اُٹھائیں ، انہوں نے تیر چلا دئیے ۔ پھر چاروں کو ختم کر دیا ۔ انہوں نے اپنے کمانڈر کو آواز دی تو اسے لا پتہ پایا۔ اس آواز سے لڑکیاں جاگ اُٹھیںاور باقی محافظ بھی جاگے۔ لڑکیوں نے اپنے آدمیوں کی لاشیں دیکھیں۔ ہر ایک لاش میں ایک تیر اُترا ہوا تھا۔ لڑکیاں خاموشی سے لاشوں کو دیکھتی رہیں۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ آدمی آج رات کیا کریں گے ۔
         مصری کمانڈر وہاں نہیں تھا اور ایک لڑکی بھی غائب تھی ۔
         محافظوں کو معلوم نہیں تھا کہ جب ان قیدی جاسوسوں کے سینوں میں تیر داخل ہوئے تھے ، بالکل اسی وقت اُن کے مصری کمانڈر کی پیٹھ میں ایک خنجر اُتر گیا تھا ۔ اُس کی لاش تیسرے ٹیلے کے ساتھ پڑی تھی اس رات صحرا کی ریت خون کی پیاسی معلوم ہوتی تھی ۔ مصری کمانڈر اپنے محافظ دستے اور قیدیوں سے بے خبر اس لڑکی کے ساتھ چلا گیا اور لڑکی اسے خاصا دور لے گئی تھی ۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے ساتھی ایک خونی ڈرامہ کھیلیں گے ۔ لڑکی مصری کو ایک ٹیلے کے ساتھ لے کے بیٹھ گئی ۔
         اسی ٹیلے سے ذرا پرے بالیان اور اس کے چھ محافظوں نے پڑائو ڈال رکھا تھا ۔ اُن کے گھوڑے کچھ دور بندھے ہوئے تھے ۔ بالیان موبی کو ساتھ لیے ٹیلے کی طرف آگیا ۔ اس کے ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی ۔ موبی نے نیچے بچھانے کے لیے دری اُٹھا رکھی تھی ۔ بالیان محافظوں سے دُور جا کر عیش و عشرت کرنا چاہتی تھا۔ اس نے دری بچھا دی اور موبی کو اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔ وہ بیٹھے ہی تھے کہ رات کے سکوت میں انہیں قریب سے کسی کی باتوں کی آواز یں سنائی دیں ۔ وہ چونکے اور دم سادھ کر سننے لگے ۔آواز کسی لڑکی کی تھی ۔ بالیان اور موبی دبے پائوں اس طر ف آئے اور ٹیلے کی اوٹ سے دیکھا ۔ انہیں دو سائے بیٹھے ہوئے نظر آئے ۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ ایک عورت اور ایک مرد ہے ۔ موبی اور زیادہ قریب ہوگئی اور غور سے باتیں سننے لگی ۔ مصری کمانڈر کے ساتھ اس لڑکی نے ایسی واضح باتیں کیں کہ موبی کو یقین ہوگیا کہ یہ اس کی ساتھی لڑکی ہے اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ اسے قاہرہ لے جایا جارہا ہے ۔
         مصر ی نے جو حرکتیں اور باتیں کیں ، وہ تو بالکل ہی صاف تھیں ۔ کسی شک کی گنجائش نہیں تھی ۔ موبی جان گئی تھی کہ یہ مصری اس لڑکی کو اس کی مجبوری کے عالم میں عیاشی کا ذریعہ بنا رہا ہے۔ موبی نے یہ بالکل نہ سوچا تھا کہ اردگرد کوئی اور بھی ہوگا اور اس نے جو ارادہ کیا ہے ، اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اس نے پیچھے ہٹ کر بالیان کے کان میں کچھ کہا …… '' یہ مصری ہے اور یہ میرے ساتھ کی ایک لڑکی کے ساتھ عیش کر رہا ہے ۔ اس لڑکی کو بچالو۔ یہ مصری تمہارا دشمن ہے اور لڑکی تمہاری دوست ''…… اس نے بالیان کو اور زیادہ بھڑکانے کے لیے کہا ۔'' یہ بڑی خوبصورت لڑکی ہے ، اسے بچالو اور اپنے سفری حرم میں اضافہ کرلو  ''۔
         بالیان شراب پئے ہوئے تھا ۔ اس نے کمر بند سے خنجر نکالا اور بہت تیزی سے آگے بڑھ کر خنجر مصری کمانڈر کی پیٹھ میں گھونپ دیا۔ خنجر نکال کر اسی تیزی سے ایک اور وار کیا ۔ لڑکی مصری سے آزاد ہو کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ موبی دوڑی اور اُسے آواز دی ۔ وہ دوڑ کر موبی سے لپٹ گئی۔ موبی نے اس سے پوچھا کہ دوسری کہاں ہیں ۔ اس نے رابن اور دوسرے ساتھیوں کے متعلق بھی بتایا اور یہ بھی کہا کہ وہ پندرہ محافظوں کے پہرے میں ہیں ۔ بالیان دوڑتا گیا اور اپنے چھ ساتھیوں کو بلا لایا۔ اُن کے پاس کمانیں اور دوسرے ہتھیار تھے۔ اتنے میں قیدیوں کے محافظوں میں سے ایک اپنے مصری کمانڈر کو آوازیں دیتا اِدھر آیا۔ بالیان کے ایک ساتھی نے تیر چلایا اور اس محافظ کو ختم کر دیا ۔ وہ لڑکی انہیں اپنی جگہ لے جانے کے لیے آگے آگے چل پڑی ۔
         بالیان کو آخری ٹیلے کے پیچھے روشنی نظر آئی ۔ اس نے ٹیلے کی اوٹ میں جا کر دیکھا ۔ وہاں بڑی بڑی دو مشعلیں جل رہی تھیں۔ ان کے ڈنڈے زمین میں گڑھے ہوئے تھے ۔ اس کے اوپر والے سروں پر تیل میں بھیگے ہوئے کپڑے لپٹے ہوئے تھے ، جو جل رہے تھے ۔ بالیان اپنے ساتھیوں کے ساتھ اندھیرے میں تھا ۔ اسے روشنی میں پانچ لڑکیاں الگ کھڑی نظر آرہی تھیں اور محافظ بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے درمیان پانچ لاشیں پڑی تھیں ، جن میں تیر اُترے ہوئے تھے ۔ موبی اور دوسری لڑکی کی سسکیاں نکلنے لگیں۔ موبی کے اُکسانے پربالیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ تمہارا شکار ہے ، تیروں سے ختم کر دو ۔ ان کی تعداد اب چودہ تھی ۔ یہ اُن کی بد قسمتی تھی کہ وہ روشنی میں تھے۔
         بالیان کے ساتھیوں نے کمانوں میں تیر ڈالے۔ تمام تیر ایک ہی بار کمانوں سے نکلے ۔ دوسرے ہی لمحے کمانوں میںچھ اور تیر آچکے تھے۔ ایک ہی با قیدیوں کے چھ محافظ ختم ہو گئے ۔ باقی ابھی سمجھ نہ سکے تھے کہ یہ تیر کہاں سے آئے ہیں ۔ چھ اور تیروں نے چھ اور محافظوں کر گرا دیا ۔ باقی دو رہ گئے تھے۔ اُن میں سے ایک اندھیرے میں غائب ہوگیا ۔ دوسرا ذرا سست نکلا اور وہ بھی سوڈانیوں کے بیک وقت تین تیروں کا شکار ہو گیا ۔ تین شتربان رہ گئے تھے، جو سامنے نہیں تھے۔ وہ اندھیرے میں کہیں اِدھر اُدھر ہوگئے ۔ مشعلوں کی روشنی میں اب لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی تھیں۔ ہر لاش ایک ایک تیر لیے ہوئے تھی اورء ایک میںتین تیر پیوست تھے۔ موبی دوڑ کر لڑکیوں سے ملی ۔ اتنے میں ایک گھوڑے کی سرپٹ دوڑنے کی آوازیں سنائی دی ، جو دور نکل گئیں ۔ بالیان نے کہا …… ''یہاں رُکنا ٹھیک نہیں ۔ ان میں ایک بچ کر نکل گیا ہے ۔ وہ قاہرہ کی سمت گیا ہے ، فوراً یہاں سے نکلو ''۔
         انہوں نے محافظوں کے گھوڑے کھولے اور اپنی جگہ لے گئے ، وہاں جا کر دیکھا ایک گھوڑا بمع زین غائب تھا ۔ اسے بچ کر نکل جانے والا محافظ لے گیا تھا ۔ وہ اپنے گھوڑوں تک نہیں جا سکا تھا ۔ چھپ کر اُدھر چلاگیا ، جہاں اسے آٹھ گھوڑے بندھے نظر آئے ۔ زینیں پاس ہی پڑی تھیں ۔ اُس نے ایک گھوڑے پر زین کسی اور بھاگ نکلا ۔ بالیان نے چودہ گھوڑوں پر زینیں کسوائیں ۔ سامان دو گھوڑوں پر لادا اور باقی گھوڑے ساتھ لیے اور روانہ گئے ۔ لڑکیوں نے موبی کو سنایا کہ اُن پرکیا بیتی ہے اور انہیں کہاں لے جایا رہا تھا ۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ رابن اور اس کے ساتھی لاشوں کے ہتھیار اُٹھا نے گئے تھے ، مگرمعلوم نہیں کہ وہ کس طرح مارے گئے ۔
         موبی نے کہا …… '' ایوبی کے  کیمپ میں میری اور رابن کی ملاقات اچانک ہوگئی تھی ۔ اس نے کہا تھا کہ مجھے یو ں نظر آرہا تھا کہ یسوع مسیح کو ہماری کامیابی منظور ہے ، ورنہ ہم اس طر ح خلافِ توقع نہ ملتے۔ آج ہماری ملاقات بالکل خلافِ توقع ہوگئی ہے ، لیکن میں یہ نہیں کہوں گی کہ یسوع مسیح کو ہماری کامیابی منظور ہے ۔خدائے یسوع مسیح ہم سے ناراض معلوم ہوتا ہے ۔ ہم نے جس کا م میں ہاتھ ڈالا وہ چوپٹ ہوا ۔ بحیرئہ روم میں ہماری فوج کو شکست ہوئی اور مصر میں ہماری دوست سوڈانی فوج کو شکست ہوئی ۔ اِدھر رابن اور کرسٹوفر جیسے دلیر اور قابل آدمی اور ان کے اتنے اچھے ساتھی مارے گئے ۔ معلوم نہیں ، ہمارا کیا انجام ہوگا ''۔
         '' ہمارے جیتے جی تمہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ''۔ بالیان نے کہا ……'' میرے شیروں کا کمال تم نے دیکھ لیا ہے ''۔
                                                               ٭         ٭         ٭
         جس وقت قیدیوں کا قافلہ لاشوں کے پاس ٹیلوں میں رُکا تھا ۔ اُس وقت ساحل پر سلطان ایوبی کی فوج کے کیمپ میں تین آدمی داخل ہوئے ۔ وہ اٹلی کی زبان بولتے تھے۔ ان کا لباس بھی اٹلی کے دیہاتیوں جیسا تھا ، ان کی زبان کوئی نہیں سمجھتا تھا ۔ اٹلی کے جنگی قیدیوں سے معلوم کیا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ یہ اٹلی سے آئے ہیں اور اپنی لڑکیوں کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ۔ یہ یہاں کے سالار سے ملنا چاہتے ہیں ۔ انہیں بہائوالدین شداد کے پاس پہنچا دیا گیا ۔ صلاح الدین ایوبی کی غیر حاضری میں شداد کیمپ کمانڈر تھا ۔ اٹلی کا ایک جنگی قیدی بلایا گیا ۔ وہ مصر کی زبان بھی جانتا تھا ۔ اس کی وساطت سے ان آدمیوں کے ساتھ باتیں ہوئیں ۔ اِن تین آدمیوں میں ایک ادھیڑ عمر تھا اور دو جوان تھے۔ تینوں نے ایک ہی جیسی بات سنائی ۔ تینوں کی ایک ایک جوان بہن کو صلیبی فوجی اُن کے گھروں سے اُٹھا لائے تھے۔ انہیں کسی نے بتایا تھا کہ وہ لڑکیاں مسلمانوں کے کیمپ میں پہنچ گئی ہیں ۔ یہ اپنی بہنوں کی تلاش میں آئے ہیں ۔
         انہیںبتایا گیا تھا کہ یہاں سات لڑکیاں آئی تھیں ۔انہوں نے یہی کہانی سنائی تھی مگر ساتوں جاسوس نکلیں ۔ ان تینوں نے کہا کہ ہماری بہنوں کا جاسوسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ہم توغریب اور مظلوم لوگ ہیں ۔کسی سے کشتی مانگ کر اتنی دور آئے ہیں۔ ہم غریبوں کی بہنیں جاسوسی کی جراأت کیسے کر سکتی ہیں۔ ہمیں اِن سات لڑکیوں کا کچھ پتہ نہیں ۔ معلوم نہیں، وہ کون ہوں گی ۔ ہم تو اپنی بہنوںکو ڈھونڈ رہے ہیں ۔
         '' ہمارے پاس اور کوئی لڑکی نہیں ''۔ شداد نے بتایا ۔'' یہی سات لڑکیاں تھیں، جن میں سے ایک لاپتہ ہو گئی تھی اور باقی چھ کو پرسوں صبح یہاں سے روانہ کر دیا گیا ہے ۔ اگر انہیں دیکھنا چاہتے ہو تو قاہرہ چلے جائو ۔ ہمارا سلطان رحم دِل انسان ہے ، تمہیں لڑکیاں دکھا دے گا ''۔
         ''نہیں ''۔ایک نے کہا ……'' ہماری بہنیں جاسوس نہیں ۔ وہ سات کوئی اورہوں گی۔ ہماری بہنیں سمندر میں ڈوب گئی ہوں گی یا ہمارے ہی فوجیوں نے انہیں اپنے پاس رکھا ہوا ہوگا ''۔
         بہائو الدین شداد نیک خصلت انسان تھا۔ اُس نے ان دیہاتیوں کی مظلومیت سے متا ثر ہو کر اُن کی خاطر تواضع کی اور انہیں عزت سے رخصت کیا ۔ اگر وہاںعلی بن سفیان ہوتا تو ان تینوں کو اتنی آسانی سے نہ جانے دیتا۔ اس کی سراغ رساں نظریں بھانپ لیتیں کہ یہ تینوں جھوٹ بول رہے ہیں …… تینوں چلے گئے ۔ کسی نے بھی نہ دیکھا کہ وہ کہاں گئے ہیں ۔ وہ چلتے ہی چلے گئے اور شام تک چلتے ہی رہے ۔ کیمپ سے دُورکہاں کوئی خطرہ نہ تھا ، وہ چٹانوں کے اندر چلے گئے ۔ وہاں ان جیسے اٹھارہ آدمی بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ان تینوں میں جو اُدھیڑ عمر تھا ، وہ میگنا ناماریوس تھا ۔ یہ صلیبیوں کی وہ کمانڈو پارٹی تھی جسے لڑکیوں کو آزاد کرانے اور اگر ممکن ہو سکے تو سلطان ایوبی کو قتل کرنے کا مشن دیا گیا تھا ۔ان تینوں نے کیمپ سے کچھ اور ضروری معلومات بھی حاصل کرلی تھیں ۔ یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ صلاح الدین ایوبی یہاں نہیں قاہرہ میں ہے ۔ شداد کے ساتھ باتیں کرتے ، جہاں انہیں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ لڑکیاں قاہرہ کو روانہ کر دی گئی ہیں ، وہاں انہوں نے یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ ان کے ساتھ پانچ مرد قیدی بھی ہیں ۔
         یہ پارٹی ایک بڑی کشتی میں آئی تھی ۔ انہوں نے کشتی ساحل پرایک ایسی جگہ پر بانددی تھی جہاں سمندر چٹان کو کاٹ کر اندر تک گیا ہوا تھا ۔ ان لوگوں کو اب قاہرہ کے لیے روانہ ہونا تھا ، مگر سواری نہیں تھی ۔ یہ تین آدمی جو کیمپ میں گئے تھے ، یہ بھی دیکھ آئے تھے کہ اس فوج کے گھوڑے اور اونٹ کہاں بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دیکھاتھا کہ کیمپ سے جانور چوری کرنا آسان نہیں ۔ اکیس گھوڑے یااونٹ چوری نہیں کیے جاسکتے تھے۔ ابھی سورج طلوع ہونے میںبہت دیر تھی ۔ وہ پیدل ہی چل پڑے ۔ اگر انہیں سواری مل جاتی تو وہ قیدیوں کو راستے میں ہی جا لینے کی کوشش کرتے ۔ اب وہ یہ سوچ کر پیدل چلے کہ قاہر میں جا کر قیدیوں کو چھڑانے کی کوشش کریں گے۔ سب جانتے تھے کہ یہ زندگی اور موت کی مہم ہے ۔ صلیبی فوج کے سربراہوں اور شاہوں نے انہیں کامیابی کی صورت میں جو انعام دینے کا وعدہ کیا تھا ، وہ اتنا زیادہ تھا کہ کوئی کام کیے بغیر اپنے کنبوں سمیت ساری عمر آرام اور بے فکری کی زندگی بسر کر سکتے تھے ۔
         میگناناماریوس کو جیل خانے سے لایا گیا تھا ۔ اُسے ڈاکہ زنی کے جرم میں تیس سال سزائے قید دی گئی تھی ۔ اس کے ساتھ دو اور قیدی تھے جن میں ایک کی سزا چوبیس سال اور دوسرے کی ستائیس سال تھی ۔ اُس زمانے میں قید خانے قصاب خانے ہوتے تھے ۔ مجرم کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ بڑی ظالمانہ مشقت لی جاتی اور میویشیوں کی طرح کھانے کو بے کار خوراک دی جاتی تھی ۔ قیدی رات کو بھی آرام نہیں کر سکتے تھے ۔ایسی قید سے موت بہتر تھی ۔ ان تینوں کو انعام کے علاوہ سزا معاف کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔۔ صلیب پرحلف لے کر انہیں اس پارٹی میں شامل کیا گیا تھا ۔ جس پادری نے اُن سے حلف لیا تھا ، اس نے انہیں بتایا تھا کہ وہ جتنے مسلمانوں کو قتل کریں گے ، اس سے دس گناہ ان کے گناہ بخشے جائیں گے اور اگر انہوں نے صلاح الدین ایوبی کو قتل کیا تو اُن کے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے اور اگلے جہان خدائے یسوع مسیح انہیں جنت میں جگہ دیں گے ۔
         یہ معلوم نہیں کہ یہ تینوں قید خانے کے جہنم سے آزاد ہونے کے لیے موت کی اس مہم میں شامل ہوئے تھے یا اگلے جہاں جنت میںداخل ہونے کے لیے یا انعام کا لالچ انہیں لے آیا تھا یا وہ نفرت جو اُن کے دِلوں میں مسلمانوں کے خلاف ڈالی گئی تھی ۔ بہر حال وہ عزم کے پختہ معلوم ہوتے تھے اور اُن کا جوش و خروش بتا رہا تھا کہ وہ کچھ کر کے ہی مصر سے نکلیں گے یا جانیں قربان کردیں گے ۔ اقی اٹھارہ تو فوج کے منتخب آدمی تھے ۔ انہوں نے جلتے ہوئے جہازوں سے جانیں بچائی تھیں اور بڑی مشکل سے واپس گئے تھے۔ یہ مسلمانوں سے اس ذلت آمیز شکست کا انتقام لینا چاہتے تھے۔ انعام کا لالچ تو تھا ہی …… یہی جذبہ تھا جس کے جوش سے وہ اَ ن دیکھی منزل کی سمت پیدل ہی چل پڑے ۔
         دوپہر کے وقت ایک گھوڑا سوار صلاح الدین ایوبی کے ہیڈ کواٹر کے سامنے جا رُکا ۔ گھوڑے کا پسینہ پھوٹ رہا تھا اور سوار کے منہ سے تھکن کے مارے بات نہیں نکل رہی تھی ۔ وہ گھوڑے سے اُترا تو گھوڑے کاسارا جسم بڑی زور سے کانپا ۔ گھوڑا گر پڑا اور مر گیا ۔ سوار نے اسے آرام دئیے بغیر اور پانی پلائے بغیر ساری رات اور آدھا دن مسلسل دوڑایا تھا ۔ سلطان ایوبی کے محافظوں نے سوار کو گھیرے میں لے لیا ۔ اُسے پانی پلایا اور جب وہ بات کرنے کے قابل ہوا تو اس نے کہا کہ کسی سالار یا کماندار سے ملا دو …… سلطان ایوبی خود ہی باہر آگیا تھا ۔ سوار اُسے دیکھ کر اُٹھا اور سلام کرکے کہا ……'' سلطان کا اقبال بلند ہو ۔ بُری خبر لایا ہوں ''…… سلطان ایوبی اسے اندر لے گیا اور کہا ……'' خبر جلدی سے سنا ئو ''۔
         ''قیدی لڑکیاں بھاگ گئی ہیں ۔ ہمارا پورا دستہ مارا گیا ہے '' ۔ اس نے کہا ……'' مرد قیدیوں کو ہم نے جان سے مار دیا ہے۔ میں اکیلا بچ کر نکلا ہوں ۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ حملہ آور کون تھے ۔ ہم مشعلوں کی روشنی میں اور وہ اندھیرے میں ۔ اندھیرے سے تیر آئے اور میرے تمام ساتھی ختم ہوگئے ''۔
         یہ قیدیوں کے محافظوں کے دستے کا وہ آدمی تھا جو اندھیرے میں غائب ہو گیا تھا اور سوڈانیوںکا گھوڑا کھول کر بھاگ آیا تھا ۔ اس نے گھوڑے کو بلاروکے سرپٹ دوڑایا تھا اور اتنا طویل سفر آدھے سے بھی تھوڑے وقت میں طے کر لیا تھا ۔
         سلطان صلاح الدین ایوبی نے علی بن سفیان اور فوج کے ایک نائب سالار کو بلایا ۔ وہ آئے تو اس آدمی سے کہا کہ وہ اب ساری بات سنائے۔ اُس نے کیمپ سے روانگی کے وقت سے بات شروع اور اپنے کمانڈر کے متعلق بتایا کہ وہ ایک قیدی لڑکی کے ساتھ دِل بہلاتا رہا اور قیدیوںسے لاپروا ہو گیا ، پھر راستے میں جو کچھ ہوتا رہا اور آخر میں جو کچھ ہوا ، اُس نے سنا دیا ، مگر وہ یہ نہ بتا سکا کہ حملہ آور کون تھے ۔
         سلطان ایوبی نے علی بن سفیان اور نائب سالارسے کہا ……'' اس کامطلب یہ ہے کہ صلیبی چھاپہ مار مصر کے اندر موجو دہیں ''۔
         '' ہو سکتا ہے ''۔ علی بن سفیان نے کہا ……'' یہ صحرائی ڈاکو بھی ہو سکتے ہیں ۔ اتنی خوبصورت چھ لڑکیاں ڈاکوئوں کے لیے بہت بڑی کشش تھی ''۔
         '' تم نے اس کی بات غور سے نہیں سنی ''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… '' اس نے کہا ہے کہ مرد قیدی لاشوں کے ہتھیار اُٹھا لائے تھے اور محافظوں کو قتل کرنے لگے تھے۔ محافظوں میں سے دو نے انہیں تیروں سے ہلاک کر دیا ۔ اس کے بعد اُن پر حملہ ہوا ۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے صلیبی چھاپہ مار اُن کے تعاقب میں تھے ''۔
         '' وہ کوئی بھی تھے سلطانِ محترم !''  نائب سالار نے کہا ۔ '' فوری طور پر کرنے والا کام یہ ہے کہ اس عسکری کو راہنمائی کے لیے ساتھ بھیجا جائے اور کم از کم بیس گھوڑا سوار جو تیز رفتار ہوں ، تعاقب کے لیے بھیجے جائیں۔ یہ بعد کی بات ہے کہ وہ کون تھے ''۔
         '' میں اپنے ایک نائب کو ساتھ بھیجوں گا '' ۔ علی بن سفیان نے کہا ۔
         ''اس عسکری کو کھانا کھلائو ''…… سلطان ایوبی نے کہا …… '' اسے تھوڑی دیر آرام کرلینے دو۔ اتنی دیر میں بیس سوار تیار کرو اور تعاقب میں روانہ کر دو۔ اگر ضرورت سمجھو تو زیادہ سوار بھیج دو ''۔
         '' میں نے جہاں گھوڑا کھولا تھا ، وہاں آٹھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے ''۔ محافظ نے کہا ……'' وہاں کوئی انسان نہیں تھا ۔حملہ آور وہی ہو سکتے ہیں ، اگر گھوڑے آٹھ تو وہ بھی آٹھ ہی ہوں گے ''۔
         چھاپہ ماروں کی تعداد زیادہ نہیں ہو سکتی ''۔ نائب سالار نے کہا …… '' ہم انشاء اللہ انہیں پکڑ لیں گے ''۔
         '' یہ یاد رکھو کہ وہ چھاپہ مار ہیں ''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… '' اور لڑکیاں جاسوس ہیں ، اگر تم ایک جاسوس یا چھاپہ مار کو پکڑ لو تو سمجھ لو کہ تم نے دشمن کے دو سو عسکری پکڑ لیے ہیں ۔ میں ایک جاسوس کو ہلاک کرنے کے لیے دشمن کے دو سو عسکریوں کو چھوڑ سکتا ہوں ۔ ایک عورت کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی مگر ایک جاسوس اور تخریب کار عورت اکیلی پورے ملک کا بیڑہ غرق کر سکتی ہے ۔ یہ لڑکیاں بے حد خطرناک ہیں ، اگر وہ مصر کے اندر رہ گئیں تو تمہارا پورے کا پورا لشکر بے کار ہو جائے گا ۔ ایک جاسوس یا جاسوسہ کو پکڑنے یا جان سے مارنے کے لیے اپنے ایک سو سپاہی قربان کر دو ۔ یہ سودا پھر بھی سستا ہے ۔ چھاپہ مار اگر نہ پکڑے جائیں تو مجھے پروا نہیں اِن لڑکیوں کو ہر قیمت پر پکڑنا ہے ۔ ضرورت سمجھو تو تیروں سے انہیں ہلاک کر دو ۔ زندہ نکل کر نہ جائیں ''۔
         ایک گھنٹے کے اندر اندر بیس تیز رفتار سوار روانہ کر دئیے گئے ۔ اس کا راہنما یہ محافظ تھا اور کمانڈر علی بن سفیان کا ایک نائب زاہدین تھا ۔ ان سواروں میں فخرالمصری کو علی بن سفیان کے خاص طور پر شامل کیا تھا ۔ یہ فخر کی خواہش تھی کہ اسے بالیان کے تعاقب کے لیے بھیجا جائے۔ یہ تو نہ علی بن سفیان کو علم تھا ، نہ فخر المصری کو کہ جن کے تعاقب میں سوار جا رہے ہیں ، وہ بالیان ، موبی اور ان کے چھ وفادار ساتھی ہیں ۔
         ادھر سے یہ بیس سوار روانہ ہوئے جن میں اکیسواں ان کا کمانڈر تھا ۔ ان کا ہدف لڑکیاں تھیں اور انہیں چھڑا کر لے جانے والے ۔ ادھر سے صلیبیوں کے بیس کمانڈو آرہے تھے جن میں اکیسواں اُن کا کمانڈر تھا ۔ ان کا بھی ہدف یہی لڑکیاں تھیں ، مگر ان کی کمزوری یہ تھی کہ وہ پیدل آرہے تھے ۔ دونوں پارٹیوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ جن کے تعاقب میں وہ جا رہے ہیں ، وہ کہاں ہیں ۔
                                                                                 ٭         ٭         ٭
         صلیبیوں کی کمانڈو پارٹی اگلے روز سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے خاصہ فاصلہ طے کر چکی تھی ۔ راستہ اُوپر چڑھ رہا تھا ، وہ علاقہ نشیب و فراز کا تھا ۔ یہ لوگ بلندی پر گئے تو انہیں دور ایک میدان میں جہاں کھجور کے بہت سے درختوں کے ساتھ دوسری قسم کے درخت بھی تھے ، بے شمار اُونٹ کھڑے نظر آئے ۔ انہیںبٹھا بٹھا کر اُن سے سامان اُتارا جا رہا تھا ۔ بارہ چودہ گھوڑے بھی تھے۔ ان کے سوار فوجی معلوم ہوتے تھے ، باقی تمام شتر بان تھے ۔ یہ اکیس صلیبی رُک گئے ۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، جیسے انہیں یقین نہ آرہا ہو کہ وہ اونٹ اور گھوڑے ہیں ۔ یہی ان کی ضرورت تھی ۔ اُن کے کمانڈر نے پارٹی کا روک لیا اور کہا ……''ہم سچے دل سے صلیب پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا کر آئے ہیں ۔ وہ دیکھو صلیب کا کرشمہ …… یہ معجزہ ہے ۔ خدا نے آسمان سے تمہارے لیے سواری بھیجی ہے ۔ تم میں سے جس کے دِل میں کسی بھی گناہ کا یا فرض سے کوتاہی کا یا جان بچا کر بھاگنے کا خیال ہے ، وہ فوراً نکال دو ۔ خدا کا بیٹا جو مظلوموں کا دوست اور ظالموں کا دشمن ہے ، تماری مدد کے لیے آسمان سے اُتر آیا ہے ۔
         سب کے چہروں پر تھکن کے جو آثا رتھے ، وہ غائب ہو گئے اور چہروں پر رونق آگئی ۔ انہوں نے ابھی اس پہلو پر غور ہی نہیں کیا تھا کہ اتنے میں بے شمار اونٹوں اور گھوڑوں میں سے جن کے ساتھ اتنے زیادہ فوجی اور شتر بان ہیں ، وہ اپنی ضرورت کے مطابق جانور کس طرح حاصل کریں گے ۔
         یہ ایک سو کے لگ بھگ اونٹوں کا قافلہ تھا جو محاذ پر فوج کے لیے راشن لے جا رہا تھا ۔ چونکہ ملک کے اندر دشمن کا کوئی خطر ہ نہیں تھا ، اس لیے قافلے کی حفاظت کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا گیا تھا ۔ صرف دس گھوڑا سوار تھا بھیج دئیے گئے تھے ۔ شتر بان نہتے تھے۔ ابھی چھاپہ مار اور شب خون مارنے والے میدان میں نہیں آئے تھے ۔ صلیبیوں کے یہ اکیس آدمی پہلے چھاپہ مار تھے یا اس سے پہلے صلاح الدین ایوبی نے شب خون کا وہ طریقہ آزمایا تھا جس میں تھوڑے سے سواروں نے سوڈانیوں کی فوج کے عقبی حصے پر حملہ کیا اور غائب ہو گئے تھے ۔
         اس ''وار کرو اور بھاگو '' کے طریقہ جنگ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے سلطان ایوبی نے تیز رفتار ، ذہین اور جسمانی لحاظ سے غیر معمولی طور صحت مند عسکریوں کے دستے تیار کرنے کا حکم دے دیا تھا اور دشمن کے ملک میں لڑاکا جاسوس بھیجنے کی سکیم بھی تیار کر لی تھی ، لیکن صلیبیوں کو ابھی شب خون اور چھاپوں کی نہیں سوجھی تھی ۔کسی نجی قافلے کو ڈاکو بعض اوقات لوٹ لیا کرتے تھے ۔ سرکاری قافلے ہمیشہ محفوظ رہتے تھے ۔ اسی لیے فوجیوں کے رسد کے قافلے بے خوف و خطر رواں دواں رہتے تھے ۔ اس سے پہلے بھی اسی محاذ کے لیے دو بار رسد کے قافلے جا چکے تھے اور اسی علاقے سے گزرے تھے ۔ لہٰذا حفاظتی اقدامات کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی ۔
         یہ قافلہ بھی خطروں سے بے پروا محاذ کو جا رہا تھا اور رات کے لیے یہاں پڑائو کر رہا تھا ۔ اس سے تھوڑی ہی دور قافلے کے لیے بہت بڑا خطرہ آرہا تھا ۔ صلیبی کمانڈر نے اپنی پارٹی کو ایک نشیب میں بٹھا لیا اور دو آدمیوں سے کہا کہ وہ جا کر یہ دیکھیں کہ قافلے میں کتنے اُونٹ ، کتنے گھوڑے ، کتنے مسلح آدمی اور خطرے کیاکیا ہیں۔ پھر وہ رات کو حملہ کرنے کی سکیم بنانے لگا ۔ اُن کے پاس ہتھیاروں کی کمی نہیں تھی ۔ جذبے کی بھی کمی نہیں تھی ۔ ہر ایک آدمی جان پر کھیلنے کو تیا ر تھا ۔
         نصف شب سے بہت پہلے وہ دو آدمی واپس آئے جو قافلے کو قریب سے دیکھنے گئے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ قافلے کے ساتھ دس مسلح سوار ہیں جو ایک ہی جگہ سوئے ہوئے ہیں ۔ گھوڑے الگ بندھے ہوئے ہیں ۔ شتربان ٹولیوں میں بٹ کر سوئے ہوئے ہیں ۔ سامان میں زیاد ہ تر بوریاں ہیں ۔ شتر بانوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ۔
         یہ بڑی اچھی معلومات تھیں ۔ کام مشکل نہیں تھا ۔
         قافلے والے گہری نیند سوئے ہوئے تھے ۔ دس عسکریوں کی آنکھ بھی نہ کھلی کہ تلواروں اور خنجروں نے انہیں کاٹ کر رکھ دیا ۔ صلیبی چھاپہ ماروں نے یہ کام اتنی خاموشی اور آسانی سے کر لیا کہ بیشتر شتربانوں کی آنکھ ہی کھلی اور جن کی آنکھ کھلی و ہ سمجھ ہی نہ پائے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ، جس کے منہ سے آواز نکلی وہ اس کی زندگی کی آخری آواز ثابت ہوئی ۔ چھاپہ ماروں نے شتربانوں کو ہراساں کرنے کے لیے چیخنا شروع کر دیا ۔ سوئے ہوئے شتر بان گھبرا کر ہڑ بڑا کر اُٹھے ۔ اُونٹ بھی بدک کر اُٹھنے لگے ۔ صلیبیوں نے شتربانوں کا قتلِ عام شروع کر دیا ۔ بہت تھوڑے بھاگ سکے ۔ صلیبی کمانڈر نے چلا کر کہا …… '' یہ مسلمانوں کا راشن ہے ، تباہ کر دہ ۔ اونٹوں کوبھی ہلاک کر دو '' ……انہوں نے اونٹوں کے پیٹوں میں تلواریں گھونپنی شروع کر دیں ۔ اونٹوں کے واویلے سے رات کانپنے لگی ۔ کمانڈر نے گھوڑے دیکھے ۔ بار ہ تھے، دس سواروں کے لیے دو فالتو ۔ اُس نے نو اُونٹ الگ کر لیے ۔
         سورج طلوع ہوا تو پڑائو کا منظر بڑا بھیانک تھا ۔ بے شمار لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔ بہت سے اونٹ مر چکے تھے ۔ کئی تڑپ رہے تھے ۔ کچھ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ۔ آٹا اور کھانے کا دیگر سامان خون میں بکھرا ہوتا تھا ۔ بارہ کے بارہ گھوڑے غائب تھے اور وہاں کوئی زندہ انسان موجود نہیں تھا ۔ چھاپہ مار دُور نکل گئے تھے۔ اس کی سواری کی ضرورت پوری ہو گئی تھی ۔ اب وہ تیز رفتاری سے اپنے شکار کو ڈھونڈ سکتے تھے ۔
                                                                        ٭         ٭         ٭
         شکار دُور نہیںتھا ۔ بالیان کا دماغ پہلے ہی موبی کے حسن و جوانی اور شراب نے مائوف کر رکھا تھا ۔ اب اس کے پاس سات حسین اور جوان لڑکیاں تھیں ۔ وہ خطروں کو بھول ہی گیا تھا ۔ موبی اس بار بارکہتی تھی کہ اتنا زیادہ کہیں رُکنا ٹھیک نہیں، جتنی جلدی ہو سکے ، سمندر تک پہنچنے کی کوشش کرو ، ہمارا تعاقب ہو رہا ہوگا ، مگر بالیان بے فکرے بادشاہوں کی طرح قہقہ لگا کر اس کی بات سنی اَن سنی کر دیتا تھا ۔ لڑکیوں کو جس رات آزاد کرایا گیا تھا ، اس سے اگلی رات وہ ایک جگہ رُکے ہوئے تھے۔ بالیان نے موبی سے کہا کہ ہم سات مرد ہیں اور تم سات لڑکیاں ہو۔ میرے ان چھ دوستوں نے میرا ساتھ بڑی دیانت داری سے دیا ہے ۔ میں اُن کی موجودگی میں تمہارے ساتھ رنگ رلیاں مناتا رہا، پھر بھی وہ نہیں بولے ۔ اب میں انہیں انعام دینا چاہتا ہوں۔ تم ایک ایک لڑکی میرے ایک ایک دوست کے حوالے کر دو اور انہیں کہو کہ یہ تمہاری وفاداری کا تحفہ ہے۔
         ''یہ نہیں ہو سکتا '' ……موبی نے غصے سے کہا ……'' ہم فاحشہ نہیں ہیں ۔ میری مجبوری تھی کہ میں تمہارے ہاتھ میںکھلونا بنی رہی ۔ یہ لڑکیاں تمہاری خریدی ہوئی لونڈیاں نہیں ہیں ''۔
         '' میں نے تمہیں کسی وقت بھی شریف لڑکی نہیں سمجھا''۔ بالیان نے کہا ……''تم سب ہمارے لیے اپنے جسموں کا تحفہ لائی ہو ۔ یہ لڑکیاں معلوم نہیں کتنے مردوں کے ساتھ کھیل چکی ہیں۔ ان میں ایک بھی مریم نہیں ''۔
         '' ہم اپنا فرض پورا کرنے کے لیے جسموں کا تحفہ دیتی ہیں ''۔ موبی نے کہا …… '' ہم عیاشی کے لیے مردوں کے پاس نہیں جاتیں ۔ ہمیں ہماری قوم اور ہمارے مذہب نے ایک فرض سونپاہے ۔ اس فرض کی ادائیگی کے لیے ہم اپنا جسم ، اپنا حسن اور اپنی عصمت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں ۔ ہمارا فرض پورا ہو چکا ہے ۔ اب تم جو کچھ کہہ رہے ہو ، یہ عیاشی ہے جو ہمیں منظور نہیں ۔ جس روز ہم عیاشی میں اُلجھ گئیں ، اس روز سے صلیب کا زوال شروع ہو جائے گا ۔ صلیب ٹوٹ جائے گی ۔ ہم اپنی عصمت کے شیشے توڑ دیتی ہیں تاکہ صلیب نہ ٹوٹے۔ ہمیں ٹریننگ دی گئی ہے کہ ایک مسلمان سربراہ کو تباہ کرنے کے لیے دس مسلمانوں کے ساتھ راتیں بسر کرنا جائز اور کارِ ثواب ہے ۔ مسلمانوں کے ایک مذہبی پیشوا کو اپنے جسم سے ناپاک کرنے کو ہم ایک عظیم کارِ خیر سمجھتی ہیں ۔
         '' تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم صلیب کی بقاء کے لیے مجھے استعمال کر رہی ہو '' ۔ بالیان کے احساسات آہستہ آہستہ جاگنے لگے……''کیا تم مجھے صلیب کا محافظ بنانا چاہتی ہو ؟''
         '' کیا تم ابھی تک شک میں ہو ؟'' موبی نے کہا …… '' تم نے صلیب کے ساتھ کیوں دوستی کی ؟''
         '' صلاح الدین ایوبی کی حکمرانی سے آزاد ہونے کے لیے ''۔ بالیان نے کہا …… '' صلیب کی حفاظت کے لیے نہیں ۔ میں مسلمان ہوں ، لیکن اس سے پہلے میں سوڈانی ہوں ''۔
         '' میں سب سے پہلے صلیبی ہوں ''۔ موبی نے کہا …… '' میں عیسائی ہوں اور اس کے بعد اُس ملک کی بیٹی ہوں جہاں میں پیدا ہوئی تھی ''۔ موبی نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا ……'' اسلام کوئی مذہب نہیں ۔ اسی لیے تم اپنے ملک کو اس پر ترجیح دے رہے ہو۔ یہ تمہاری نہیں ، تمہارے مذہب کی کمزوری ہے۔ تم میرے ساتھ سمندر پار چلو تو میں تمہیں اپنا مذہب دکھائوں گی ۔ تم اپنے مذہب کو بھول جائو گے ''۔
         '' میں اس مذہب پر لعنت بھیجوں گا جو اپنی بیٹیوں کو غیر مردوں کے ساتھ راتیں بسر کرنے اور شراب پینے کو ثواب کا کام سمجھتا ہے ''۔ بالیان اچانک بیدا ہوگیا ۔ اس نے کہا ……'' تم نے اپنی عصمت مجھ سے نہیں لُٹائی ، بلکہ میری عصمت لوٹی ہے۔ میں نے تمہیں نہیں ، بلکہ تم نے مجھے کھلونا بنائے رکھا ہے ''۔
         '' ایک مسلمان کا ایمان خریدنے کے لیے عصمت کوئی زیادہ قیمت نہیں ''۔ لڑکی نے کہا …… '' میں نے تمہاری عصمت نہیں لوٹی ، تمہارا ایمان خریدا ہے، مگر تمہیں راستے میں بھٹکتا ہوا چھوڑ کر نہیںجائو ں گی ۔ تمہیںایک عظیم روشنی کی طرف لے جا رہی ہوں ، جہاں تمہیں اپنا مستقبل اور اپنی عاقبت ہیروں کی طرح چمکتی نظر آئے گی ''۔
         '' میں اس روشنی میں نہیں جائو ں گا ''۔ بالیان نے کہا ۔
         '' دیکھو بالیان ! '' موبی نے کہا ……'' مرد، جنگجو مرد وعدے اور سودے سے نہیں پھرا کرتے ۔ تم میرا سودا قبول کر چکے ہو۔ میں نے تمہارا ایمان خرید کر شراب میں ڈبو دیا ہے اورتمہیں منہ مانگی قیمت دی ہے۔ اتنے دِنوں سے میں تمہاری لونڈی اور بے نکاحی بیوی بنی ہوئی ہوں ۔ اس سودے سے پھرو نہیں ۔ ایک کمزور لڑکی کو دھوکہ نہ دو ''۔
         '' تم نے مجھے وہ عظیم روشنی یہیں دکھا دی ہے جو تم مجھے سمندر پار لے جا کر دکھانا چاہتی ہو ''۔ بالیان نے کہا ……'' مجھے اپنا مستقبل اور اپنی عاقبت ہیروں کی طرح چمکتی نظر آنے لگی ہے ''…… موبی نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو بالیان نے گرج کر بولا ۔ '' خاموش رہو لڑکی ! صلاح الدین ایوبی میرا دشمن ہو سکتا ہے ، لیکن میں اس رسول ۖ  کا دشمن نہیں ہو سکتا جس کا صلاح الدین ایوبی بھی نام لیوا ہے۔ میں اس رسول ۖ کے نام پر مصر اور سوڈان قربان کر سکتا ہوں ۔ اس کے عظیم اورمقدس نام پر میں صلاح الدین ایوبی کے آگے ہتھیار ڈال سکتا ہوں ''۔
         '' میں تم کو کئی بار کہہ چکی ہوں کہ شراب کم پیا کرو ''۔ موبی نے کہا …… '' ایک شراب اور دوسرے رات بھر جاگنا اور میرے جسم کے ساتھ کھیلتے رہنا ۔ دیکھو تمہارا دماغ با لکل بے کا ہو گیا ہے ۔ تم یہ بھی بھول گئے ہو کہ میں تمہاری بیوی ہوں ''۔
         '' میں کسی فاحشہ صلیبی کا خاوند نہیں ہو سکتا '' ۔ اس کی نظر شراب کی بوتل پر پڑی ، اس نے بوتل اُٹھا کر پڑے پھینک دی اور اُٹھ کھڑا ہوا ۔ اس نے اپنے دوستوں کو بلایا ۔ وہ دوڑتے ہوئے آئے ۔ اُس نے کہا ۔ '' یہ لڑکیاں اور یہ لڑکی بھی تمہاری قیدی ہیں ، انہیں واپس قاہرہ لے چلو ''۔
         '' قاہرہ ؟ '' ایک نے حیران ہو کرکہا ۔ ''آپ قاہر ہ جانا چاہتے ہیں ؟''
         ''ہاں !''اس نے کہا …… '' قاہرہ ! حیران ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اس ریگزار میں کب تک بھٹکتے رہو گے ؟ کہاں جائو گے ؟ چلو ۔ گھوڑوں پر زینیں کسو اور ہر لڑکی کو ایک ایک گھوڑے کی پیٹھ پر باندھ کر لے چلو ''۔
                                                                        ٭         ٭         ٭
         صحرا میں اونٹ کا سفر بے آواز ِپا ہوتا ہے۔گھوڑوں کے پاپو ئوں کی ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دیتی ہیں ، لیکن اونٹ کے پائوں خدا نے ایسے بنائے ہیں کہ ہلکی سی آواز بھی پیدا نہیں ہوتی ۔ بالیان جس وقت موبی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا ، اسے محسوس تک نہ ہوا کہ ایک اونٹ ایک چھوٹے سے ریتلے ٹیلے کی اوٹ میں کھڑا اِن دونوں کو اور چھ لڑکیوں کو اور چھ آدمیوں کو دیکھ رہا ہے ۔ وہ صلیبی کمانڈو پارٹی کا ایک آدمی تھا ۔ اس پارٹی کا کمانڈر عقل مند آدمی تھا ۔ بالیان کے ڈیرے سے تقریباً نصف میل دُور اس نے پڑائو کیا تھا ۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کا شکار اُس سے نصف میل دُور ہے ۔ اس نے فوجی دانش مندی سے کام لیتے ہوئے رات کو تین آدمیوں کو یہ ڈیوٹی دی تھی کہ وہ اونٹوں پر سوار ہو کر دُور دُور تک گھو م آئیں اور جہاں انہیں کوئی خطرہ یا کام کی کوئی چیز نظر آئے ، آکر اطلاع کریں ۔ اس کام کے لیے اونٹ ہی موزوں سواری تھی ، کیونکہ اس کے پائوں کی آواز نہیں ہوتی ۔ تینوں سوار مختلف سمتوں کو چلے گئے تھے ۔ یہ سارا علاقہ ایسا تھا کہ پڑائو کے لیے نہایت اچھا تھا ، اس لیے کمانڈر نے سوچا تھا کہ یہاں کسی اورنے بھی ڈیرے ڈال رکھے ہوں گے۔
         ایک شتر سوار کو روشنی سی نظر آئی تو و اس طرف چل پڑا ۔ یہ ایک چھوٹی مشعل تھی جو بالیان کے عارضی کیمپ میں جل رہی تھی ۔ شتر سوا رآگے گیا تو ایک ٹیلے کے پیچھے ہو گیا ۔ یہ اتنا ہی اونچا تھا کہ اونٹ پر سوار ہو کر آگے دکھا جا سکتا تھا ۔ اونٹ اور سواراس کے پیچھے چھپ گئے تھے ۔ اسے ہلکی ہلکی روشنی میں لڑکیاں نظر آئیں جو بالیان کے فوجی دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگا رہی تھیں ۔ اُن سے کچھ دُور ایک اور لڑکی ایک آدمی کے ساتھ باتیں کر تی نظر آئی ۔ ذرا پرے بہت سے گھوڑے بندھے ہوئے تھے ۔ ان میں وہ گھوڑے بھی تھے جو اِن لوگوں نے قیدیوں کے محافظوں کو قتل کر کے حاصل کیے تھے۔
         صلیبی شتر سوا ر نے اونٹ کو موڑا ۔ کچھ دُور تک آہستہ آہستہ چلا اور پھر اونٹ دوڑا دیا ۔ اونٹ کے لیے نصف میل کا فاصلہ کچھ بھی نہیں تھا ۔ سوا نے اپنی پارٹی کو خوش خبری سنائی کو شکار ہمارے قدموں میں ہے ۔ کمانڈر نے ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا ۔ شتر سوا ر سے ہدف کی تفصیل پوچھی اور پارٹی کو پیدل چلا دیا ۔ گھوڑوں کے قدموں کی آواز سے شکار کے چوکنا ہوجانے کا خطرہ تھا …… جس وقت یہ پارٹی بالیان کے ڈیرے تک پہنچی ، بالیان حکم دے چکا تھا کہ ایک ایک لڑکی گھوڑے کی پیٹھ پر باندھ دو ۔ اس کے دوست حیرت ذدہ ہو کہ بالیان کو دیکھ رہے تھے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔ انہوں نے اس کے ساتھ بحث شروع کر دی اور وقت ضائع ہوتا رہا ۔ بالیان نے انہیں بڑی مشکل سے قائل کیا وہ جو کچھ کہہ رہا ہے ، ہوش ٹھکانے رکھ کر کہہ رہا ہے اور قاہرہ چلے جانے میں ہی عافیت اور مصلحت ہے ۔
         لڑکیاں پریشانی کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھیں۔بالیان کے آدمیوں نے گھوڑوں پر زینیں ڈالیں اور لڑکیوں کو پکڑ لیا ۔ اچانک اُن پر آفت ٹوٹ پڑی ۔بالیان نے بلند آواز سے بار بار کہا ……'' ہم ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں ۔ لڑکیوں کو قاہر ہ لے جا رہے ہیں ''……وہ حملہ آوروں کو سلطان ایوبی کے فوجی سمجھ رہا تھا ، لیکن ایک خنجر نے اس کے دِل میں اُتر کر اُسے خاموش کر دیا ۔ اس کے دوست اتنے زیادہ آدمیوں کے ایسے اچانک حملے کا مقابلہ نہ کر سکے ۔ سنبھلنے سے پہلے ہی ختم ہو گئے ۔ صلیبیوں کا چھاپہ کامیاب تھا ۔ لڑکیاں آزاد ہو چکی تھیں۔ چھاپہ مار انہیں فوراً اپنی جگہ لے گئے ۔ انہوں نے کمانڈر کو پہچان لیا ۔ وہ بھی ان کی پارٹی کا جاسوس تھا ۔ انہوں نے رات وہیں بسر کرنے کا فیصلہ کیا اور پہرے کے لیے دو سنتری کھڑے کر دئیے جو ڈیرے کے ارد گرد گھومنے لگے ۔
                                                                                 ٭         ٭         ٭
         سلطان ایوبی کے بھیجے ہوئے سوار ، اس جگہ سے ابھی دُور تھے ، جہاں قیدی لڑکیاں بالیان کے آدمیوں نے رہا کرائیں تھیں ۔ رات کو بھی چلے جا رہے تھے ۔ وہ تعاقب میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ راہنما اُن کے ساتھ تھا ۔ وہ راستہ اور جگہ بھولا نہیں تھا ۔ وہ انہیں اس جگہ لے گیا جہاں اُن پر حملہ ہوا تھا ۔ ایک مشعل جلا کردیکھا گیا ، وہاں رابن اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں اور اُن کے محافظوں کی لاشیں پڑی تھیں ۔ یہ چیری پھاڑی اور کھائی ہوئی تھیں ۔ اُس وقت بھی صحرائی لومڑیاں اور گیڈر انہیں کھا رہے تھے ۔ سواروں کو دیکھ کر یہ درندے بھاگ گئے۔ دن کے وقت انہیں گدھ کھاتے رہے تھے ۔ محافظ اپنے کمانڈر کو اُس جگہ لے گیا جہاں سے اس نے گھوڑا کھولا تھا ۔ وہاں سے مشعل کی روشنی میں زمین دیکھی گئی تھی۔ گھوڑوں کے قدموں کے نشان نظر آرہے تھے اور سمت کی نشان دہی کر رہے تھے ، جدھر یہ گئے تھے ، مگر رات کے وقت ان نشانوں کو دیکھ دیکھ کر چلنا بہت مشکل تھا ۔ وقت ضائع ہونے کا اور بھٹک جانے کا ڈر تھا ۔ رات کو وہیں قیام کیا گیا۔
          صلیبی پارٹی کے کیمپ میں سب جاگ رہے تھے ۔ وہ بہت خوش تھے ۔ کمانڈر نے فیصلہ کیا تھا کہ سحر کی تاریکی میں بحیرئہ روم کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔ اس وقت میگناناماریوس نے کہا کہ مقصد ابھی پورا نہیں ہوا ۔ صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنا باقی ہے۔ کمانڈر نے کہا کہ یہ اُس صورت میں ممکن تھا کہ وہ لڑکیوں کے پیچھے قاہرہ چلے جاتے ۔ اب وہ قاہرہ سے بہت دور ہیں ، اس لیے قتل کی مہم ختم کی جاتی ہے ۔
         '' یہ میری مہم ہے ، جسے موت کے سوا کوئی ختم نہیں کر سکتا ''۔ میگنا ناماریوس نے کہا …… ' ' میں نے صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے کا حلف اُٹھایا تھا۔ مجھے ایک ساتھی اور ایک لڑکی کی ضرورت ہے ''۔
         '' یہ فیصلہ مجھے کرنا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے '' …… کمانڈر نے کہا …… '' سب پر فرض ہے کہ میرا حکم مانیں ''۔
         '' میں کسی کے حکم کا پابند نہیں '' ۔ میگنا ناماریوس نے کہا ۔'' تم سب خدا کے حکم کے پابند ہو ''۔
         کمانڈر نے اُسے ڈانٹ دیا ۔  میگنا ناماریوس کے پاس تلوار تھی ۔ و ہ اُٹھ کھڑا ور کمانڈر پر تلوار سونت لی ۔ اُن کے ساتھی درمیان میں آگئے ۔  میگنا ناماریوس نے کہا …… ' ' میں خدا کا دھتکارا ہوا انسان ہوں ۔ میں گناہ اور بے انصافی کے درمیان بھٹک رہا ہوں ۔ کیا تم جانتے ہو ، مجھے تیس سالوں کے لیے قید خانے میں قید کیوں کیا گیا تھا ؟ پانچ سال گزرے میری ایک بہن جس کی عمر سولہ سال تھی ، اغوا کر لی گئی تھی ۔ میں غریب آدمی ہوں ، میرا باپ مر چکا ہے ، ماں اندھی ہے ، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، محنت مشقت کر کے میں ان سب کا پیٹ پالتا تھا ۔ میں نے گرجے میں صلیب پر لٹکے ہوئے یسوع مسیح کے بت سے بہت دفعہ پوچھا تھا کہ میں غریب کیوں ہوں ؟میں نے کبھی گناہ نہیں کیا ۔ میں دیانت داری سے اتنی محنت کرتا ہوں ، مگر میرے کنبے کے پیٹ پھر بھی خالی رہتے ہیں ۔ میری ماں کو خدا نے کیوں اندھا کیا ہے ؟ یسوع مسیح نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا اور جب کنوری بہن اغوا ہو گئی تو میں نے گرجے میں جا کر کنواری مریم کی تصویر سے پوچھا تھا کہ میری کنواری بہن کے کنوارے پن پر تجھے ترس کیوں نہیں آیا ؟وہ معصوم تھی ۔ اس پر خدا نے یہ ظلم کیا تھا کہ اسے خوبصورتی دے دی تھی ۔ مجھے یسوع مسیح نے بھی کوئی جواب نہیں دیا ۔مجھے کنواری مریم نے بھی کوئی جواب نہیں دیا ۔
         '' ایک روز مجھے ایک بہت ہی امیر آدمی کے نوکر نے بتایا کہ تمہاری بہن اس امیر آدمی کے گھر میں ہے۔ وہ عیاش آدمی ہے ۔ کنواریوں کو اغوا کرتا ہے ، تھوڑے دن اُس کے ساتھ کھیلتا ہے اور انہیں کہیں غائب کر دیتا ہے ، لیکن وہ آدمی بادشاہ کے دربار میں بیٹھتا ہے ۔ لوگ اس کی عزت کرتے ہیں ۔ بادشاہ نے اُسے رُتبے کی تلوار دی ہے ۔ گناہ گار ہوتے ہوئے خدا اس پر خوش ہے ۔ دُنیا کا قانون اُس کے ہاتھ میں کھلونا ہے ……میں اس کے گھر گیا اور اپنی بہن واپس مانگی۔ اس نے مجھے دھکے دیکر اپنے محل سے نکال دیا۔میں پھر گرجے میں گیا ۔یسوے مسیح کے بت اور کنواری مریم کی تصویر کے آگے رویا ۔خدا کو پکارا ۔مجھے کسی نے جواب نہیں دیا ۔میں گرجے میں اکیلا تھا۔ پادری آگیا۔اس نے مجھے ڈانٹ کر گرجے سے نکال دیا ۔کہنے لگا ...........یہاں سے دو تصویریں چوری ہو چکی ہیں ،نکل جائو ، ورنہ پولیس کے حوالے کر دوں گا ..........میں نے حیران ہوکر اس سے پوچھا .........کیا یہ خدا کا گھر نہیں ہے ؟ ............اس نے جواب دیا .............تم مجھ سے پوچھے بغیر خدا کے گھر میں کیسے آئے ۔اگر گناہوں کی معافی مانگنی ہے تو میرے پاس آئو ۔اپنا گناہ بیان کرو ۔میں خدا سے کہوں گا کہ تمہیں بخش دے ۔تم خدا سے براہِ راست کوئی بات نہیں کرسکتے ۔جائونکلو یہاں سے ...........اور میرے دوستو !مجھے خدا کے گھر سے نکال دیا گیا ۔
         وہ ایسے لہجے میں بول رہا تھا کہ سب پر سناٹا طاری ہوگیا ۔لڑکیوں کے آنسو نکل آئے ۔صحرا کی رات کے سکوت میں اس کی باتوں کا تاثر سب پر طلسم بن کر طاری ہو گیا ۔
         وہ کہہ رہا تھا ……'' میں پادری کو ، یسوع مسیح کے بت کو ، کنواری مریم کی تصویر کو اور اُس خدا کو جو مجھے گرجے میں نظر نہیں آیا ، شک کی نظروں سے دیکھتا نکل آیا ۔ گھر گیا تو اندھی ماں نے پوچھا ۔ '' میری بچی آئی یا نہیں ؟ میری بیوی نے پوچھا ، میرے بچوں نے پوچھا ۔میں بھی بت اور تصویر کی طرح چپ رہا ، مگر میرے اندر سے ایک طوفان اُٹھا اور میں باہر نکل گیا۔ میں سارا دن گھومتا پھرتا رہا۔ شام کے وقت میں نے ایک خنجرخریدا اور دریا کے کنارے ٹہلتا رہا۔ رات اندھیری ہوگئی اور بہت دیر بعد میں ایک طرف چل پڑا ۔ مجھے اس محل کی بتیاں نظر آئیں جہاں میری بہن قید تھی ۔ میں بہت تیز چل پڑا اور اس محل کے پچھواڑے چلا گیا ۔ میں اتنا چالاک اور ہو شیار آدمی نہیں تھا ، لیکن مجھ میں چالاکی آ گئی ۔ میں پچھلے دروازے سے اندر چلا گیا۔ محل کے کسی کمرے میں شور شرابا تھا ۔ شاید کچھ لوگ شراب پی رہے تھے ۔ میں ایک کمرے میں داخل ہوا تو ایک نوکر نے مجھے روکا ۔ میں نے خنجر اس کے سینے میں رکھ دیا اور اپنی بہن کا نام بتا کر پوچھا کہ وہ کہاں ہے ۔ نوکر مجھے اندرکی سیڑھیوں سے اوپر لے گیا اور ایک کمرے میں داخل کرکے کہا کہ یہاں ہے۔ میں اندر گیا تو میرے پیچھے دروازہ بند ہوگیا۔ کمرہ خالی تھا ……
         '' دروازہ کھلا اور بہت سے لوگ اندر آگئے۔ اُن کے پاس تلواریں اور ڈنڈے تھے ۔ میں نے کمرے کی چیزیں اُٹھا اُٹھا کر اُن پر پھینکنی شروع کر دیں۔ بہت توڑ پھوڑ کی ۔ انہوں نے مجھے پکڑ لیا ۔ مجھے مارا پیٹا اور میں بے ہوش ہو گیا ۔ ہوش میں آیا تو میں ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا ۔ میرے خلاف الزام یہ تھے کہ میں نے ڈاکہ ڈالا ، بادشاہ کے درباری کا گھر برباد کیا اور تین آدمیوں کو قتل کی نیت سے زخمی کیا۔ میری فریاد کسی نے نہ سنی اور مجھے تیس سال سزائے قید دے کر قید خانے کے جہنم میں پھینک دیا ۔ ابھی پانچ سال پورے ہوئے ہیں ۔ میں انسان نہیں رہا۔ تم قید خانے کی سختیاں نہیں جانتے ۔ دن کے وقت مویشیوں جیسا کا م لیتے ہیں اور رات کوکتوں کی طرح زنجیر ڈال کر کوٹھریوں میں بند کر دیتے ہیں ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میر ی اندھی ماں زندہ ہے یا مر چکی ہے ۔ بیوی بچوں کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا ۔ مجھے خطرناک ڈاکو سمجھ کر کسی سے ملنے نہیں دیا جاتا تھا ……
         '' میں ہر رقت سوچتا رہتا تھا کہ خدا سچا ہے یا میں سچا ہوں۔ سنا تھا کہ خدا بے گناہوں کو سزا نہیںدیتا ، مگر مجھے خدا نے کس گناہ کی سزادی تھی ؟ میرے بچوں کو کس گنا ہ کی سزا دی تھی ؟ میں پانچ سال اسی اُلجھن میں مبتلا رہا ۔ کچھ دِن گزرے، فوج کے دو افسر قید خانے میں آئے ۔ وہ اس کا م کے لیے جس ہم آئے ہوئے ہیں ، آدمی تلاش کر رہے تھے ۔ میں اپنے آپ کو پیش نہیں کرنا چاہتا تھا ، کیونکہ یہ بادشاہوں کی لڑائی جھگڑے تھے۔ مجھے کسی بادشاہ کے ساتھ دلچسپی نہیں تھی ، لیکن میں نے جب سنا کہ چند ایک عیسائی لڑکیوں کو مسلمانوں کی قید سے آزاد کرانا ہے تو میرے دل میں اپنی بہن کاخیال آگیا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسلمان قابلِ نفرت قوم ہے۔ میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں عیسائی لڑکیوں کو مسلمانوں کی قید سے آزاد کرائوں گا تو خدا اگر سچا ہے تو میری بہن کو اُس ظالم عیسائی کی پنجے سے چھڑا دے گا ، پھر فوجی افسروں نے کہا کہ ایک مسلمان بادشاہ کو قتل کرنا ہے تو میں نے اسے جزا کا کام سمجھا اور اپنے آپ کو پیش کر دیا ، مگر شرط یہ رکھی کہ مجھ اتنی رقم دی جائے جو میں اپنے کنبے کو دے سکوں ۔ انہوں نے رقم دینے کا وعدہ کیا اور یہ بھی کہا کہ اگر تم سمندر پار مارے گئے تو تمہارے کنبے کو اتنی زیادہ رقم دی جائے گی کہ ساری عمر کے لیے وہ کسی کے محتاج نہیں رہیں گے ''۔
         اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا …… '' یہ دو میرے ساتھ قیدخانے میں تھے۔ انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کر دیا ۔ ہم سے سینکڑوں باتیں پوچھیں گئیں ۔ ہم تینوں نے انہیں یقین دلادیا کہ ہم اپنی قوم اور اپنے مذہب کو دھوکہ نہیں دیں گے۔ میں نے دراصل اپنے کنبے کے لیے اپنی جان فروخت کر دی ہے ۔ قید خانے سے نکالنے سے پہلے ایک پادری نے ہمیں بتایا کہ مسلمانوں کا قتل عام تمام گناہ بخشوا دیتا ہے اور عیسائی لڑکیوں کو مسلمانوں کی قید سے آزاد کرائو گے تو سیدھے جنت میں جائو گے ۔ میں نے پادری سے پوچھا کہ خدا کہاں ہے ؟اس نے جو جواب دیا ، اس سے میری تسلی نہ ہوئی ۔ میں نے صلیب پر ہاتھ رکھکر حلف اُٹھایا۔ہمیں باہر نکالا گیا ، مجھے میرے گھر لے گئے ۔ میرے گھر والوں کوانہوں نے بہت سی رقم دی ۔ میں مطمئن ہو گیا۔ اب میرے دوستو ! مجھے اپنا حلف پورا کرنا ہے ۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرا خدا کہاں ہے ۔ کیاایک مسلمان بادشاہ کو قتل کر کے خدا نظر آ جائے گا ''۔
         '' تم پاگل ہو '' کمانڈر نے کہا ۔''تم نے جتنی باتیں کی ہیں ، ان میں مجھے عقل کی ذرا سی بھی بو نہیں آئی ''۔
         '' اس نے بڑی اچھی باتیں کیں ہیں ''۔اس کے ایک ساتھی نے کہا ۔''میں اس کا ساتھ دوں گا ''۔
         '' مجھے ایک لڑکی کی ضرورت ہے '' ۔ میگنا نا ماریوس نے لڑکیوں کی طرف دیکھ کر کہا ۔'' میں لڑکی کی جان اور عزت کا ذمہ دار ہوں ۔ لڑکی کے بغیر میں صلاح الدین ایوبی تک نہیں پہنچ سکوں گا ۔ میں جب سے آیا ہوں ۔ سوچ رہا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی کے ساتھ تنہائی میں کس طرح مل سکتا ہوں ''۔
         موبی اُٹھ کر اس کے ساتھ جا کھڑی ہوئی اور بولی … … '' میں اس کے ساتھ جائوں گی ''۔
         '' ہم تمہیں بڑی مشکل سے آزاد کرا کے لائیں ہیں موبی !'' کمانڈر نے کہا …… '' میں تمہیں ایسی خطرناک مہم پر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا ''۔
         '' مجھے اپنی عصمت کا انتقام لینا ہے ''۔ موبی نے کہا …… '' میں صلاح الدین ایوبی کی خواب گاہ میں آسانی سے داخل ہو سکتی ہوں ۔ مجھے معلوم ہے کہ مسلمان کا رُتبہ جتنا اونچا ہوتا ہے ، وہ خوبصورت لڑکیوں کا اتنا ہی شیدائی ہو جاتا ہے ۔ صلاح الدین ایوبی کو محسوس تک نہ ہوگا کہ وہ اپنی زندگی میں آخری لڑکی دیکھ رہا ہے ''۔
         بہت دیر بحث اور تکرار کے بعد میگنا نا ماریوس اپنے ایک ساتھی اور موبی کے ساتھ اپنی پارٹی سے رخصت ہوا ۔ سب نے انہیں دعائوں کے ساتھ الوداع کہا ۔انہوں نے دو اونٹ لیے ۔ ایک پر موبی سوائی ہوئی اور دوسرے پر دونوں مرد ۔ اُن کے پاس مصر کے سکے تھے اور سونے کی اشرفیاں بھی ۔ دونوں مردوں نے چغے اوڑھ لیے تھے ۔ میگنا نا ماریوس کی داڑھی خاصی لمبی ہو گئی تھی ۔ قید خانے میں دھوپ میں مشقت کر کرکے اس کا رنگ اٹلی کے باشندوں کی طرح گورا نہیں رہا تھا ۔ سیاہی مائل ہوگیا تھا ۔اس سے اس پر یہ شک نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ یورپی ہے ۔ بھیس بدلنے کے لیے انہیں کپڑے دے کر بھیجا گیا تھا ، مگر ایک رکاوٹ تھی جس کا بظاہر کوئی علاج نہیں تھا ۔ وہ یہ کہ میگناناماریوس اٹلی کی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتا تھا ۔ موبی مصر کی زبان بول سکتی تھی ۔ دوسرا جو آدمی ان کے ساتھ گیاتھا ، وہ بھی مصر کی زبان نہیں جانتا تھا ۔ انہیں اس کا کو ئی علا ج کرنا تھا ۔
         وہ رات کو ہی چل پڑے ۔ موبی راستے سے واقف ہو چکی تھی ۔ وہ قاہر ہ سے ہی آئی تھی ۔ میگنا نا ماریوس نے اس پر بھی ایک چغہ ڈال دیا اور اس کے سر پر دوپٹے کی طرح چادر اوڑھ دی ۔
                                                                        ٭         ٭         ٭
         صبح کی روشنی میں سلطان ایوبی کے اُن سواروں کا دستہ جو اُن کے تعاقب میں گیاتھا ، گھوڑوں کے کھرے دیکھ کر روانہ ہوگیا ۔ یہ بہت سے گھوڑوں کے نشان تھے ، جو چھپ ہی نہیں سکتے تھے ۔ صبح سے پہلے صلیبیوں کے پارٹی لڑکیوں کو ساتھ لے کر چل پڑی ۔اُن کی رفتار خاصی تیز تھی ۔ ان کے تعاقب میں جانے والوں کا سفر رُک گیا ، کیونکہ رات کے وقت وہ زمین کو دیکھ نہیں سکتے تھے ، مگر صلیبیوں نے سفر جاری رکھا ۔ وہ آدھی رات کے وقت پڑائو کر نا چاہتے تھے ، وہ بہت جلدی میں تھے ۔
         صبح کے دھندلکے میں صلیبی جو آدھی رات کے وقت رُکے تھے ، چل پڑے ۔ اُن کے تعاقب میں جانے والوں کی پارٹی صبح کی روشنی میں روانہ ہوئی ۔ میگناناماریوس نے عقل مندی کی تھی کہ وہ اونٹوں پر گیا تھا ۔ اونٹ بھوک اور پیاس کی پرواہ نہیں کرتا ۔ رُکے بغیر گھوڑے کی نسبت بہت زیادہ سفر کر لیتا ہے ۔ اس سے میگناناماریوس کا سفر تیز ی سے طے ہو رہا تھا ۔
         سورج غروب ہونے میںابھی بہت دیر تھی ، جب انہیں لاشیں نظر آئیں ۔ علی بن سفیان کے نائب نے بالیان کی لاش پہچان لی ۔ اُس کا چہرہ سلامت تھا ۔ اُس کے قریب اس کے چھ دوستوں کی لاشیں پڑی تھیں ۔ گِدھوں اور درندوں نے زیادہ تر گوشت کھا لیا تھا ۔ سوار حیران تھے کہ یہ کیا معاملہ ہے ۔ خون بتا تا تھا کہ انہیں مرے ہوئے زیادہ دِن نہیں گزرے ۔ اگر یہ بغاوت کی رات مرے ہوتے تو خون کا نشان تک نہ ہوتا اور اُ ن کی صرف ہڈیاں رہ جاتیں ۔ یہ ایک معمہ تھا جسے کوئی نہ سمجھ سکا ، وہاں سے پھر گھوڑوں کے نشان چلے ۔ سواروں نے گھوڑے دوڑا دئیے ۔ نصف میل تک گئے تو اونٹوں کے پائوں کے نشان بھی نظر آئے ۔ وہ بڑھتے ہی چلے گئے ۔ سورج غروب ہوا تو بھی نہیں رُکے ، کیونکہ اب مٹی کے اونچے نیچے ٹیلوں کا علاقہ شروع ہو گیا تھا ، جس میں ایک راستہ بل کھاتا ہوا گزرتا تھا ۔ اس کے علاوہ وہا ں سے گزرنے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔
         صلیبی اسی راستے سے گزرے تھے اور بحیرئہ روم کی طر ف چلے جا رہے تھے ۔ ٹیلوں کا علاقہ دُور تک پھیلا ہوا تھا ، وہاں سے تعاقب کرنے والے نکلے تو رُک گئے ، کیونکہ آگے ریتلا میدان آ گیا تھا ۔
         صبح کے وقت چلے تو کسی نے کہا کہ سمندر کی ہوا آنے لگی ہے ۔ سمندر دُور نہیں تھا مگر صلیبی ابھی تک نظر نہیں آئے تھے ۔ راستے میں ایک جگہ کھانے کے بچے کھچے ٹکڑوں سے پتہ چلا کہ رات یہاں کچھ لوگ رُکے تھے ۔ گھوڑے بھی یہاں باندھے گئے تھے ۔ پھر یہ گھوڑے وہاں سے چلے ۔ زمین کو دیکھ تعاقب کرنے والوں نے گھوڑوں کوایڑ یں لگا دیں۔ سورج اپنا سفر طے کرتا گیا اور آگے نکل گیا ۔ گھوڑوں کو ایک جگہ آرام دیا گیا ۔ پانی پلایا اور یہ دستہ روانہ ہو گیا ۔ سمندر کی ہوائیں تیز ہوگئی تھیں اور ان میں سمندر کی بُو صاف محسوس ہوتی تھی ۔ پھر ساحل کی چٹانیں نظر آنے لگیں۔ زمین بتا رہی تھی کہ گھوڑے آگے آگے جا رہے ہیں اور یہ بے شمار گھوڑے ہیں ۔
         ساحل کی چٹانیں گھوڑوں کی رفتار سے قریب آرہی تھیں ۔ تعاقب کرنے والوں کو ایک چٹان پر دو آدمی نظر آئے ۔ وہ اس طرف دیکھ رہے تھے ۔ وہ تیزی سے سمندر کی طرف اُتر گئے ۔ گھوڑے اور تیز ہو گئے ۔ چٹانوں کے قریب گئے تو انہیں گھوڑے روکنے پڑے ، کیونکہ کئی جگہوں سے چٹانوں کے پیچھے جایا جا سکتا تھا ۔ایک آدمی کو چٹان پر چڑھ کر آگے دیکھنے کو بھیجا گیا ۔ وہ آدمی گھوڑے سے اُتر کر دوڑتا گیا اور ایک چٹان پر چڑھنے لگا ۔ اوپر جا کر اس نے لیٹ کر دوسری طرف دیکھا اور پیچھے ہٹ آیا ۔ وہیں سے اس نے سواروں کو اشارہ کیا کہ پیدل آئو ۔ سوار گھوڑوں سے اُترے اور دوڑتے ہوئے چٹان تک گئے ۔ سب سے پہلے علی بن سفیان کا نائب اوپر گیا ۔ اس نے آگے دیکھا اور دوڑ کر نیچے اُترا۔ اس نے اپنے دستے کو بکھیر دیا اور انہیں مختلف جگہوں پر جانے کو کہا ۔
         دوسری طرف سے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں آرہی تھیں ۔ صلیبی وہاں موجود تھے ۔ یہ وہ جگہ تھی، جہاں سمندر چٹانوں کو کاٹ کر اندر آجاتا تھا ۔ اس پارٹی نے اپنی کشتی وہاں باندھی تھی ۔وہ گھوڑوں سے اُتر کر کشتی میں سوار ہو رہے تھے ۔ کشتی بہت بڑی تھی ۔ لڑکیاں کشتی میں سوار ہو چکی تھیں ۔ گھوڑے چھوڑ دئیے گئے تھے ۔ اچانک اُن پر تیر برسنے لگے ۔
         تمام کو ہلاک نہیں کرنا تھا ۔ انہیں زندہ پکڑنا تھا ۔ بہت سے کشتی سے کود گئے اور کشتی کے چپو مارنے لگے ۔ پیچھے جو رہ گئے وہ تیروں کا نشانہ بن گئے تھے ۔ کشتی میں جانے والوں کو للکارا گیا ، مگر وہ نہ رُکے ، وہاں سمندر گہرا تھا ۔ کشتی آہستہ آہستہ جاری تھی ۔ اِدھر سے اشارے پر تیر اندازوں نے کشتی پر تیر برسا دئیے ۔ چپوئوں کی حرکت بند ہو گئی ۔ تیروں کی دوسری باڑ گئی ، پھر تیسری اور چوتھی باڑ لاشوں میں پیوست ہوگئی ۔ اُن میں اب کوئی بھی زندہ نہیں تھا ۔ کشتی وہیں ڈولنے لگی ۔ سمندر کی موجیں ساحل کی طرف آتیں اور چٹانوں سے ٹکڑا کر واپس چلی جاتی تھیں ۔ ذرا سی دیر میں کشتی ساحل پر واپس آگئی ۔ سوارو ں نے نیچے جا کر کشتی پکڑ لی ، وہاں صرف لاشیں تھیں ، بعض کو دو دو تیر لگے تھے ۔
         کشتی کو باندھ دیا گیا اور سواروں کا دستہ محاذ کی طرف روانہ ہوگیا ۔ کیمپ دُور نہیں تھا ۔
                                                                        ٭         ٭         ٭
         میگنا نا ماریوس قاہرہ کی ایک سرائے میں قیام پذیر تھا ۔ اس سرائے کا ایک حصہ عام اور کمترمسافروں کے لیے تھا اور دوسرا حصہ امراء اور اونچی حیثیت کے مسافروں کے لیے ۔ اس حصے میں دولت مند تاجر بھی قیام کرتے تھے ۔ اُن کے لیے شراب اور ناچنے گانے والیاں بھی مہیا کی جاتی تھیں ۔ میگنا نا ماریوس اسی خاص حصے میں ٹھہرا ۔ موبی کو اُس نے اپنی بیوی بتایا اور اپنے ساتھی کو معتمد ملازم ۔ موبی کی خوبصورتی اور جوانی نے سوائے والوں پر میگنا نا ماریوس کا رعب طاری کر دیا ۔ ایسی حسین اور جوان بیوی کسی بڑے دولت مند ہی کی ہو سکتی تھی ۔ سرائے والوں نے اس کی طرف خصوصی توجہ دی ۔ موبی نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے صلاح الدین ایوبی کے گھر اور دفتر کے متعلق معلومات حاصل کر لیں ۔ اس نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ سلطان ایوبی نے سوڈانیوں کو معافی دے دی ہے اور سوڈانی فوج توڑ دی ہے ۔ اسے یہ بھی پتہ چل گیاکہ سوڈانی سالاروں اور کمانداروںوغیرہ کے حرم خالی کر دئیے گئے ہیں اور یہ بھی کہ انہیں زرعی زمینیں دی جارہی ہیں ۔
         یہ میگنا نا ماریوس کی غیر معمولی دلیری تھی یا غیر معمولی حماقت کہ وہ اس ملک کی زبان تک نہیںجانتاتھا ۔ پھر بھی انتے خطرناک مشن پر آگیا تھا ۔ اُسے اس قسم کے قتل کی اور اتنے بڑے رتبے کے انسان تک رسائی حاصل کرنے کی کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی تھی ۔ وہ ذہنی لحاظ سے انتشار اور خلفشار کا مریض تھا ، پھر بھی وہ صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے آیا، جس کے اردگرد محافظوں کا پورا دستہ موجود رہتا تھا۔ اس کے دستے کے کمانڈر نے اسے کہا تھا کہ تم پاگل ہو، تم نے جتنی باتیں کی ہیں ۔ ان میں ذرا سی بھی عقل کی بو نہیں آئی ۔ مظاہر میگنا نا ماریوس پاگل ہی تھا ۔
         یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بڑے آدمیوں کو قتل کرنے والے عموماً پاگل ہوتے ہیں ۔ اگر پاگل نہیں تو اُن کے ذہنی توازن میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہوتی ہے ۔ یہی کیفیت اٹلی کے اس سزا یافتہ آدمی کی تھی ۔ اس کے پاس ایک ہتھیار ایسا تھا جو ڈھال کا کام بھی دے سکتا تھا ۔ یہ تھی موبی ۔ موبی مصر کی صرف زبان ہی نہیں جانتی تھی ، بلکہ اُسے اور اس کی مری ہوئی چھ ساتھی لڑکیوںکو مصری اور عربی مسلمانوں کے رہن سہن، تہذیب و تمدن اور دیگر معاشرتی اونچ نیچ کے متعلق لمبے عرصے کے لیے ٹریننگ دی گئی تھی ۔ وہ مسلمان مردوں کی نفسیات سے بھی واقف تھی ۔ اداکاری کی ماہر تھی اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ وہ مردوں کو انگلیوں پر نچانا اور بوقتِ ضرورت اپنا پورا جسم ننگا کرکے کسی مرد کو پیش کرنا جانتی تھی ۔
         یہ تو کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ بند کمرے میں میگنا نا ماریوس ، موبی اور ان کے ساتھی نے کیاکیا باتیں کیں اور کیا منصوبہ بنایا ۔ البتہ ایسا ثبوت پرانی تحریروں میں ملتا ہے کہ تین چار روزسرائے میں قیام کے بعد میگنا نا ماریوس باہر نکلا ، تو اس داڑھی دُھلی دھلائی تھی ۔ اس کے چہرے کا رنگ سوڈانیوں کی طرح گہرا بادامی تھا ، جو مصنوعی ہو سکتا تھا ، لیکن مصنوعی لگتا نہیں تھا ۔ اس نے معمولی قسم کا چغہ اور سر پر معمولی قسم کا رومال اورعمامہ باند ھ رکھا تھا ۔ موبی سر سے پائوں تک سیاہ برقعہ نما لبادے میں تھی اور اس کے چہرے پر باریک نقاب اس طرح پڑا تھا کہ ہونٹ اور ٹھوڑی ڈھکی ہوئی تھی خ پیشانی تک چہرہ ننگا تھا۔ پیشانی پر اس کے بھورے ریشمی بال پڑے ہوئے تھے اور اس کا حسن ایسا نکھرا ہوا تھاکہ راہ جاتے لوگ رُک کر دیکھتے تھے۔ ان کا ساتھی معمولی سے لباس میں تھا ، جس سے پتہ چلتا تھا کہ نوکر ہے۔ سرائے کے باہر دو نہایت اعلیٰ نسل کے گھوڑے کھڑے تھے ۔ یہ سرائے والوں نے میگنا نا ماریوس کے لیے اُجرت پر منگوائے تھے ، کیونکہ اُس نے کہا تھا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سیر کے لیے جانا چاہتا ہے ۔ میگنا نا ماریوساور موبی گھوڑوں پر سوار ہوگئے اور جب گھوڑے چلے تو ان کاساتھی نوکروں کی طرح پیچھے پیچھے چل پڑا ۔
         صلاح الدین ایوبی اپنے نائبین کو سامنے بٹھائے سوڈانیوں کے متعلق احکامات دے رہا تھا ۔ وہ یہ کام بہت جلدی ختم کرنا چاہتا تھا ،کیو نکہ اُس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ سلطان زنگی کی بھیجی ہوئی فوج، مصر کی نئی فوج اور وفادار سوڈانیوں کو ساتھ ملا کر ایک فوج بنائے گا اور فوری طور پر یروشلم پر چڑھائی کرے گا ۔ بحیرئہ روم کی شکست کے بعد ، جبکہ سلطان زنگی نے فرینکوں کو بھی شکست دے دی تھی ، ایک لمبے عرصے تک صلیبیوں کے سنبھلنے کا کوئی امکان نہیں تھا ۔ ان کے سنبھلنے سے پہلے ہی سلطان ایوبی ان سے یروشلم چھین لینے کا منصوبہ بنا چکا تھا ۔ اس سے پہلے وہ سوڈانیوں کو زمینوں پر آباد کر دینا چاہتا تھا ، تا کہ کھیتی باڑی میں اُلجھ جائیں اور ان کی بغاوت کا امکان نہ رہے ۔
         نئی فوج کی تنظیمِ نو اور ہزار سوڈانیوں کو زمینوں پر آباد کرنے کا کام آسان نہیں تھا ۔ ان دونوں کاموں میں خطرہ یہ تھا کہ سلطان ایوبی کی فوج اوراپنی انتظامیہ میں ایسے اعلیٰ افسر موجود تھے جو اُسے مصر کی امارت کے سرابراہ کی حیثیت سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ سوڈانیوں کی فوج کو توڑ کربھی سلطان ایوبی نے اپنے خلاف خطرہ پیدا کر لیا تھا ۔ اس فوج کے چندایک اعلیٰ حکام زندہ تھے ۔ انہوں نے سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کر لی تھی ، مگر علی بن سفیان کی انٹیلی جنس بتا رہی تھی کہ بغاوت کی راکھ میں ابھی کچھ چنگاریاں موجود ہیں ۔
         انٹیلی جنس کی رپورٹ یہ بھی تھی کہ ان باغی سربراہوں کی اپنی شکست کا اتنا افسوس نہیں ، جتنا صلیبیوں کی شکست کا غم ہے ، کیونکہ وہ بغاوت دب جانے کی بعد بھی صلیبیوں سے مدد لینا چاہتے تھے اور مصرکی انتظامیہ اور فوج کے دو تین اعلیٰ حکام کو سوڈانیوں کی شکست کا افسوس تھا ، کیونکہ وہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ صلاح الدین ایوبی مارا جائے گا ییا بھاگ جائے گا ۔ یہ ایمان فروشوں کا ٹولہ تھا ، لیکن سلطان ایوبی کاایمان مضبوط تھا ۔ اس نے مخالفین سے واقف ہوتے ہوئے بھی اُن کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی ۔ اُن کے ساتھ نرمی اورخلوص سے پیش آتا رہا۔ کسی محفل میں اُس نے ان کے خلاف کوئی بات نہ کی اورجب کبھی اس نے ماتحتوں سے اور فوج سے خطاب کیا توایسے الفاظ کبھی نہ کہے کہ میں اپنے مخالفین کو مزہ چکھادوں گا۔ کبھی دھمکی آمیز یا طنزیہ الفاظ استعمال نہیں کیے ۔ البتہ ایسے الفاظ اکثر اس کے منہ سے نکلتے تھے ……'' اگر کسی ساتھی کو ایمان بیچتا دیکھو تو اُسے روکو ۔ اسے یاد دلائو کہ وہ مسلمان ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کرو تاکہ وہ دشمن کے اثر سے آزاد ہوجائے '' …… لیکن در پردہ مخالفین کی سر گرمیوں سے باخبر رہتا تھا ۔ علی بن سفیان کا محکمہ بہت ہی زیادہ مصروف ہوگیا تھا ۔ سلطان ایوبی کو زیرِ زمین سیاست کی اطلاعیں باقاعدگی سے دی جارہی تھیں ۔
         اب اس محکمے کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔ محافظوں اور شتربانوں کے قتل کی اطلاع بھی قاہرہ آچکی تھی ۔ اس سے پہلے جاسوسوں کا گروہ جس میں لڑکیاں بھی تھیں ۔ محافظوں سے نا معلوم افراد نے آزاد کرالیا تھا ۔ ان دو واقعات نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ ملک میں صلیبی جاسوس اور چھاپہ مار موجود ہیں اور یہ بھی ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں یہاں کے باشندوں کی پشت پناہی اور پناہ حاصل ہے ۔ ابھی یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ چھاپہ مار وں اور لڑکیوں کو عین اس وقت ختم کر دیا گیا ہے ، جب وہ کشتی میں سوار ہو رہے تھے ۔ چھاپہ ماروں کی سرگرمیوں کوروکنے کے لیے فوج کے دو دستے سارے علاقے میں گشت کے لیے گزشتہ شام روانہ کر دئیے گئے اور انٹیلی جنس کے نظام کو اور زیادہ وسیع کر دیاگیاتھا ۔
         صلاح الدین ایوبی قدرے پریشان بھی تھا ۔ وہ کیا عزم لے کر مصر میں آیاتھا اور اب سلطنت اسلامیہ کے استحکام اور وسعت کے لیے اس نے کیا کیا منصوبے بنائے تھے ، مگر اُس کے خلاف زمین کے اوپرسے بھی اور زمین کے نیچے سے بھی ایسا طوفان اُٹھا تھا کہ اسکے منصوبے لرزنے لگے تھے ۔ اُسے پریشانی یہ تھی کہ مسلمان کی تلوار مسلمان کی گردن پر لٹک رہی تھی ۔ ایمان کا نیلام ہونے لگا تھا ۔سلطنت اسلامیہ کی خلافت بھی سازشوں کے جال میں اُلجھ کر سازشوں کا حصہ اور آلئہ کار بن گئی تھی ۔ زن اور زر نے عرب سر زمین کو ہلاڈالاتھا ۔ سلطان ایوبی اس سے بھی بے خبر نہیں تھا کہ اسے قتل کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں ، لیکن اس پر وہ کبھی پریشان نہیں ہواتھا ۔ کہا کرتا تھا کہ میری جان اللہ کے ہاتھ میںہے ۔ اس کی ذاتِ باری کوجب زمین پرمیرا وجود بیکار لگے گاتو مجھے اُٹھالے گا۔لہٰذا اس نے اپنے طور پر اپنی حفاظت کا کبھی فکر نہیں کیاتھا۔ یہ تو اُس کی فوجی انتظامیہ کا بندو بست تھا کہ کہ اسکے گرد محافظوں کے دستے اور انٹیلی جنس کے آدمی موجود رہتے تھے اور علی بن سفیان تو اس معاملے میں بہت چوکس تھا ۔ایک تو یہ اُس کی ڈیوٹی تھی ، دوسرے یہ کہ وہ سلطان ایوبی کواگر پیغمبر نہیں تو اپنا پیرو مُرشد ضرور سمجھتا تھا ۔
         اس روز سلطان ایوبی نائبین کو احکامات اور ہدایات دے رہا تھا ، جب دو گھوڑے اس کے محافظ دستے کی بنائی ہوئی حد پررُکے۔ انہیں محافظوں کے کمانڈر نے روک لیا تھا۔ سوار میگناناماریوس اور موبی تھے ۔وہ گھوڑے سے اُترے تو گھوڑوں کی باگیں ان کے ساتھی نے تھام لیں ۔ موبی نے کمانڈر سے کہا کہ وہ اپنے باپ کو ساتھ لائی ہے۔ سلطان ایوبی سے ملنا ہے ۔ کمانڈر نے میگناناماریوس سے بات کی اور ملاقات کی وجہ پوچھی ۔ میگناناماریوس نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو۔ وہ یہ زبان نہیں سمجھتا ہی تھا۔ موبی نے اپنا نام اسلامی بتایا تھا ۔ ان نے کمانڈر سے کہا …… '' اس سے بات کرنا بے کار ہے، یہ گونگا اور بہرہ ہے …… ملاقات کا مقصد ہم سلطان ایوبی کو یااس کے کسی بڑے افسر کو بتائیں گے ''۔
         علی بن سفیان باہر ٹہل رہاتھا ۔ اس نے میگناناماریوس اورموبی کو دیکھا تو ان کے پاس آگیا۔ اس نے اسلام و علیکم کہا تو موبی نے وعلیکم السلام کہا۔ کمانڈر نے اسے بتایا کہ یہ سلطان سے ملنا چاہتے ہیں ۔ علی بن سفیان نے میگناناماریوس سے ملاقات کی وجہ پوچھی تو موبی نے اسے بتایا کہ یہ میرا باپ ہے ، گونگا اور بہرہ ہے۔ علی بن سفیان نے انہیں بتایاکہ سلطان ابھی بہت مصروف ہیں ، فارغ ہو جائیں گے تو اُن سے ملاقات کا وقت لیا جائے گا ۔ اس نے کہا ……'' آپ ملاقات کا مقصد بتائیں ۔ہو سکتا ہے کہ آپ کا کا م سلطان سے ملے بغیر ہو جائے ۔ سلطان چھوٹی چھوٹی شکایتوں کے لیے ملاقات کاوقت نہیں نکال سکتے۔ متعلقہ محکمہ از خود ہی شکایت رفعہ کر دیتا ہے ''۔
         '' کیا سلطان ایوبی اسلام کی ایک مظلوم بیٹی کی فریاد سننے کے لیے وقت نہیں نکا ل سکیں گے ؟''…… موبی نے کہا ……''مجھے جو کچھ کہنا ہے ، وہ میںانہی سے کہوں گی ''۔
         '' مجھے بتائے بغیر آپ سلطان سے نہیں مل سکیں گی ''…… علی بن سفیان نے کہا ۔'' میں سلطان تک آپ کی فریاد پہنچائوں گا ۔ وہ ضروری سمجھیں گے تو آپ کو اندر بلا لیں گے'' …… علی بنی سفیان انہیں اپنے کمرے میں لے گیا ۔
         موبی نے شمالی علاقے کے کسی قصبے کا نام لے کرکہا ……''دو سال گزرے سوڈانی فوج وہاں سے گزری ۔ میں بھی لڑکیوں کے ساتھ فوج دیکھنے کے لیے باہر آگئی ۔ ایک کماندار نے اپنا گھوڑا موڑا اورمیرے پاس آکر میرا نام پوچھا ۔ میں نے بتایا تو اس نے میرے باپ کو بلایا ۔ اسے پرے لے جا کر کوئی بات کی ، کسی نے کماندار سے کہا کہ یہ گونگا اور بہرہ ہے ۔ کماندار چلا گیا ۔ شام کے بعد چار سوڈانی فوجی ہمارے گھر آئے اور مجھے زبردستی اُٹھا کر لے گئے اور کماندار کے حوالے کردیا ۔اس کا نام بالیان تھا ۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے آیا او ر حرم میں رکھ لیا ۔ اُس کے پاس چار اور لڑکیاں تھیں۔میں نے اسے کہاکہ میرے ساتھ باقاعدہ شادی کرلے، لیکن اس نے مجھے شادی کے بغیر ہی بیوی بنائے رکھا ۔ دوسال اس نے مجھے اپنے پاس رکھا ۔ سوڈانی فوج نے بغاوت کی تو بالیان چلا گیا ۔ معلوم نہیں مارا گیا ہے یا قید میں ہے ۔ آپ کی فوج اس کے گھر میں آئی اور ہم سب لڑکیوں کو یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا تم سب آزاد ہو ……
         میں اپنے گھر چلی گئی۔ میرے باپ نے شادی کرنی چاہی تو سب نے مجھے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ کہتے ہیں کہ یہ حرم کی چچوڑی ہوئی ہڈی ہے ، وہاں لوگوں نے میرا جینا حرام کر دیا ہے ۔ ہم سرائے میں ٹھہرے ہیں۔ سنا تھا کہ سلطان سوڈانیوں کو زمینیں اور مکان دے رہے ہیں ۔ مجھے آپ بالیان کی داشتہ یا اس کی بیوی سمجھ کہ یہاں زمین اور مکان دے دیں ، تا کہ میںاُس قصبے سے نکل آئوں۔ ورنہ میں خود کشی کر لوں گی یا گھر سے بھاگ کر کہیں طوائف بن جائوںگی ''۔
         ''اگر آپ کو زمین سلطان سے ملے بغیر مل جائے تو سلطان سے ملنے کی کیا ضرورت ہے ؟''…… علی بن سفیان نے کہا۔
         ''ہاں! ''…… موبی نے کہا ……''پھر بھی ملنے کی ضرورت ہے ۔ اُسے آپ عقیدت بھی کہہ سکتے ہیں ۔ میں سلطان کو صرف یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اس کی سلطنت میں عورت کھلونا بنی ہوئی ہے ۔ دلت مندوں اور حاکموں کے ہاں شادی کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ خدا کے لیے عورت کی عصمت کو بچائو اور عورت کی عظمت کو بحال کرو ۔ سلطان سے یہ کہہ کر شاید میرے دل کو سکون آجائے گا ''۔
         میگناناماریوس اس طرح خاموش بیٹھا رہا ، جیسے اس کے کان میں کوئی بات نہیں پڑ رہی۔ علی بن سفیان نے موبی سے کہا کہ سلطان کو اجلاس سے فارغ ہونے دیں پھر ان سے ملاقات کی اجازت لی جائے گی ۔ یہ کہہ کر علی بن سفیان باہر نکل گیا ۔ وہ بہت دیر بعد آیااور کہا کہ وہ سلطان سے اجازت لینے جا رہا ہے ۔ وہ سلطان ایوبی کے کمرے میں چلا گیا اورخاصی دیر بعد آیا۔ اس نے موبی سے کہا کہ اپنے باپ کو سلطان کے پاس لے جائو ۔ اس نے انہیں سلطان ایوبی کا کمرہ دکھا دیا ۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دونوں نے باہر کی طرف دیکھا ۔ وہ غالباً قتل کے بعدوہاں سے نکلنے کا راستہ دیکھ رہے تھے ۔
                                                                        ٭         ٭         ٭
         سلطان کمرے میں اکیلا تھا ۔ اس نے دونوں کو بٹھایا اور موبی سے پوچھا ۔'' کیا تمہار باپ پیدائشی گونگا اور بہرہ ہے ؟''
         ''ہاں سلطانِ محترم !''…… موبی نے جواب دیا ……''یہ اس کا پیدائشی نقص ہے ''۔
         سلطان ایوبی بیٹھا نہیں ، کمرے میں ٹہلتا رہا اور بولا …… ''میں نے تمہاری شکایت اور مطالبہ سن لیا ہے۔ مجھے تمہارے ساتھ پوری ہمدردی ہے ۔ میں تمہیں یہاں زمین بھی دوں گا اور مکان بھی بنوا دوں گا ۔ سنا ہے تم کچھ اور بھی مجھ سے کہنا چاہتی ہو ''۔
         '' اللہ آپ کا اقبال بلند کرے !''…… موبی نے کہا……'' آپ کو بتا دیا گیا ہوگا کہ میرے ساتھ کوئی آدمی شادی نہیں کرتا ۔ لوگ مجھے حرم کی چچوڑی ہوئی ہڈی ، فاحشہ اور بدکار کہتے ہیں اور میرے باپ کو کہتے ہیں کہ اس نے بیٹی بیچ ڈالی تھی ۔ آپ مجھے زمین اور مکان تو دے دیں گے ، لیکن مجھے ایک خاوند کی ضرورت ہے ، جو میری عزت کی رکھوالی کرے ''…… اس نے جھجک کر کہا ……'' میں ایسی بات کہنے کی جرأ ت نہیں کر سکتی ، لیکن اپنی ماں کی عرضداشت آپ تک پہنچانا چاہتی ہوں کہ آپ اگر میری شادی نہیں کرا سکتے تو مجھے اپنے حرم میں رکھ لیں ۔ آپ میری عمر، میری شکل و صورت اور میرا جسم دیکھیں ۔ کیا میں آپ کے قابل نہیں ہوں ؟'' یہ کہہ کر اس نے میگناناماریوس کے کندھے پرہاتھ رکھ کر دوسرا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا اور سلطان ایوبی کی طرف اشارہ دیا ۔ یہ اشارہ شاید پہلے سے طے شدہ تھا ۔ میگناناماریوس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلطان ایوبی کی طرف کیے اور پھر موبی کے ہاتھ پکڑ کر سلطان ایوبی کی طرف بڑھایا، جیسے وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری بیٹی قبول کر لو ۔
         '' میرا کو ئی حرم نہیں لڑکی !'' …… سلطان ایوبی نے کہا ……''میں ملک سے حرم ، قحبہ خانے اور شراب ختم کر رہا ہوں '' …… بات کرتے کرتے اس نے اپنی جیب سے ایک سکہ نکالا اورہاتھ میں اُچھالنے لگا ۔ اس نے کہا …… '' میں عورت کی عزت کا محافظ بنناچاہتاہوں ''…… یہ کہتے کہتے وہ دونوں کی پیٹھ پیچھے چلا گیا اور سکہ ہاتھ سے گرا دیا ۔ ٹن کی آواز آئی تو میگناناماریوس نے چونک کر پیچھے دیکھا اور پھر فوراً ہی سامنے دیکھنے لگا ۔
         صلاح الدین ایوبی نے تیزی سے اپنے کمر بند سے ایک فٹ لمبا خنجر نکا ل کر اس کی نوک میگناناماریوس کی گردن پر رکھ دی اور موبی نے سے کہا ۔
         '' یہ شخص میری زبان نہیں سمجھتا ۔ اُسے کہو کہ اپنے ہاتھ سے اپنا ہتھیار پھینک دے ۔اس نے ذرا سی پس و پیش کی تو یہاں سے تم دونوں کی لاشیں اُٹھائی جائیں گی ''۔
         موبی کی آنکھیں حیرت اور خوف سے کھل گئیں ۔ اس نے اداکاری کا کمال دکھانے کی کوشش کی اور کہا ……''میرے باپ کو ڈرا دھمکا کر آپ مجھ پر کیوں قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ میں تو خود ہی اپنے آپ کو پیش کر رہی ہوں ''۔
         '' تم جب محاظ پر میرے سامنے آئی تھیں تو تم میری زبان نہیں بولتی تھیں ''۔ سلطان ایوبی نے کہا اورخنجر کی نوک میگناناماریوس کی گردن پر رکھے رکھی ۔ اُس نے کہا ……'' کیا تم اتنی جلدی یہاں کی زبان بولنے لگی ہو ؟ …… اس کہو کہ ہتھیار فوراً باہر نکال دے ''۔
         موبی نے اپنی زبان میں میگناناماریوس سے کچھ کہا تو اُس نے چغے کے اندر ہاتھ ڈال کر خنجر باہر نکالا جو اتنا ہی لمبا تھا جتنا سلطان ایوبی کا تھا ۔ سلطان نے اس کے ہاتھ سے خنجر لے لیا اور اپنا خنجر اس کی گردن سے ہٹا کر کہا ……'' باقی چھ لڑکیاں کہاں ہیں ؟''۔
         '' آپ نے مجھے پہچاننے میں غلطی کی ہے ''…… موبی نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا ……'' میرے ساتھ اورکوئی لڑکی نہیں ہے ۔ آپ کون سی چھ لڑکیوںکی بات کر رہے ہیں ؟''
         '' مجھے خدا نے آنکھیں دی ہیں '' …… سلطان ایوبی نے کہا …… '' اور خدا نے مجھے ذہن بھی دیا ہے ، جس میں وہ چہرے نقش ہو جاتے ہیں جنہیں ایک بار آنکھ دیکھ لیتی ہے ۔ تمہارا چہرہ جو آدھا نقاب میں ہے ، میں نے پہلے بھی دیکھا ہے …… تمہیں اور تمہارے اس ساتھی کو خدا نے اتنا ناقص ذہن دیا ہے کہ جس کام کے لیے تم آئے تھے ، تم اس قابل نہیں ۔ سرائے میں تم دونوں میاں اور بیوی تھے ۔ یہاں آکر تم باپ اوربیٹی بن گئے ، مگر تم ہو کچھ بھی نہیں اور تمہارا ایک ساتھی باہر گھوڑوں کے پاس کھڑا ہے ، وہ تمہارا نوکر نہیں ۔ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے ''۔
         یہ کمال علی بن سفیان کا تھا ۔ اسے موبی نے بتایا تھا کہ وہ سرائے میں ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ وہ ان دونوں کو اپنے کمرے میں بٹھا کر باہر نکل گیا اور گھوڑوے پر سوار ہو کر سرائے میں چلا گیا تھا۔ سرائے والوں سے اُس نے ان کے حلیے بتا کر پوچھا تو اسے بتایا گیا تھا کہ وہ میاں بیوی ہیں اور ان کے ساتھ ان کا نوکر ہے ۔ اسے یہ بھی بتایا گیا کہ انہوں نے بازار سے کچھ کپڑے بھی خریدے تھے ، جن میں لڑکی کا برقعہ نما چغہ اور جوتے بھی تھے ۔انہوں نے علی بن سفیان سے کہا تھا کہ وہ میاں بیوی ہیں۔اس نے اور کوئی تفتیش نہیں کی ۔ ان کے کمرے کا تالا توڑ کر ان کے سامان کی تلاشی لی ۔ اس سے چند ایسی اشیاء برآمد ہوئیں جنہوں نے شک کو یقین میں بدل دیا ۔ علی بن سفیان سمجھ گیا کہ سلطان ایوبی سے ان کا تنہائی میں ملنے کا مطلب کیا ہوسکتا ہے ۔ اس نے ان کے گھوڑے دیکھے تھے ۔ اعلیٰ نسل کے تیز رفتار گھوڑے تھے ۔ سرائے والے سے ان کے گھوڑوں کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ یہ تینوں مسافر اونٹوںپر آئے تھے اور یہ گھوڑے لڑکی نے یہ کہہ کر منگوائے تھے کہ نہایت اچھے ہوں اور تیز رفتار ہوں ۔ سرائے والوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ لڑکی کا خاوند گونگا معلوم ہوتا ہے ، وہ کسی سے بات نہیں کرتا ۔ دراصل وہ یہاں کی زبان نہیں جانتا تھا ۔
         علی بن سفیان نے واپس آکر دیکھا کہ اجلاس ختم ہو گیاہے تو وہ سلطان ایوبی کے پاس چلا گیا۔ اسے ان کے متعلق بتایا اور وہ کہانی بھی سنائی جو لڑکی نے اسے سنائی تھی ۔ پھر سرائے سے معلومات اس نے حاصل کی تھیں اور ان کے سامان سے جو مشکوک چیزیں برآمد کیں تھیں ، وہ دکھائیں اور اپنی رائے یہ دی کہ آپ کو قتل کرنے آئے ہیں ۔ آپ سے تنہائی میں ملنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے یہ منصوبہ بنایا ہوگا کہ آپ کو قتل کرکے نکل جائیں گے ۔ جتنی دیر میں کسی کو پتہ چلے گا، اتنی دیر میں وہ تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر شہر سے دُور جا چکے ہوں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے یہ لوگ آپ کو اتنی خوبصورت لڑکی کے چکر میں ڈال کر خواب گاہ میں قتل کرنا چاہتے ہوں گے۔
         سلطان ایوبی سوچ میں پڑ گیا ۔ پھر کہا …… '' انہیں ابھی گرفتار نہ کرو ۔ میرے پاس بھیج دو ''۔
         علی بن سفیان نے انہیں اندر بھیج دیا اور خود سلطان ایوبی کے کمرے کے دروازے کے ساتھ لگا کھڑا رہا ۔اس نے محافظ دستے کے کمانڈر کو بلا کر کہا …… '' ان دونوں گھوڑوں کو اپنے گھوڑوں کے ساتھ باندھ دو اور زینیں اُتار دو اور ان کے ساتھ جو آدمی ہے ، اسے حراست میں بٹھا لو ۔ اس کے تلاشی لو ۔ اس کے کپڑوں کے اندر خنجر ہوگا ۔ وہ اس سے لے لو ''۔
         ان احکام پر عمل ہوگیا ۔ میگناناماریوس کا ساتھی گرفتار ہو گیا ۔ اس سے ایک خنجر برآمد ہوا ۔ گھوڑوں پر بھی قبضہ کر لی گیا۔
         اور جب انہیں سلطان ایوبی کے کمرے میں داخل کیا گیا تو باتوں باتوں میں سلطان نے ایک سکہ فرش پر پھینک کر یقین کر لیا کہ یہ شخص بہرہ نہیں ۔ سکے کی آواز پر اس نے فوراً پیچھے مُڑ کر دیکھا تھا ۔
         صلاح الدین ایوبی نے لڑکی سے کہا ……'' اسے کہو کہ میری جان صلیبیوں کے خدا کے ہاتھ میں نہیں ، میرے اپنے خدا کے ہاتھ میں ہے ''۔
         موبی نے اپنی زبان میں میگناناماریوس سے بات کی تو اس نے چونک کر کچھ کہا ۔ موبی نے سلطان ایوبی سے کہا ……'' یہ کہتا ہے ، کیا آپ کا خدا کوئی اور ہے اور کیامسلمان بھی خدا کو مانتے ہیں ؟''
         '' اسے کہو کہ مسلمان اس خدا کو مانتے ہیں جو سچا ہے اور سچے عقیدے والوں کو عزیز رکھتا ہے ''…… سلطان ایوبی نے کہا …… '' مجھے کس نے بتایا ہے کہ تم دونوں مجھے قتل کرنے آئے ہو ؟ …… میرے خدا نے ، اگر تمہارا خدا سچا ہوتا تم تمہارا خنجر مجھے ہلاک کر چکا ہوتا ۔ میرے خدا نے تمہارا خنجر میرے ہاتھ میں دے دیا ہے ''۔ اس نے ایک تلوار کہیں سے نکالی اور چند اشیاء انہیں دکھا کر کہا ……'' یہ تلوار اور چیزیں تمہاری ہیں ۔ یہ تمہارے ساتھ سمندر پار سے آئی ہیں ۔ تم سے پہلے یہ مجھ تک پہنچ گئی ہیں ''۔
         میگناناماریوس حیرت سے اُٹھ کھڑا ہوا ۔ اس کے آنکھیں اُبل کر باہر آگئیں ، جتنی باتیں ہوئیں ، وہ موبی کی وساطت سے ہوئی۔ میگناناماریوس نے بولنا شروع کر دیا اور وہ صرف اپنی زبان بولتا اور سمجھتا تھا ۔ خدا کے متعلق یہ باتیں سن کر اس نے کہا…… '' یہ شخص سچے عقید ے کا معلوم ہوتاہے ۔ میں اس کی جان لینے آیا تھا ، لیکن اب میری جان اس کے ہاتھ میں ہے ۔ اسے کہو کہ تمہارے سینے میں ایک خدا ہے ، وہ مجھے دکھائے ۔ میں اس خدا کو دیکھنا چاہتا ہوں ، جس نے اسے اشارہ دیا ہے کہ ہم اسے قتل کرنے آئے ہیں ''۔
         سلطان ایوبی کے پاس اتنی لمبی چوڑی باتوں کا وقت نہیں تھا ۔ اُسے چاہیے تھا کہ ان دونوں کو جلاد کے حوالے کر دیتا، لیکن اس نے دیکھا کہ یہ شخص بھٹکا ہوا معلوم ہوتا ہے ، اگر یہ پاگل نہیں تو یہ ذہنی طو پر گمراہ ضرور ہے ، چنانچہ اس نے اس کے ساتھ دوستانہ انداز میں باتیںشروع کر دیں ۔ اس دوران علی بن سفیان اندر آگیا ۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سلطان خیریت سے تو ہے ، سلطان ایوبی نے مُسکرا کر کہا ۔ '' سب ٹھیک ہے علی !  میں نے ان سے خنجر لے لیا ہے '' …… علی بن سفیان سکون کی آہ بھر کر باہر چلا گیا ۔
         میگناناماریوس نے کہا ……'' پیشتر اس کے کہ سلطان میری گردن تن سے جدا کردے ، میں اپنی زندگی کی کہانی سنانے کی مہلت چاہتا ہوں''۔
         سلطان ایوبی نے اجازت دے دی ۔ میگناناماریوس نے بالکل وہ کہانی جورات صحرا میں اس نے اپنے پارٹی کمانڈر اور اپنے ساتھیوں کو سنائی تھی ، من و عن سلطان ایوبی کو سنا دی ۔ اب کے اس نے صلیب پر لٹکتے ہوئے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بُت ، کنواری مریم کی تصویر اور پادریوں کے اُس خدا سے جس سے وہ پادری کی اجازت کے بغیر با ت بھی نہیں کر سکتا تھا ، بیزاری کا اظہار اور زیادہ شدت سے کیا اور کہا ……'' مرنے سے پہلے مجھے خدا کی ایک جھلک دکھا دو ۔ میرے خدا نے بچوں کو بھوکا مار دیا ہے ، میری ماں کو اندھا کر دیا ہے ، میری بہن کو شرابی وحشیوں کا قیدی بنا دیا ہے اور مجھے تیس سالوں کے لیے قید خانے میں بند کر دیا ہے ، میں وہاں سے نکلا تو موت کے منہ میں آپڑا ۔ سلطان ! میری جان تیرے ہاتھ میں ہے ، مجھے سچا خدا دکھا دے ، میں اس سے فریاد کروں گا ، اس سے انصاف مانگوں گا ''۔
         '' تیری جان میرے ہاتھ میں نہیں ''۔سلطان ایوبی نے کہا …… '' میرے خدا کے ہاتھ میں ہے ، اگر میرے ہاتھ میں ہوتی تو اس وقت تک تم میرے جلاد کے پاس ہوتے ، میں تمہیں وہ سچا خدا دکھا دوں گا ، جو تیری گردن مارنے سے مجھے روک رہا ہے ، لیکن تجھے اس خدا کا سچا عقیدہ قبول کرنا ہوگا، رونہ خدا تمہاری فریاد نہیں سنے گا اور انصاف بھی نہیں ملے گا ''……سلطان ایوبی نے اس کا خنجر اس کی گود میں پھینک دیا اور خود اس کے پاس جا کر اس کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہوگیا ۔ موبی سے کہا …… '' اسے کہو میں اپنی جان اس کے حوالے کرتا ہوں ۔ یہ خنجر میری پیٹھ میں گھونپ دے ''۔
         میگناناماریوس نے خنجر ہاتھ میں لے لیا ۔ اسے غور سے دیکھا ۔ سلطان ایوبی کی پیٹھ پر نگاہ دوڑائی ۔ اُٹھا اور سلطان کے سامنے چلا گیا ۔ اسے سر سے آئوں تک دیکھا ۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی جلالی شخصیت کا اثر تھا یا سلطان کی آنکھوں کی چمک میں اُسے سچا خدا نظر آگیا کہ اس کے ہاتھ کانپے ۔ اس نے خنجر سلطان ایوبی کے قدموں میں رکھ دیا ۔ وہ دوزانو بیٹھ گیا اور سلطان کے ہاتھ چوم کر زارو قطار رونے لگا ۔ ……موبی سے کہا……'' اسے کہو کہ یا تو یہ خود خدا ہے یا اس نے خدا کو اپنے سینے میں قید کر رکھا ہے ۔ اسے کہو مجھے اپنا خدا دکھا دو ''۔
         سلطان ایوبی نے اُسے اُٹھایا اور سینے سے لگا کر اپنے ہاتھ سے اس کے آنسو پونچھے ۔
         وہ تو بھٹکا ہوا انسان تھا ۔ اس کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھر دی گئی تھی اور اسلا م کے خلاف زہر ڈالا گیاتھا ۔ پھر حالات نے اسے اپنے مذہب سے بیزا ر کیا۔ یہ ایک قسم کا پاگل پن تھا اور ایک تشنگی تھی جو اسے ایسی خطرناک مہم پر لے آئی تھی ۔ سلطان ایوبی اُسے بے گناہ سمجھتا تھا ، لیکن اسے آزاد بھی نہ کیا ، بلکہ اپنے پاس رکھ لیا ۔ موبی باقاعدہ ٹریننگ لے کر آئی تھی اور مفرور جاسوسہ تھی ۔ یہ وہ ساتویں لڑکی تھی جس نے صلیبیوں کا پیغام سوڈانیوں تک پہنچایا اور بغاوت کرائی تھی ۔ وہ ملک کی دشمن تھی ۔ اسے اسلامی قانون نہیں بخش سکتا تھا ۔ سلطان نے اُسے اور اس کے ساتھی کو علی بن سفیان کے حوالے کر دیا ۔ تفتیش میں دونوں نے اقبالِ جرم کر لیا اور یہ بھی بتا دیا کہ رسد کے قافلے کو انہوں نے ہی لوٹا تھا اور لڑکیوں کو بھی انہوں نے آزاد کرایااور محافظ دستے کو ہلاک کیا تھا اور بالیان اور اس کے ساتھیوں کو بھی انہوں نے ہلاک کیا تھا ۔
         یہ تفتیش تین دن جاری رہی ۔ اس دوران میگناناماریوس کا دماغ روشن ہو چکا تھا ۔ ایک بار اس نے سلطان ایوبی سے پوچھا ……'' کیا آپ نے اس لڑکی کو مسلمان کر کے اپنے حرم میں رکھ لیا ہے ؟''
         ''آج شام کو اس کا جواب دوں گا ''…… سلطان ایوبی نے جواب دیا ۔
         شام کے وقت سلطان ایوبی نے میگناناماریوس کو ساتھ لیا اور کچھ دُور جا کر ایک احاطے میں لے گیا ۔لکڑی کے دو تختے پڑے تھے ۔ ان پر سفید چادریں پڑی ہوئی تھیں۔ سلطان ایوبی نے چادروں کو ایک طرف سے اُٹھایا اور میگناناماریوس کو دکھایا ، اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۔ اس کے سامنے موبی کی لاش پڑی تھی اور دوسرے تختے پر اس کے ساتھی کی لاش تھی ۔ سلطان ایوبی نے موبی کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کھینچا ، گردن کندھے سے جدا تھی ۔ اس نے میگناناماریوس سے کہا ……'' میں اسے بخش نہیںسکتا تھا ، تم اسے اپنے ساتھ لائے تھے کہ میں اس کے حسن اور جسم پر فدا ہوجائوں گا ، مگر اس کا جسم مجھے ذرا بھر اچھا نہیں لگا ، یہ ناپاک جسم تھا ۔ یہ اب مجھے اچھا لگ رہا ہے ۔ جب جبکہ اس جسم سے اتنی حسین شکل و صورت جدا ہوچکی ہے ۔ مجھے یہ بہت اچھی لگ رہی ہے ۔ اللہ اس کے گنا ہ معاف کرے ''۔
         ''سلطان!''…… میگناناماریوس نے پوچھا …… ''آپ نے مجھے کیوں بخش دیا ؟''
         '' اس لیے کہ تم مجھے قتل کرنے آئے تھے ''……سلطان ایوبی نے جواب دیا ……'' مگر یہ میری قوم کے کردار کو قتل کرنے آئی تھی اورر تمہارا یہ ساتھی بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بہت سے لوگوں کا قاتل بنا اور تم نے میرا خون بہا کر خدا کو دیکھنا چاہا تھا ''۔
         چند دِنوں بعد میگناناماریوس سیف اللہ بن گیا جو بعد میں سلطان ایوبی کے محافظ دستے میں شامل ہوا اور جب سلطان ایوبی خالقِ حقیقی سے جا ملا ، تو سیف اللہ نے زندگی کے آخری سترہ برس سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر پر گزار دئیے۔ آج کسی کو بھی معلوم نہیں کہ سیف اللہ کی قبر کہاں ہے۔

No comments:

Post a Comment